الیکشن فوج کرائے حکومت ہم کریں گے
رشوت ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ رشوت دینے اور لینے والے دونوں کو جہنمی کہا گیا ہے۔
ہم سب پاکستانی ووٹروں کو اپنے سیاستدانوں کی اس سادگی پر فوراً مر جانا چاہیے جو فوج سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی نگرانی اور ذمے داری میں الیکشن کرائے اور پھر حکومت بنا کر اسے چلانے کے لیے ہمارے حوالے کر دے اور خود ڈبل مارچ کرتی ہوئی جیسے آئی تھی اسی طرح واپس بیرکوں میں سستانے چلی جائے۔ یہ مطالبہ اس فوج سے کیا جا رہا ہے جو چار بار خود حکومت کر چکی ہے اور وہ بھی کسی بھی سیاسی حکومت سے لمبے عرصہ تک۔
یہ اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ جناب منظور احمد وٹو اور جناب عمران خان دونوں نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ پرامن الیکشن کے لیے یہ کٹھن کام اپنے ہاتھ میں لے لے۔ رینجر کو بھی اپنے ساتھ رکھے اور اس سے بھی کچھ ڈیوٹی لے لے۔ ذرا غور فرمایئے کہ کسی جمہوری نظام میں سب سے بڑا جمہوری عمل یہی الیکشن ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے قائم ہونے والی حکومت عوام کی پسند کی جمہوری حکومت کہلاتی ہے۔ لیکن ہمارے لاڈلے سیاستدان اس سیاسی عمل سے جان بچانا چاہتے ہیں اور وہ کسی زحمت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ دہشت گردی کے مقابلے میں سے کچھ وقت نکال کر فوج ان کے لیے الیکشن کرا دے تاکہ وہ حکومت بنا کر عیش کر سکیں۔
ہمارا کوئی دشمن اگر کہے کہ جو قوم اپنے ملک میں الیکشن تک نہیں کرا سکتی اسے جمہوریت کا نام لینے کا کیا ادھیکار ہے لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی فوج سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اس کے لیے الیکشن کرا کے اس کی حکومت بنا دے۔ اگر کوئی عوام سے پوچھے تو وہ شرم کے مارے چپ رہیں گے کہ یہ لوگ جیسی حکومت بھی بناتے اور چلاتے ہیں، یہ ہم بار ہا پہلے اور ان دنوں بھی دیکھ رہے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اب خود ان کے ہاتھ پاؤں اسی دنیا میں اعتراف کر رہے ہیں کہ ہر روز کتنے ارب کی کرپشن کی جا رہی ہے۔ انھوں نے اس حساب کتاب کے لیے قیامت کا انتظار بھی نہیں کیا۔ شاید بات اس قدر بڑھ چکی تھی کہ قیامت تک کھینچی نہیں جا سکتی تھی۔
قصہ زمیں برسر زمیں ہی بیان کرنا پڑا۔ کرپشن یعنی رشوت ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ رشوت دینے اور لینے والے دونوں کو جہنمی کہا گیا ہے۔ کیا یہ احساس جرم کی شدت تھی یا الیکشن میں عوام کی طرف سے باز پرس بذریعہ ووٹ کرنے کا ڈر تھا لیکن یہ ڈر تو اب بھی رہے گا۔ ہماری حکمران پارٹی کے بارے میں تو کھلم کھلا کہا جا رہا ہے کہ اسے ووٹ نہیں ملیں گے۔ خواہ وہ وٹو صاحب جیسے ماہر کو بھی کیوں نہ لے آئیں۔ اب وٹو صاحب جتنا زور بھی لگا دیں کام نہیں بنے گا۔ لیکن عمران خان کو کیا ہو گیا کہ وہ فوج کی مدد کے بغیر الیکشن نہیں لڑ سکتا۔
