گم کردہ راہوں کو کون گم راہ کرسکتا ہے

جاننے پہچاننے والے ایسا ہی کہیں گے اور ان کو ایسا ہی کہنا چاہیے کہ نام اور جھنڈوں کی تبدیلی سے پختونوں کو گمراہ نہیں..


Saad Ulllah Jaan Baraq December 15, 2012
[email protected]

عربی زبان کی ایک معروف کہاوت ہے ''یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے''۔ یہ کہاوت مجھے ایک سیاسی بیان پڑھ کر یاد آئی ہے۔ ایک سیاسی بیان میں کہا گیا ہے کہ نام اور جھنڈوں کی تبدیلی سے پختونوں کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔

میرا خیال ہے کہ یہ بیان دو سو فیصد سچ ہے کیوں کہ یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے، پختونوں کو اس کے بغیر بھی گمراہ کیا جا سکتا ہے اور کیا جارہا ہے،کیا جاتا رہے گا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے کسی نئے ہتھکنڈے یا نئے جال یا نئے دام کی ضرورت ہی نہیں ہے کیوں کہ جب کوئی پہلے ہی سے شکار ہونے کے لیے تیار بیٹھا ہو تو اس کے شکار کے لیے کسی قسم کے اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی اور پختون تو اس معاملے میں ''خار پشت'' پر گئے ہیں، خار پشت ایک چھوٹا سا جانور ہوتا ہے جس کے جسم پر لمبے لمبے تیر ہوتے ہیں۔

پشتو میں اسے ''شکونڑ'' جب کہ پنجابی میں اسے ''سیہہ'' کہتے ہیں، اسے پکڑنے یا شکار کرنے کے لیے کاشت کار لوگ ایک بڑا روایتی لیکن دلچسپ طریقہ اختیار کرتے ہیں کیوں کہ اس جانور کی پکی عادت یہ ہے کہ وہ جس راستے پر ایک مرتبہ جاتا ہے، واپس اسی راستے پر جائے گا، چاہے کچھ بھی ہو۔ اپنے پرانے راستے کو کبھی اور کسی بھی حال میں نہیں چھوڑتا، یہ اس کی فطرت ہے۔

کسان اس کی اس فطرت سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ کسان وہ راستہ معلوم کر لیتے ہیں جس پر وہ آتا جاتا ہے، پھر اس راستے میں ایک چٹائی کو لپیٹ کر ایک سرنگ سی بنا لیتے ہیں اور کچھ دور تک کانٹے دار جھاڑیاں اس طرح لگا دیتے ہیں کہ جانور کو اس چٹائی والی سرنگ میں سے گزرنا پڑے۔

چٹائی کی سرنگ کو مضبوط سے باندھ بھی دیتے ہیں، خار پشت آتا ہے، اپنے راستے میں کانٹے دار جھاڑیاں دیکھتا ہے تو کہیں گھوم کر دوسرا راستہ اختیار کرنے کے بجائے چٹائی والی سرنگ میں گھس جاتا ہے، دوسری طرف بھی کانٹے ہوتے ہیں، اس لیے پیچھے ہٹنے لگتا ہے اور اس کے جسم کے کاٹنے چٹائی میں گھس کر پھنس جاتے ہیں، پھر بے چارا نہ آگے جا پاتا ہے اور نہ پیچھے اور بے بسی کی تصویر بن کر ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہے۔۔۔ اس کے بعد اس کا انجام ظاہر ہے کہ پختونوں جیسا ہی ہوتا ہے کیوں کہ دونوں کو پھنسانے کے لیے ان کے اپنے جسم کے کانٹے ہی کافی ہوتے ہیں، چنانچہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پختونوں کو نئے نام اور نئے جھنڈوں سے گمراہ کیا جا سکتا ہے، اتنی تکلیف کرنے کی ضرورت ہی نہیں، وہ تو پہلے ہی سے پھنسے پھنسائے پڑے ہیں،

اے مدعی برو کہ مرا باتو کار نیست

احباب حاضر ندبہ اعدامہ حاجت است

( جب دوست پہلے ہی وہ کام کر رہے ہیں تو دشمنوں کو تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے) بات توتب ہوتی جب پختونوں میں خار پشت کی عادت نہ ہوتی، اس لیے اگر کسی نے ایسا کیا بھی ہے یا کر بھی رہا ہے کہ جھنڈوں اور ناموں کی تبدیلی سے پختونوں کو پھنسانے کی کوشش کر رہا ہے تو غلط کر رہا ہے بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ یہ جو بیان ذکر ہوا ہے، یہ پورے تجربے کا مظہر ہے۔

