بچوں پر ہونے والا تشدد
بھارت کےمقابلےمیں ہمارے ہاں خواتین پرتشدد کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ بدقسمتی سے مذہبی انتہاپسند قبائل کی تعداد بہت...
KARACHI:
بھارتی فلم اسٹار عامر خان نے عورتوں پر ہونے والے تشدد پر اپنے پروگرام ''ستیا میں وجیتے'' میں بہت کھل کر بات کی اور بہت ساری ایسی خواتین کو سامنے لائے جوگھریلو تشدد کا شکار ہوئی تھیں۔ صرف بھارت یا پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں عورتوں پر تشدد ہوتا ہے۔ یہ تشدد جنسی بھی ہوتا ہے جسمانی بھی اور ذہنی بھی۔ اب تو پاکستان میں بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی جانے لگی ہے۔
بھارت کے مقابلے میں ہمارے ہاں خواتین پر تشدد کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ بدقسمتی سے مذہبی انتہاپسند قبائل کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اس افسوسناک رویے میں مسلم ممالک کی تعداد زیادہ ہے۔ چند دن پہلے اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر پڑھی جاسکتی تھی کہ ''شادی سے انکار پر پندرہ سالہ لڑکی کو افغانستان میں ذبح کردیا گیا، چونکہ لڑکی کے والدین نے رشتہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس لیے رشتہ مانگنے والے شخص نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر اسے راستے سے پکڑ کر قتل کردیا۔''
تشدد کی اور بھی قسمیں ہیں۔ جن میں خود والدین اپنی لڑکیوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر مار ڈالتے ہیں۔ عامر خان کے پروگرام کے ذریعے بہت سے ایسے حقائق سامنے آئے جن پر آج تک کسی چینل سے بات نہیں ہوئی تھی۔ ایک زمانے میں پی ٹی وی سے کمال احمد رضوی نے ''مسٹر شیطان'' کے ذریعے مزاح کے انداز میں ان خرابیوں کو سامنے لانے کی کوشش کی تھی جو اس سماج کو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھوکھلا کر رہی ہیں۔ لیکن جونہی رضوی صاحب ایک سرکاری ادارے کی کرپشن کی کہانی اور اعلیٰ افسران کی بدعنوانیوں کو سامنے لائے وہ پروگرام فوراً بند کردیا گیا۔ ناظرین صرف اس کی ایک قسط دیکھ سکے۔
آج وہ ادارہ کرپشن اور بدعنوانیوں کا ایسا گڑھ بن گیا ہے جہاں انسانی جانوں کو آئے دن خطرات لاحق ہوتے ہیں، کبھی انجنوں میں آگ لگ جاتی ہے، کبھی آکسیجن ختم ہوجاتی ہے، کبھی دروازے لاک ہوجاتے ہیں اور لوگ دم گھٹنے کا شکارہوکر موت کی دہلیز تک پہنچ جاتے ہیں۔ بھارت میں کبھی مارشل لاء نہیں لگا، کبھی فوجی ڈکٹیٹر شپ نے جمہوریت پر شب خون نہیں مارا، اسی لیے وہاں مزاحمتی ادب کی کوئی روایت نہیں ہے جیسی کہ پاکستان میں ہے۔ فیضؔ صاحب اور حبیب جالبؔ مزاحمتی ادب کے نمایندہ شاعر ہیں۔
عامر خان نے اپنے پروگرام کے لیے کروڑوں کے اشتہارات ٹھکرا دیے۔ کیونکہ اس طرح ان کے پروگرام کا تاثر مجروح ہوتا۔ لیکن ہمارے ہاں تو ایسی کوئی روایت ہی نہیں ہے کہ سماج کو داغدار اور مجروح کرنے والی خرابیوں کو منظر عام پر لایا جائے۔ یہاں تو یہ عالم ہے کسی بھی سیاسی ، لسانی، فرقہ وارانہ یا مذہبی جماعت کو کسی کالم میں بھی اپنے لیے کوئی خطرناک جملہ نظر آتا ہے تو انتظامیہ سے باز پرس ہوجاتی ہے۔فون پر وضاحت مانگی جاتی ہے،دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
