عالمی قبضہ گروپ

پردیس جاکر کمانے اور اپنے دیس میں قبضہ گروپ کے ہاتھوں لٹ جانے والے شخص کی حالت کا سوچ کر خیال آیا کہ...

h.sethi@hotmail.com

اس شخص کی پوری داستان غم سن کر میں نے اس کا کیس پانچویں کیٹیگری میں ڈال دیا کیونکہ اس کا حل مذاکرات اور تھانے سے نکل کر کچہری کی طرف چلا جاتا تھا۔ میرے مشاہدے کے مطابق قبضہ گروپوں کا پہلا ٹارگٹ بیوہ' دوسرا یتیم' تیسرا کمزور' چوتھا سرکار اور پانچواں غیرحاضر مالک پلاٹ ہوتا ہے جب کہ مذکورہ شخص نہ صرف شہر بلکہ ملک سے بھی باہر کا رہائشی تھا۔

جس دوست نے اسے میرے پاس مدد کے لیے بھجوایا، اس کے مطابق قبضہ گروپ کے ہتھے چڑھنے والے اس شخص نے جب وہ کئی سال قبل عزیزوں سے ملنے پاکستان آیا تو آبائی شہر میں ایک رہائشی پلاٹ بھی خرید لیا لیکن اس بار آکر پلاٹ دیکھنے گیا تو وہاں مکان کھڑا دیکھ کر پریشان ہوگیا اور دوست کے حوالے سے میرے پاس پہنچ گیا۔ مکان کے ناجائز رہائشیوں نے اسے پلاٹ کے کاغذات دکھائے جن کے مطابق انھوں نے تو موصوف کے اٹارنی ہولڈر سے پلاٹ خریدا تھا۔

مختصراً یہ کہ کسی نے اس کا جعلی مختار عام تیار کرواکر پلاٹ فروخت کردیا تھا اور خریدار اس پر مکان تعمیر کرکے وہاں عرصہ دو سال سے رہائش پذیر تھا۔ پاکستان میں ایسے بکھیڑے کو سمیٹنے کے لیے زیادہ نہیں تو دس پندرہ سال کا عرصہ' خرچہ اور خواری درکار ہے جب کہ پلاٹ کا اصل مالک صرف ایک ماہ کے لیے ملنے ملانے' گھومنے پھرنے اور چھٹیاں منانے آیا تھا۔ اس کی حالت زار دیکھ کر مجھے اپنے زیر تعمیر مکان پر ہونے والے قبضہ گروپوں کے دو ناکام حملے یاد آگئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ میں مذکورہ پانچ کیٹیگریوں کے بجائے چھٹی یعنی حاضر سروس کیٹیگری میں ہونے کے علاوہ بااختیار بھی تھا۔ اس شخص کو البتہ یہی مشورہ دے سکتا تھا کہ وہ یا تو کسی اچھے وکیل سے مشورہ کر کے کیس اس کے سپرد کر جائے یا پھر پلاٹ کے خریدار کو سمجھائے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے اور اسی سے کچھ معاملہ فہمی کرکے دس پندرہ سال کی یقینی پریشانی اور مزید خرچے سے آزاد ہو جائے کیونکہ پلاٹ پر مکان بن جانے کے بعد مسئلے کا کوئی شارٹ کٹ حل نظر نہیں آتا تھا۔

پردیس جاکر کمانے اور اپنے دیس میں قبضہ گروپ کے ہاتھوں لٹ جانے والے شخص کی حالت کا سوچ کر خیال آیا کہ یہ قبضہ گروپ یعنی دھوکے باز کسی کو نہیں بخشتے اور وہ دو دھوکے باز جنہوں نے مجھ پر ATTEPT کی حکومت اور معاشرے میں ایک مقام رکھتے تھے۔ مجھے تیس سال سرکاری ملازمت کرتے ہو چکے تھے جب مارکیٹ ریٹ پر پلاٹ خرید کر اس پر تعمیر شروع کی۔ دفتر جانے سے پہلے اور واپسی پر کام کا معیار اور تعمیر کی رفتار دیکھنا میرا معمول بن گیا۔ سامان کی خریداری تیسرا لازمی کام تھا۔ ایک روز جب مکان کی بنیادیں قدآدم تھیں، میں واپسی پر سائٹ کے سامنے رکا تو وہاں کسی بھی ورکر کو موجود نہ پاکر حیران ہوا۔


ایک پڑوسی نے بتایا کہ کچھ دیر پہلے ایک بڑی مارکیٹ تنظیم کے نامی گرامی صدر حاجی صاحب پولیس کی دو گاڑیاں ہمراہ لائے تھے۔ انھوں نے گرجدار آواز میں سب ورکروں اور ٹھیکیدار کو مخاطب کرکے انھیں دھمکیاں اور گالیاں دیں کہ میرے ذاتی پلاٹ پر کسے جرأت ہوئی ہے کہ قبضہ اور کنسٹرکشن کرے۔ ہمراہ ایس ایچ او نے ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تمام دس بارہ ورکروں کو گرفتار کرکے پولیس وینوں میں ڈالا اور تھانے کی طرف لے گئے ہیں۔ اگرچہ میں بھی سرکاری کار میں وہاں پہنچا تھا اور دفتر سے واپسی پر حسب سابق کام کی رفتار دیکھنے کے لیے رکا تھا ایک بار تو پریشان ہوگیا۔