کیا وہ فوج کو سونامی سمجھتا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ اگر کسی پارٹی کو الیکشن میں ووٹروں کی بھاری مدد حاصل رہے گی تو وہ عمران خان کی پارٹی ہو گی لیکن عمران کو ہمارے اس خیال سے اتفاق نہیں ہے اور وہ تمام خطرات سے محفوظ فوجی الیکشن چاہتا ہے۔ ان دنوں لیڈروں نے تو الیکشن کمیشن سے باقاعدہ کہا کہ وہ فوج کی مدد لے۔ دوسری جماعتیں بھی اس سے اختلاف نہیں کریں گی اور اس طرح الیکشن تو فوج کرائے گی لیکن اس کے نتیجے میں حکومت یہ سیاستدان بنائیں گے۔ ہمارے سیاستدان فوج کو الیکشن میں لا کر اس سے امید رکھتے ہیں کہ وہ سب کچھ بنا سنوار کر ان کے سپرد کر دے گی اور سیاستدان مزے کریں گے یعنی کرپشن ہی کرپشن۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار پڑے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
خدا نہ کرے مگر فوج اگر غصے میں آ گئی تو انھیں ایسی دوا دے گی کہ وہ یاد کریں گے۔ جنرل کیانی کو یہ ضد ہے کہ وہ سیاست سے باہر رہیں گے ورنہ سوائے فوجی آمریت کے الزام کے ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ میرے جیسے کتنے پاکستانی ہیں جو جمہوریت کی پرستش کرتے رہیں گے۔ ورنہ ان سیاستدانوں کی تو تاریخ ہی فوج کے ساتھ تعاون کا ایک طویل سلسلہ ہے جو ایوب خان سے شروع ہوا اور پرویز مشرف تک جاری رہا۔ فوج نے ہمیشہ انھی سیاستدانوں کی مدد سے حکومت کی ورنہ صرف فوج کی حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کوئی تیس چالیس ہزار انگریزوں نے پورے ہندوستان پر سو ڈیڑھ سو سال حکومت کی۔ ہماری فوج تو لاکھوں میں ہے وہ اگر بیرونی دنیا کے دباؤ میں نہ آئے تو اسے حکومت سے کون الگ کر سکتا ہے، اسی دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں کہ جہاں مدتوں سے فوج حکومت کر رہی ہے اور سیاستدان اسے برداشت کر رہے ہیں۔
ایوب خان نے صرف اپنی حکومت چلانے کی کوشش کی لیکن وہ زیادہ دیر تنہا نہ چل سکے اور سیاستدانوں کو ساتھ ملانا پڑا۔ جو اس انتظار میں تھے کہ انھیں ایک نہ ایک دن بلانا ہی ہو گا۔ اس لیے جنرل کیانی شاید الیکشن کرا کے سیاستدانوں کو اقتدار دے دیں لیکن کوئی ایسی پابندی اور نگرانی لازم ہے کہ سیاستدان آئین کی خلاف ورزی نہ کریں اور کرپشن کو ایک حد کے اندر اندر رکھیں جس سے عوام انھیں برداشت کرتے رہیں اور الیکشن کے ذریعے تبدیلی ایک معمول بن جائے۔
یہ اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ جناب منظور احمد وٹو اور جناب عمران خان دونوں نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ پرامن الیکشن کے لیے یہ کٹھن کام اپنے ہاتھ میں لے لے۔ رینجر کو بھی اپنے ساتھ رکھے اور اس سے بھی کچھ ڈیوٹی لے لے۔ ذرا غور فرمایئے کہ کسی جمہوری نظام میں سب سے بڑا جمہوری عمل یہی الیکشن ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے قائم ہونے والی حکومت عوام کی پسند کی جمہوری حکومت کہلاتی ہے۔ لیکن ہمارے لاڈلے سیاستدان اس سیاسی عمل سے جان بچانا چاہتے ہیں اور وہ کسی زحمت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ دہشت گردی کے مقابلے میں سے کچھ وقت نکال کر فوج ان کے لیے الیکشن کرا دے تاکہ وہ حکومت بنا کر عیش کر سکیں۔
ہمارا کوئی دشمن اگر کہے کہ جو قوم اپنے ملک میں الیکشن تک نہیں کرا سکتی اسے جمہوریت کا نام لینے کا کیا ادھیکار ہے لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی فوج سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اس کے لیے الیکشن کرا کے اس کی حکومت بنا دے۔ اگر کوئی عوام سے پوچھے تو وہ شرم کے مارے چپ رہیں گے کہ یہ لوگ جیسی حکومت بھی بناتے اور چلاتے ہیں، یہ ہم بار ہا پہلے اور ان دنوں بھی دیکھ رہے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اب خود ان کے ہاتھ پاؤں اسی دنیا میں اعتراف کر رہے ہیں کہ ہر روز کتنے ارب کی کرپشن کی جا رہی ہے۔ انھوں نے اس حساب کتاب کے لیے قیامت کا انتظار بھی نہیں کیا۔ شاید بات اس قدر بڑھ چکی تھی کہ قیامت تک کھینچی نہیں جا سکتی تھی۔
قصہ زمیں برسر زمیں ہی بیان کرنا پڑا۔ کرپشن یعنی رشوت ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ رشوت دینے اور لینے والے دونوں کو جہنمی کہا گیا ہے۔ کیا یہ احساس جرم کی شدت تھی یا الیکشن میں عوام کی طرف سے باز پرس بذریعہ ووٹ کرنے کا ڈر تھا لیکن یہ ڈر تو اب بھی رہے گا۔ ہماری حکمران پارٹی کے بارے میں تو کھلم کھلا کہا جا رہا ہے کہ اسے ووٹ نہیں ملیں گے۔ خواہ وہ وٹو صاحب جیسے ماہر کو بھی کیوں نہ لے آئیں۔ اب وٹو صاحب جتنا زور بھی لگا دیں کام نہیں بنے گا۔ لیکن عمران خان کو کیا ہو گیا کہ وہ فوج کی مدد کے بغیر الیکشن نہیں لڑ سکتا۔
کیا وہ فوج کو سونامی سمجھتا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ اگر کسی پارٹی کو الیکشن میں ووٹروں کی بھاری مدد حاصل رہے گی تو وہ عمران خان کی پارٹی ہو گی لیکن عمران کو ہمارے اس خیال سے اتفاق نہیں ہے اور وہ تمام خطرات سے محفوظ فوجی الیکشن چاہتا ہے۔ ان دنوں لیڈروں نے تو الیکشن کمیشن سے باقاعدہ کہا کہ وہ فوج کی مدد لے۔ دوسری جماعتیں بھی اس سے اختلاف نہیں کریں گی اور اس طرح الیکشن تو فوج کرائے گی لیکن اس کے نتیجے میں حکومت یہ سیاستدان بنائیں گے۔ ہمارے سیاستدان فوج کو الیکشن میں لا کر اس سے امید رکھتے ہیں کہ وہ سب کچھ بنا سنوار کر ان کے سپرد کر دے گی اور سیاستدان مزے کریں گے یعنی کرپشن ہی کرپشن۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار پڑے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
خدا نہ کرے مگر فوج اگر غصے میں آ گئی تو انھیں ایسی دوا دے گی کہ وہ یاد کریں گے۔ جنرل کیانی کو یہ ضد ہے کہ وہ سیاست سے باہر رہیں گے ورنہ سوائے فوجی آمریت کے الزام کے ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ میرے جیسے کتنے پاکستانی ہیں جو جمہوریت کی پرستش کرتے رہیں گے۔ ورنہ ان سیاستدانوں کی تو تاریخ ہی فوج کے ساتھ تعاون کا ایک طویل سلسلہ ہے جو ایوب خان سے شروع ہوا اور پرویز مشرف تک جاری رہا۔ فوج نے ہمیشہ انھی سیاستدانوں کی مدد سے حکومت کی ورنہ صرف فوج کی حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کوئی تیس چالیس ہزار انگریزوں نے پورے ہندوستان پر سو ڈیڑھ سو سال حکومت کی۔ ہماری فوج تو لاکھوں میں ہے وہ اگر بیرونی دنیا کے دباؤ میں نہ آئے تو اسے حکومت سے کون الگ کر سکتا ہے، اسی دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں کہ جہاں مدتوں سے فوج حکومت کر رہی ہے اور سیاستدان اسے برداشت کر رہے ہیں۔
ایوب خان نے صرف اپنی حکومت چلانے کی کوشش کی لیکن وہ زیادہ دیر تنہا نہ چل سکے اور سیاستدانوں کو ساتھ ملانا پڑا۔ جو اس انتظار میں تھے کہ انھیں ایک نہ ایک دن بلانا ہی ہو گا۔ اس لیے جنرل کیانی شاید الیکشن کرا کے سیاستدانوں کو اقتدار دے دیں لیکن کوئی ایسی پابندی اور نگرانی لازم ہے کہ سیاستدان آئین کی خلاف ورزی نہ کریں اور کرپشن کو ایک حد کے اندر اندر رکھیں جس سے عوام انھیں برداشت کرتے رہیں اور الیکشن کے ذریعے تبدیلی ایک معمول بن جائے۔