چہ جائیکہ ٹی وی پروگرام کرنا؟ اس لیے ہمارے ٹی وی چینلز کے لیے سوائے قصیدہ خوانی کے کوئی اور چارہ نہیں، لیکن عامر خان نے بھی اپنے پروگرام میں صرف ایک رخ دکھایا، جس پر بھارت میں احتجاج بھی ہوا ہے، کسی حد تک یہ احتجاج درست بھی ہے۔ کیونکہ صرف عورتیں ہی تشدد کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ مرد بھی ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے انڈیا اور پاکستان میں بعض این جی اوز اور نام نہاد حقوق نسواں کی علمبردار تنظیموں اور خواتین نے ایک منصوبے کے تحت صرف عورتوں کو مظلوم ٹھہرایا ہے۔ جب کہ سو فیصد ایسا نہیں ہے۔ دراصل ہم لوگ بہت جلد پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ قبائلی علاقوں اور جہاں غربت و جہالت نے اپنے پنجے گاڑے ہیں وہاں عورتوں پر تشدد جی بھر کے ہوتا ہے۔ لیکن شہروں میں معاملہ برعکس ہے۔ خاص طور پر وہ مرد حضرات جو اپنے کنبے کے واحد کفیل ہیں۔ وہ جو ذہنی، جسمانی اور مالی اذیت سہتے ہیں ان کا ذکر کوئی نہیں کرتا کہ نوے فیصد گھرانوں میں مرد صرف پیسہ کمانے کی مشین ہے، تنخواہ لاکر بیوی کے ہاتھ میں رکھنا، بیوی بچوں کو شاپنگ کرانا اور ان کی جا و بے جا فرمائشیں پوری کرتے کرتے وہ ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ جاتا ہے اور پھر گھر والوں کے لیے ایک بے کار شے ہوجاتا ہے۔
تشدد کی ایک قسم اور بھی ہے جس پر انڈیا میں تو ''کرائم پٹرول'' نامی پروگرام کے ذریعے بات کی گئی۔ لیکن ہم نے بالکل چپ سادھ رکھی ہے۔ یہ ہے بچوں پر ہونے والا تشدد، جو مدرسوں میں ہوتا ہے، گھروں میں ہوتا ہے اور مذہبی انتہا پسندی کی بناء پر کیا جاتا ہے۔ 7 دسمبر کو اخبارات میں چھپنے والی ایک وحشت ناک خبر نے رونگٹے کھڑے کردیے۔ تفصیل کے مطابق برطانیہ میں مقیم ایک خاتون سارہ اکثر بلاوجہ اپنے سات سالہ بچے یاسین کو بری طرح مارا پیٹا کرتی تھی۔
زیادہ تر غصہ اسے بچے کے قرآن پاک کا سبق یاد نہ کرنے پر آتا تھا۔ اس نے پہلے بچے کو بری طرح مارا جب وہ تشدد سے زمین پر گر پڑا تو منہ ہی منہ میں اپنا سبق دہراتا رہا، لیکن ظالم عورت کو اپنی ہی کوکھ میں پلنے والے بچے پر رحم نہ آیا اور اس نے صرف اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ جب دیکھا کہ بچہ تشدد کی تاب نہ لاکر مرچکا ہے تو اس نے تیل ڈال کر اس کے مردہ جسم کو جلادیا اور الزام اپنے ٹیکسی ڈرائیور شوہر پر لگادیا۔ بعد میں ویڈیو بھی سامنے آگئی اور سارہ کو اپنا جرم قبول کرنا پڑا۔
مدرسوں میں جو طلبا پر جسمانی تشدد ہوتاہے، اس کی تفصیلات کئی بار سامنے آچکی ہیں۔ لیکن نہ تو کوئی مذہبی جماعت اس کا نوٹس لیتی ہے نہ ہی حکومت کہ حکومت کے رکھوالوں کے اپنے بچے کبھی اس تشدد سے نہیں گزرتے۔ مذہب کے نام پر کبھی سبق یاد نہ کرنے پر اور کبھی مدرسے کے کسی استاد کی ''وحشت'' کا شکار ہونے پر صرف خبریں اخبار کی زینت بنتی ہیں، کسی مولوی یا استاد کو سزا ہونے کے بارے میں نہیں سنا۔
