امریکی اسکول میں الم ناک سانحہ

اس انتہا پسندی کے رخ کا تعین کرنا امریکا اور مغربی ممالک کی حکومتوں کا کام ہے۔


December 15, 2012
اس انتہا پسندی کے رخ کا تعین کرنا امریکا اور مغربی ممالک کی حکومتوں کا کام ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

نیویارک کے شہرکنیکٹی کٹ کے ایک ایلیمنٹری اسکول میں جمعے کو ایک جنونی شخص کی فائرنگ کے نتیجے میں 18 بچوں سمیت 27 افراد ہلاک ہوگئے۔ وائٹ ہائو س کے ترجمان کا کہنا ہے کہ صدر بارک اوباما کو فائرنگ کے بارے میں فوراً مطلع کردیا گیا تھا،سفاکی کی اس واردات پر صدر اوباما بھی آب دیدہ ہو گئے۔ امریکا میں ہونے والی اس واردات کو دہشت گردی ہی کی ایک بہیمانہ شکل کہا جاسکتا ہے ۔

تاہم ابھی اس واقعے کے محرکات اور اس میں ملوث شخص کے بارے میں تفصیلات نہیں آئیں کہ وہ کون ہیں؟ تاہم اسکول کے معصوم بچوں سمیت دیگر افراد پر اندھا دھند فائرنگ کرکے انھیں موت کی نیند سلانے کا عمل انتہا درجہ کا وحشیانہ فعل ہے ، اس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے،مگر ڈر اس بات کا ہے کہ امریکی میڈیا اس قتل کی کڑی کوالقاعدہ کے ماسٹر مائنڈ یا کسی جہادی تحریک سے نہ جوڑ دے ۔ اس لیے مسلم ممالک خصوصاً پاکستان کو اس معاملے پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے تسلسل سے عالمی معاشروں میں ایک بھونچال آگیا ہے ۔

ادھر سرمایہ دار نظام نے مغربی ممالک میں بسنے والے انسان کو مشین بنادیا ہے ، میڈیا نے الگ ہنگامہ خیزی پیدا کررکھی ہے۔یوں دنیا بھر میں نظریاتی و مسلکی انتشار اور معاشی پریشانیوں نے انسانوں کو ذہنی طور پر بری طرح متاثر کیا ہے۔ امریکا سمیت یورپ اور دیگر ممالک کو ان وارداتوں کو خالص دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ انسان کی بیزاری اور ذہنی عدم توازن کے تناظر میں بھی جانچنا چاہیے۔نائن الیون سے پہلے 9 اپریل 1995 ء میںامریکا کے ایک جنونی دہشت گرد ٹموتھی میک وی نے اوکلاہاماسٹی میں ہولناک دہشت گردی کی تھی،لیکن قاتل کو آنافاناً مشرق وسطیٰ کے چہرے والا بتایاگیا ۔

اسی طرح 21 جولائی2011 ء کو اینڈرویو بریوک نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں بم دھماکا کرنے کے بعد ایک یوتھ کیمپ میں ظالمانہ فائرنگ کرکے90 سے زائد طلبا و طالبات کو موت کے گھاٹ اتارا، وہ نفسیاتی مریض اور مذہبی انتہا پسندی کے خود ساختہ ایجنڈے کا شکار ہوگیا تھا ۔اسی طرح نیو یارک ورلڈ ٹریڈ سینٹر نارتھ ٹاور پر بم دھماکا میں ملوث ملزمان کواولین فرصت میں امریکی ذرایع ابلاغ اورالیکٹرانک میڈیا نے القاعدہ اور خالد شیخ محمدکے رفقاء سے جا ملایا، اس کا خمیازہ آج کئی مسلم ممالک بھگت رہے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا یہ کبھی تسلیم نہیں کرتا کہ امریکی ویورپی مقامی معاشرہ میں بھی انتہا پسندی موجود ہے۔

اس انتہا پسندی کے رخ کا تعین کرنا امریکا اور مغربی ممالک کی حکومتوں کا کام ہے۔ ایک مغربی اخبار نے اوسلو سانحے پر عجلت میں ''القاعدہ کا قتل عام'' کی سرخی جمائی تھی اور اسے ناروے کا نائن الیون قرار دیا تھا جب کہ ایسی تمام دشت گردانہ وارداتوں میں جنونی عناصر ملوث ہوتے ہیں اور وہ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا میں جو واردات ہوئی ہے اس کا درست تناظر میں تجزیہ کیا جائے۔ تاکہ جنونی قاتل کا پتہ چل سکے کہ اس نے یہ کام کسی ذہنی بیماری کے باعث کیا ہے یا کہ وہ کسی دہشت گرد تنظیم کا آلہ کار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں