لیڈر کیسے بنا جائے

تحریک انصاف کی قیادت اس وقت مواقع گنواتے جارہی ہے اور درست وقت پردرست فیصلہ نہیں کرپارہی جسکی وجہ سےمشکلات بڑھ رہی ہیں


شاہد کاظمی October 30, 2016
افسوس یہ کہ تحریک انصاف کی قیادت بار بار اپنے کارکنان کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ان کی قیادت نہ تو پولیس کی لاٹھی کھانے کی سکت رکھتی ہے اور نہ آنسو گیس سہہ کر آنسو بہا سکتی ہے۔

میری نسل کے صحافت کے طالبعلموں نے نہ تو ضیاء کا دور حکومت دیکھا ہے اور نہ ہی محترمہ بینظیر بھٹو کے مصائب کا مشاہدہ کیا ہے۔ مگر جب ایک باہمی لڑائی کو ضیاء دور سے مشابہت دینے کی کوشش کی تو نہ جانے کیوں کچھ پرانی تصاویر کھنگالنے کا شوق ہوا اور اُن تصاویر میں اور آج کی دو خواتین کی لڑائی میں کسی بھی طرح کی مماثلت نظر نہیں آئی نہ ہی محترمہ کی مشکلات اور آج کی خواتین کی مشکلات میں کوئی شباہت پیدا ہوئی۔ ایک طالبعلم ہونے کے ناطے بھی مجھے یقین سا ہو چلا ہے کہ نہ تو اب وہ حالات رہے ہیں جب مخالفین کو صعوبتوں میں ڈالا جاتا تھا اور نہ ہی وہ راہنما رہے ہیں جو صعوبتیں برداشت کرنے کے عادی تھے۔ اب صرف سیاستدان باقی ہیں۔ ہمارے آج کے دور کے سیاستدان جو ضیائی دور دیکھ بھی چکے ہیں وہ بھی اب کچھ ایسی سہل پسندی کا شکار ہوچکے ہیں کہ چاہے کارکن مٹی کیچڑ میں لت پت ہوجائے، ڈنڈوں کی یلغار ہوجائے، ان کے سامنے ہی کارکنوں کو رگیدا کیوں نہ جائے، مگر مجال ہے کہ اُن کا کلف اُترنے پائے۔



میاں محمد نواز شریف صاحب کا انداز حکمرانی جمہور کے اصولوں کے عین مطابق ہے یا بادشاہت کا رنگ رکھتا ہے یہ الگ بحث ہے مگر اُن کے غیر مقبول اقدامات پر بھی کون سا ایسا رہنما ہے جو ان کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے؟ کون سی ایسی حقیقی اپوزیشن پارٹی ہے جو اس وقت اُن کے اقدامات کے جواب میں عوام کو ان کے خلاف کھڑا کرسکتی ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ اہم ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے سوالات کی اہمیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کا کردار دن بدن غیر یقینی ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو آئینی طور پر اپوزیشن کا کردار نبھا رہی ہے وہ میثاق جمہوریت سے ہی نہیں نکل پارہی

۔

لہذا اِس وقت غیر جانبدار تجزیہ کار بھی پاکستان تحریک انصاف کو ہی حقیقی اپوزیشن گردانتے ہیں۔ مگر پاکستان تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما اس وقت مواقع گنواتے جا رہے ہیں اور درست فیصلہ درست وقت پر نہیں کرپا رہے۔

ضیاء دور کی آمریت میں جس طرح سے صحافیوں، مخالف سیاستدانوں، انقلابی رہنماؤں کو سزائیں دی گئیں وہ کسی بھی طرح سے آج کے دور میں نہ تو ممکن ہیں نہ ہمارے آج کے رہنماوں میں وہ ہمت و سکت ہے کہ اُس طرح کی مشکلات وہ برداشت کرسکیں۔ موجودہ رہنماؤں کو کچھ ایسے جیالے میسر ہیں جو صرف ایک پکار پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ سوچے بناء کے ان کے رہنما بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا محلات میں سوشل میڈیا پر پیغامات بھیج رہے ہوں گے۔