گھروں میں، ورکشاپوں میں اور دکانوں پر کام کرنے والے بچے اور بچیوں پر خود ان کے ماں باپ جو ظلم کرتے ہیں، اس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی، نہ ہی اس پر کسی چینل سے کوئی ''ٹاک شو'' ہوا۔ میں ذاتی طور پر ایسے بچے اور بچیوں کو جانتی ہوں جو اپنے ہی ماں اور باپ کے تشدد کا شکار ہیں۔ انھیں صبح ہی صبح لاتیں مار مار کر اٹھا دیا جاتا ہے تاکہ وہ کام پر جاسکیں اور کما کر لاسکیں، تاکہ نشئی باپ کا نشہ پورا ہوسکے۔ یہ بچے جس جگہ کام کرتے ہیں وہاں خوش رہتے ہیں کہ وہاں انھیں مارتا پیٹتا کوئی نہیں۔ خاص کر گھروں میں کام کرنے والی لڑکیاں، انھیں کھانا، کپڑا، پیسے اور محبت سب دوسروں سے ملتی ہے۔ اسی لیے وہ اپنا دکھ اور اپنے ماں باپ کے رویے کی شکایت بھی انھی سے کرتے ہیں۔
بچوں پر ہونے والا تشدد زیادہ تر باپ کی طرف سے ہوتا ہے لیکن اکثر مائیں بھی ذمے دار ہوتی ہیں۔ خاص کر وہاں جہاں غربت بھی ہے اور لڑکیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ لیکن بعض پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی معمولی معمولی باتوں پر بچوں کو پیٹنا ایک عام بات ہے۔ لیکن یہی تشدد بچوں میں بہت سے نفسیاتی عوارض کا سبب بنتا ہے۔ ایسے بچے جو بچپن میں کسی بھی تشدد کا شکار ہوئے ہوں خواہ مدرسے کا مولوی اس کا ذمے دار ہو یا خود ماں باپ، بڑے ہوکر وہ جنگلی اور وحشی بن جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے بچوں کو اور اپنے طالب علموں کو وہی کچھ لوٹاتے ہیں جو انھیں بچپن میں ملا ہوتا ہے۔
بھارتی فلم اسٹار عامر خان نے عورتوں پر ہونے والے تشدد پر اپنے پروگرام ''ستیا میں وجیتے'' میں بہت کھل کر بات کی اور بہت ساری ایسی خواتین کو سامنے لائے جوگھریلو تشدد کا شکار ہوئی تھیں۔ صرف بھارت یا پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں عورتوں پر تشدد ہوتا ہے۔ یہ تشدد جنسی بھی ہوتا ہے جسمانی بھی اور ذہنی بھی۔ اب تو پاکستان میں بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی جانے لگی ہے۔
بھارت کے مقابلے میں ہمارے ہاں خواتین پر تشدد کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ بدقسمتی سے مذہبی انتہاپسند قبائل کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اس افسوسناک رویے میں مسلم ممالک کی تعداد زیادہ ہے۔ چند دن پہلے اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر پڑھی جاسکتی تھی کہ ''شادی سے انکار پر پندرہ سالہ لڑکی کو افغانستان میں ذبح کردیا گیا، چونکہ لڑکی کے والدین نے رشتہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس لیے رشتہ مانگنے والے شخص نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر اسے راستے سے پکڑ کر قتل کردیا۔''