اتفاق سے میجر ضیاالحسن جو بعد میں انسپکٹر جنرل پولیس بنے ڈی آئی جی لاہور تھے میں نے انھیں پوری بات بتائی۔ ان کا آبائی مکان بھی اسی گلی میں تھا اور انھیں معلوم تھا کہ میں ان کا پڑوسی بننے جارہا ہوں، انھوں نے SHO کو فون کرنے کے علاوہ بااثر قبضہ گروپ کے سرغنہ کے خلاف کارروائی کرنے اور میرے ورکروں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ میں پولیس اسٹیشن پہنچا، انھی پولیس وینوں پر ورکر کام پر واپس آئے لیکن بوجوہ قبضہ گروپ کے سرغنہ کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوسکی۔ ان صاحب کا ان دنوں شہر میں طوطی بولتا تھا۔ اس قبضہ گروپ نے دوبارہ کبھی میرے پلاٹ کی طرف رخ نہ کیا کیونکہ میں نے ان کے بارے میں اور انھوں نے میرے بارے میں غائبانہ معلومات حاصل کرلی تھیں۔ اب تو وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ میری ان سے کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ ان کی بہت سی وارداتی کہانیاں لوگوں کو معلوم ہیں۔ وہ خالی ہاتھ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔

اس واقعے کو ابھی چند ماہ گزرے تھے اور میرا مکان زیر تعمیر تھا، میں دفتر سے واپسی پر گھر پہنچا تو میرے ملازم نے مجھے بتایا کہ ایک صاحب زبردستی مکان کا ڈرائنگ روم کھلوا کر میرے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ ایک ناواقف کا یوں گھر میں آگھسنا مجھے غیرمعمولی لگا۔ اندر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں اور سابق وزیر بھی ہیں۔ انھوں نے بغیر تعارف کہا کہ آپ کو شاید معلوم نہ ہو آپ کے ساتھ تو بڑا دھوکا ہوگیا ہے۔ میں نے پوچھا کیسا۔ کہنے لگے جس پلاٹ پر آپ مکان بنا رہے ہیں اس کی پہلی رجسٹری میرے نام ہے۔ مجھے شاک تو لگا لیکن میں سنبھلا اور کہا کہ میں نے تو خوب دیکھ بھال کر مارکیٹ ریٹ پر ذاتی مکان بنانے کے لیے پلاٹ خریدا ہے۔

وہ بولے میں تو صرف بتانے آیا ہوں کہ اپنا بندوبست کرلیں، یہ پلاٹ آپ سے پہلے میں خرید چکا ہوں۔ میں نے چائے وغیرہ کا پوچھا تو بولے کہ اسپیکر کے ساتھ ملاقات کا ٹائم ہو رہا ہے اور پھر وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ ابھی ایک روز قبل آج کے صدر پاکستان اور تب کے MNA آصف زرداری کے پاس بیٹھے تھے اور زرداری صاحب کی خوشنودی کے لیے انھیں جیب سے کیسٹ نکال کر اپنی ایک تقریر کیسٹ پلیئر پر سنائی۔ جیسے ہی یہ MPA کار میں بیٹھے میں نے انھیں کہا، آپ نے جو کل اپنی تقریر کیسٹ پلیئر پر زرداری صاحب کو سنائی بڑی زبردست تھی۔ میری بات سنتے ہی جیسے موصوف کو جھٹکا لگا وہ کار میں سے نکل آئے اور پوچھا آپ اس وقت کہاں بیٹھے تھے۔

اب میں نے لاپروائی سے کہا کہ آیندہ ملاقات پر بتائوں گا اور سلام کر کے گیٹ سے مکان کے اندر آگیا۔ ایم پی اے صاحب کچھ پریشان حال واپس چلے گئے۔ یہ محض اتفاق تھا اور میں نے ہوائی چھوڑی تھی۔ وہ دوبارہ میرے پاس نہ آئے۔ کئی ماہ بعد ایک دعوت پر دکھائی دیے تو میری طرف لپکے اور بولے، میں نے اپنی پلاٹ کی رجسٹری دوبارہ دیکھی ہے، اس میں مختلف پلاٹ نمبر ہے، آپ مطمئن ہو جائیں۔ چھوٹے موٹے پلاٹوں اور زمینوں کے قبضہ گروپوں کو یاد کرتے ہوئے میرا دھیان ان ملکی اور غیرملکی طاقتوں اور گروہوں کی طرف گیا جو ہمارے ملک ہی پر قبضہ جمانے کی کوشش کے ساتھ ملک کے شہریوں کو یرغمال بنانے پر عمل پیرا ہیں اور ہم خواب غفلت میں ہیں۔
Load Next Story