یہ سب لکھنے کی بنیادی وجہ حالیہ آپریشن راولپنڈی ہے، جس میں اہم ترین اپوزیشن پارٹی کی تمام سیاسی قیادت دبکی بیٹھی رہی اور صرف ایک رہنما جس کی اپنی پارٹی کی نمائندگی قومی ایوان میں صرف ایک نشست تک محدود ہے پوری انتظامیہ کو تگنی کا ناچ نچوانے کے بعد نہ صرف اپنے لوگوں میں پہنچا بلکہ اپنے سیاسی قد میں بھی اضافہ کرگیا۔



آخر کیا وجہ ہے کہ لاہور جلسے سے ملنے والی مقبولیت کو پاکستان تحریک انصاف اب تک استعمال نہیں کرپائی؟ راولپنڈی لیاقت باغ میں پاکستان تحریک انصاف کے اجتماع میں راقم کو بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ اکثریت انصافین جیالے صرف اپنے رہنما کی کال پر آئے۔ بناء یہ جانے کہ ان کے رہنما نے انہیں بلایا کیوں ہے؟ اور یہاں آنے کا ایجنڈا کیا ہے؟ اِس طرح کے حمایتی مل جانے کو ہمارے رہنماؤں کی خوش قسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ ان کے جیالے صرف ان کے نام پر بندھے چلے آتے ہیں ورنہ جس طرح ہمارے راہنما مغربی طرز جمہوریت کی مثالیں دیتے ہیں ویسی جمہوریت قائم ہوجائے تو اُن کے جلسوں میں سوائے ان کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے کوئی بھولے سے بھی نہ آئے۔





دو شہروں کی پولیس کو چکمہ دے کر جس طرح شیخ رشید احمد کمیٹی چوک پہنچے اور جس دھڑلے سے انہوں نے میڈیا کے سامنے سگار سلگایا وہ ان کے مخالفین کو بھی نہ روک پایا کہ وہ ان کی اس آنکھ مچولی کی تعریف کریں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن لاٹھیاں کھاتے رہے، گرفتار ہوتے رہے مگر تمام مرکزی قیادت بنی گالہ کے محلات سے باہر نہ نکل پائی اور صرف خود کو محصور کئے جانے کا واویلا کرتی رہی۔ حد تو یہ ہوئی کہ کسی بھی سطح کی علاقائی یا ضلعی قیادت بھی لال حویلی آنے کے اعلان پر عمل ثابت نہ کر پائی۔ یہ سارے معاملات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف سیاسی ناپختگی کا شکار ہوکر کس طرح خود کو ہی نقصان پہنچا رہی ہے۔



صرف ایک خاتون کارکن کی پولیس سے ہاتھا پائی کو ضیاء دور سے مماثلت دی جانے لگی مگر یہ غور نہیں کیا گیا کہ معراج محمد خان، حبیب جالب، نصرت بھٹو، محترمہ بی بی، نامور صحافی اور کارکنوں کے ساتھ اس وقت خود بھی کوڑے و دھکے کھاتے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کی طرح کلف لگے کپڑوں کی کلف نہیں بچاتے رہے۔



بہت سے طالبعلموں کی طرح راقم بھی پاکستان تحریک انصاف کو ایک تیسری اہم سیاسی قوت کے طور پر دیکھ رہا تھا اور امید بندھ چلی تھی کہ دو جماعتی نظام کا سکوت ٹوٹے گا مگر موجودہ حالات میں ایسا ممکن نہیں نظر آتا۔ جس طرح تحریک انصاف نے سڑک پر کارکنوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے بجائے بنی گالہ میں نظر بند ہونا قبول و منظور کیا اِس سے یہ واضح ثبوت ملتا ہے کہ کارکن جتنا بھی حوصلہ دکھائیں ان کی قیادت نہ تو پولیس کی لاٹھی کھانے کی سکت رکھتی ہے اور نہ آنسو گیس سہہ کر آنسو بہا سکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