تشدد کی اور بھی قسمیں ہیں۔ جن میں خود والدین اپنی لڑکیوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر مار ڈالتے ہیں۔ عامر خان کے پروگرام کے ذریعے بہت سے ایسے حقائق سامنے آئے جن پر آج تک کسی چینل سے بات نہیں ہوئی تھی۔ ایک زمانے میں پی ٹی وی سے کمال احمد رضوی نے ''مسٹر شیطان'' کے ذریعے مزاح کے انداز میں ان خرابیوں کو سامنے لانے کی کوشش کی تھی جو اس سماج کو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھوکھلا کر رہی ہیں۔ لیکن جونہی رضوی صاحب ایک سرکاری ادارے کی کرپشن کی کہانی اور اعلیٰ افسران کی بدعنوانیوں کو سامنے لائے وہ پروگرام فوراً بند کردیا گیا۔ ناظرین صرف اس کی ایک قسط دیکھ سکے۔
آج وہ ادارہ کرپشن اور بدعنوانیوں کا ایسا گڑھ بن گیا ہے جہاں انسانی جانوں کو آئے دن خطرات لاحق ہوتے ہیں، کبھی انجنوں میں آگ لگ جاتی ہے، کبھی آکسیجن ختم ہوجاتی ہے، کبھی دروازے لاک ہوجاتے ہیں اور لوگ دم گھٹنے کا شکارہوکر موت کی دہلیز تک پہنچ جاتے ہیں۔ بھارت میں کبھی مارشل لاء نہیں لگا، کبھی فوجی ڈکٹیٹر شپ نے جمہوریت پر شب خون نہیں مارا، اسی لیے وہاں مزاحمتی ادب کی کوئی روایت نہیں ہے جیسی کہ پاکستان میں ہے۔ فیضؔ صاحب اور حبیب جالبؔ مزاحمتی ادب کے نمایندہ شاعر ہیں۔
عامر خان نے اپنے پروگرام کے لیے کروڑوں کے اشتہارات ٹھکرا دیے۔ کیونکہ اس طرح ان کے پروگرام کا تاثر مجروح ہوتا۔ لیکن ہمارے ہاں تو ایسی کوئی روایت ہی نہیں ہے کہ سماج کو داغدار اور مجروح کرنے والی خرابیوں کو منظر عام پر لایا جائے۔ یہاں تو یہ عالم ہے کسی بھی سیاسی ، لسانی، فرقہ وارانہ یا مذہبی جماعت کو کسی کالم میں بھی اپنے لیے کوئی خطرناک جملہ نظر آتا ہے تو انتظامیہ سے باز پرس ہوجاتی ہے۔فون پر وضاحت مانگی جاتی ہے،دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
چہ جائیکہ ٹی وی پروگرام کرنا؟ اس لیے ہمارے ٹی وی چینلز کے لیے سوائے قصیدہ خوانی کے کوئی اور چارہ نہیں، لیکن عامر خان نے بھی اپنے پروگرام میں صرف ایک رخ دکھایا، جس پر بھارت میں احتجاج بھی ہوا ہے، کسی حد تک یہ احتجاج درست بھی ہے۔ کیونکہ صرف عورتیں ہی تشدد کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ مرد بھی ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے انڈیا اور پاکستان میں بعض این جی اوز اور نام نہاد حقوق نسواں کی علمبردار تنظیموں اور خواتین نے ایک منصوبے کے تحت صرف عورتوں کو مظلوم ٹھہرایا ہے۔ جب کہ سو فیصد ایسا نہیں ہے۔ دراصل ہم لوگ بہت جلد پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ قبائلی علاقوں اور جہاں غربت و جہالت نے اپنے پنجے گاڑے ہیں وہاں عورتوں پر تشدد جی بھر کے ہوتا ہے۔ لیکن شہروں میں معاملہ برعکس ہے۔ خاص طور پر وہ مرد حضرات جو اپنے کنبے کے واحد کفیل ہیں۔ وہ جو ذہنی، جسمانی اور مالی اذیت سہتے ہیں ان کا ذکر کوئی نہیں کرتا کہ نوے فیصد گھرانوں میں مرد صرف پیسہ کمانے کی مشین ہے، تنخواہ لاکر بیوی کے ہاتھ میں رکھنا، بیوی بچوں کو شاپنگ کرانا اور ان کی جا و بے جا فرمائشیں پوری کرتے کرتے وہ ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ جاتا ہے اور پھر گھر والوں کے لیے ایک بے کار شے ہوجاتا ہے۔