جاننے پہچاننے والے ایسا ہی کہیں گے اور ان کو ایسا ہی کہنا چاہیے کہ نام اور جھنڈوں کی تبدیلی سے پختونوں کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزی میں ایک لفظ ہے ''انڈر اسٹوڈ'' یعنی سمجھ میں آنے والی سامنے کی بات ۔۔۔ اس بیان میں بھی دراصل ایسا بہت کچھ کہا گیا ہے جو انڈر اسٹوڈ ہے۔ اردو میں اس کے لیے بین السطور کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے یعنی جو بات کہی جا رہی ہے، اس کے اندر بھی ایک ایسی بات ہے جو کہی نہیں گئی ہے لیکن سمجھی جا سکتی ہے ۔۔۔۔ پختونوں کو ناموں اور جھنڈوں سے گمراہ نہیں کیا جا سکتا، یہ ایسا ہے جیسے کہا جائے کہ حلوے کو آپ چمچے سے نہیں کھا سکتے کیوں کہ دو انگلیوں سے بھی حلوے کو کھایا جا سکتا ہے تو پھر خواہ مخواہ چمچے کی کیا ضرورت ہے یا یوں کہئے کہ آپ ایک کھلے ہوئے تالے کے بارے میں کہیں کہ اس کو آپ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چابی سے نہیں کھول سکتے،

خلوت گزیدہ را بہ شماشا چہ حاجت است

چوکوئے یار ست بہ صحرا چہ حاجت است

البتہ اس میں جو گمراہ کرنے کی بات کی گئی ہے، وہ بھی اچھی خاصی معنی خیز ہے ۔

گمراہ کرنے کی بھی جب ضرورت نہ ہو تو خواہ مخواہ محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس کا جو مطلب نکلتا ہے، اسے سمجھنے کے لیے کسی افلاطون کے دماغ کی ضرورت نہیں ہے، بے چارے پختونوں کو راہ راست پر کسی نے چھوڑا ہی کہاں ہے، یہ بے چارے تو صدیوں سے،

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

یہ بے چارے جب بھی کسی کے پیچھے ہوئے ہیں، وہ انھیں لے جا کر قصائی کے ہاتھ بیچ آیا ہے بلکہ صدیوں کی ''رہنمائیوں'' نے ان کو ایسا بنا دیا ہے کہ ''راہ'' کے ''گم ہونے'' اور ''پانے'' کا حساب ہی کھو چکے ہیں کیوں کہ ہمیشہ ان کو غلط راستے پر ہی چلایا گیا ہے اور پھر بری طرح لوٹا گیا ہے۔

اس لوٹ مار سے اب تو ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے بلکہ کر دی گئی ہے کہ کچھ تو شہر کے لوگ ''ظالم'' ہوتے ہیں اور کچھ ان کو بھی ''مرن دا شوق'' ہوتا ہے۔

عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے

کہ اپنے سایہ سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے

وہ اس ''گم راہ'' پر اتنے زیادہ چلائے گئے ہیں کہ اب ان کو اس ''گم راہ'' سے گمراہ کیا ہی نہیں جا سکتا، ان کے دل و دماغ میں اپنوں اور بیگانوں نے سپیریئر اور وارئیر ہونے کا جو نشہ بھر رکھا ہے، اسے چھڑانا ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے یہ بات درست ہے کہ ان کو اب ناموں اور جھنڈوں کی تبدیلی تو کیا کوئی بھی اپائے ہٹا نہیں سکتا، ان کے دلوں اور دماغوں میں بہادر اور سپرئر ہونے کا نشہ اتنا چڑھایا گیا ہے کہ اب کوئی بھی نشہ اس کو اتار نہیں سکے گا اور یہ اپنی نرگسیت ہی کا خود شکار ہو کر رہ جائیں گے بلکہ یوں کہئے کہ ان کو برباد کرنے کے لیے کہیں باہر سے کوئی چیز لانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، برتر اور سپیریئر ہونے کا احساس بجائے خود سب سے بڑی گم راہی ہے کیوں کہ اس قسم کا انسان چاہیے کھائی میں گر جائے تب بھی اپنے آپ کو غلط نہیں سمجھتا البتہ دوسروں کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا دوش دیتا رہتا ہے۔

دنیا میں افراد اور قوموں کی کامیابی کے لیے صرف ایک ہی چیز کافی ہوتی ہے، اپنے آپ کو پہچاننا، اور جب کوئی اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے تو پھر وہ دنیا کو پہچان لیتا ہے، دوست دشمن کو بھی پہچان لیتا ہے اور غلط اور صحیح راستے کو بھی پہچان لیتا ہے اور اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے لازمی ہے کہ انسان پہلے اپنی غلطیوں، کمزوریوں اور عیوب کو پہچان لے، لیکن جو اپنے سب سے بڑے عیب کو ہنر اور خوبی سمجھ لے اس کا علاج کسی بھی مسیحا کے پاس نہیں ہوتا اور یہاں پختونوں کو بہادری کا ایک روگ لگایا گیا ہے جس نے اسے کہیں کا نہیں رکھا کیوں کہ بہادری دکھانے کی ابتداء پہلے اپنے گھر سے، پھر عزیزوں سے اور پھر ہر کسی سے کرتا ہے، ثبوت درکار ہو تو گلی گلی میں دشمنی کے مظاہرے دیکھ لیجیے ہر گھر کے اوپر رنگارنگ جھنڈے اس ''راہ راست'' کا پتہ دے رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