تشدد کی ایک قسم اور بھی ہے جس پر انڈیا میں تو ''کرائم پٹرول'' نامی پروگرام کے ذریعے بات کی گئی۔ لیکن ہم نے بالکل چپ سادھ رکھی ہے۔ یہ ہے بچوں پر ہونے والا تشدد، جو مدرسوں میں ہوتا ہے، گھروں میں ہوتا ہے اور مذہبی انتہا پسندی کی بناء پر کیا جاتا ہے۔ 7 دسمبر کو اخبارات میں چھپنے والی ایک وحشت ناک خبر نے رونگٹے کھڑے کردیے۔ تفصیل کے مطابق برطانیہ میں مقیم ایک خاتون سارہ اکثر بلاوجہ اپنے سات سالہ بچے یاسین کو بری طرح مارا پیٹا کرتی تھی۔
زیادہ تر غصہ اسے بچے کے قرآن پاک کا سبق یاد نہ کرنے پر آتا تھا۔ اس نے پہلے بچے کو بری طرح مارا جب وہ تشدد سے زمین پر گر پڑا تو منہ ہی منہ میں اپنا سبق دہراتا رہا، لیکن ظالم عورت کو اپنی ہی کوکھ میں پلنے والے بچے پر رحم نہ آیا اور اس نے صرف اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ جب دیکھا کہ بچہ تشدد کی تاب نہ لاکر مرچکا ہے تو اس نے تیل ڈال کر اس کے مردہ جسم کو جلادیا اور الزام اپنے ٹیکسی ڈرائیور شوہر پر لگادیا۔ بعد میں ویڈیو بھی سامنے آگئی اور سارہ کو اپنا جرم قبول کرنا پڑا۔
مدرسوں میں جو طلبا پر جسمانی تشدد ہوتاہے، اس کی تفصیلات کئی بار سامنے آچکی ہیں۔ لیکن نہ تو کوئی مذہبی جماعت اس کا نوٹس لیتی ہے نہ ہی حکومت کہ حکومت کے رکھوالوں کے اپنے بچے کبھی اس تشدد سے نہیں گزرتے۔ مذہب کے نام پر کبھی سبق یاد نہ کرنے پر اور کبھی مدرسے کے کسی استاد کی ''وحشت'' کا شکار ہونے پر صرف خبریں اخبار کی زینت بنتی ہیں، کسی مولوی یا استاد کو سزا ہونے کے بارے میں نہیں سنا۔
گھروں میں، ورکشاپوں میں اور دکانوں پر کام کرنے والے بچے اور بچیوں پر خود ان کے ماں باپ جو ظلم کرتے ہیں، اس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی، نہ ہی اس پر کسی چینل سے کوئی ''ٹاک شو'' ہوا۔ میں ذاتی طور پر ایسے بچے اور بچیوں کو جانتی ہوں جو اپنے ہی ماں اور باپ کے تشدد کا شکار ہیں۔ انھیں صبح ہی صبح لاتیں مار مار کر اٹھا دیا جاتا ہے تاکہ وہ کام پر جاسکیں اور کما کر لاسکیں، تاکہ نشئی باپ کا نشہ پورا ہوسکے۔ یہ بچے جس جگہ کام کرتے ہیں وہاں خوش رہتے ہیں کہ وہاں انھیں مارتا پیٹتا کوئی نہیں۔ خاص کر گھروں میں کام کرنے والی لڑکیاں، انھیں کھانا، کپڑا، پیسے اور محبت سب دوسروں سے ملتی ہے۔ اسی لیے وہ اپنا دکھ اور اپنے ماں باپ کے رویے کی شکایت بھی انھی سے کرتے ہیں۔
بچوں پر ہونے والا تشدد زیادہ تر باپ کی طرف سے ہوتا ہے لیکن اکثر مائیں بھی ذمے دار ہوتی ہیں۔ خاص کر وہاں جہاں غربت بھی ہے اور لڑکیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ لیکن بعض پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی معمولی معمولی باتوں پر بچوں کو پیٹنا ایک عام بات ہے۔ لیکن یہی تشدد بچوں میں بہت سے نفسیاتی عوارض کا سبب بنتا ہے۔ ایسے بچے جو بچپن میں کسی بھی تشدد کا شکار ہوئے ہوں خواہ مدرسے کا مولوی اس کا ذمے دار ہو یا خود ماں باپ، بڑے ہوکر وہ جنگلی اور وحشی بن جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے بچوں کو اور اپنے طالب علموں کو وہی کچھ لوٹاتے ہیں جو انھیں بچپن میں ملا ہوتا ہے۔