لوگ ہار رہے ہیں

شہر میں جاری کشیدگی ، ہدفی قتل ، قتل و غارت ، دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی رہزنی کی وارداتوں کے باعث کراچی کی...

موسم کے بدلتے ہی اسپتالوں میں مریضوں کا تانتا بندھ گیا۔ کوریڈور میں داخل ہوتے ہی اس غیر معمولی رش پر کوئی تعجب نہ ہوا۔ لیکن چند قدم آگے بڑھنے کے بعد منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی ایک او پی ڈی سیکشن کے ہال پر میری نگاہ مرکوز ہوگئی۔ وہاں بہت سارے لوگ اپنی باری کے انتظار میں تھے۔ میرے لیے یہ بات حیرت انگیز اس لیے تھی کہ اس او پی ڈی سیکشن کے باہر ایک بڑا سا بورڈ شعبۂ نفسیاتی امراض کا لگا ہوا تھا۔ اس اسپتال میں برسوں سے آنا جانا ہے، لیکن اس سال یہ پہلا چکر تھا۔

میرے لیے یہ بات آج اہمیت کی حامل اس لیے تھی کہ شعبہ نفسیاتی امراض اوپی ڈی میں اس سے پہلے جب نگاہ پڑتی بمشکل گنتی کے افراد نظر آتے۔ ہال میں موجود پنکھے کی آواز اور باہر کا شور ہی شاید اس ہال میں کسی کے ہونے کا گمان دیتا۔لیکن آج اس جگہ تقریباً 150 افراد موجود تھے۔ جو نہایت تشویش ناک بات تھی۔ ذہن کے کسی گوشے میں خطرے نے نقب لگائی اور ایک نیا سوال جنم پایا۔کیا ہمارے ملک میں ذہنی امراض وبائی امراض کے مقابلے میں دُگنی رفتار سے عوام الناس کو دبوچ رہے ہیں۔ یہ یقینا لمحۂ فکریہ ہے۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران نفسیاتی امراض کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اگر کراچی جیسے بڑے شہر کی بات کی جائے تو تقریباً ایک کروڑ افراد مختلف نفسیاتی بیماریوں ، ڈیپریشن ، بے چینی (انزائٹی) اور ذہنی دبائو کا شکار ہیں۔

شہر میں جاری کشیدگی ، ہدفی قتل ، قتل و غارت ، دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی رہزنی کی وارداتوں کے باعث کراچی کی پچاس فیصد آبادی مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی معاشی فرق یا تفریق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سر پہ چڑھ کر بولتے الیکٹرانک میڈیا کے سحر نے خواہشات کی پیاس سے ہر شخص کو ہوس زدہ کر دیا ہے۔ وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی ۔ ہر شخص مصروف ہے ہر کوئی اپنی جنگ کے محاذ پہ تنہا سپاہی۔ لیکن یہ جنگ بھی عجیب ہے، جس میں فرد واحد آپ ہی اپنی ذات کو نشانہ بناتا ہے اور بس بھاگتے رہنا چاہتا ہے۔ انسانی حقوق کی کمیشن کی رپورٹ2011 کے مطابق موجودہ پاکستان کی آبادی کے 34فیصد لوگ کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں۔


لیکن ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ صرف کراچی کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے یہاں اس مرض کی شرح 34 فیصد سے زائد ہے۔ جہاں شہر میں جاری لسانی وفرقہ وارانہ فسادات نے اس بیماری کے جانور کی پرورش کی وہیں بجلی کا بحران اس کی پرورش میں مدد دیتا رہا ہے۔ ڈیلی ویجز پر کام کرنیوالے لاکھوں مزدور توانائی کے بحران کے باعث بند فیکٹریوں کی وجہ سے بے روزگار ہوئے۔ تو کہیں آئے دن کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے شہری زندگی مفلوج ہو گئی۔ کبھی کسی سیاسی جماعت نے ہڑتال کی کال دی تو کبھی کوئی علاقہ بند کروانے کے لیے اپنے چیلوں کو دندناتا چھوڑ گیا۔ ''بند کرو بند کرو'' کی آوازیں آئیں۔ ایسے میں کوئی کیا کمائے گا اور کیسے اپنے خاندان کی کفالت کر سکے گا۔

ایسے میں لوگ ہمت ہار رہے ہیں اور رفتہ رفتہ نفسیاتی عوارض کا شکار ہو رہے ہیں۔عالمی بینک کی گزشتہ برس کی رپورٹ کیمطابق پاکستان میں ذہنی امراض والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1990سے 1994کے دوران عوام میں ذہنی امراض ہونے کی تعداد بہت کم تھی۔ پندرہ سال یا اس سے زائد کے افراد میں یہ شرح 17.9تھی، جب کہ ناخواندہ افراد کے مقابلے میں خواندہ افراد میں ہائپر ٹینشن کی شرح 20فیصد سے کم تھی۔2004 میں کراچی کے 40سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں نفسیاتی امراض کی تعداد میں 40فیصد تک اضافہ ہوا ہے، جو نہایت سنگین صورتحال ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ عوام امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث تفریحی مقامات کا رُح نہیں کر رہے۔

حبس زدہ ماحول میں ایک عام فرد کے لیے یہ صورتحال قطرہ قطرہ زہر کی صورت اثر انداز ہوتی ہے اور نتیجتاً ایک عام فرد ڈیپریشن کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔یہ مرض غیرمحسوس طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔ ابتدائی کیفیات میں مایوسی، اُداسی، غم کا شدید احساس، اضطراب، بے چینی یا خلل کی کیفیت، بے خوابی یا نیند کی زیادتی، بھوک کی کمی یا زیادتی، وزن میں اُتار چڑھائو، موت و ہلاکت کے تخیلات اور خود کشی کے تصور کا ذہن میں پایا جانا قابلِ ذکر ہیں۔سول اسپتال کراچی اورجناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے ، پی، ایم، سی) کی او پی ڈیز میں روزانہ 120سے 150مختلف نفسیاتی عوارض میں مبتلا لوگ علاج کی غرض سے آتے ہیں۔ ماہرین کیمطابق ذہنی بیماریوں بشمول ڈیپریشن میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے لوگوں کے مزاج میں غصّہ چڑچڑا پن رچ بس گیا ہے، جس کی وجہ اطراف کا ماحول ہے۔

اس کی ایک وجہ ذرایع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا پر دکھائے جانے والے تشدد کے واقعات کی ڈراموں کی صورت میں منظر کشی ہے، جس کے باعث ایک عام فرد خود کو اس صورتحال میں رکھ کر سوچنا شروع کردیتا ہے۔ یوں ایک انجانا خوف اس کے نفس پر حاوی ہونے لگتا ہے۔ لوگ تشدد کاشکار نہ ہوں تو بھی post stress disorder میں مبتلا ہوکر بے چینی اور خوف کے شکنجے میں جکڑے جاتے ہیں۔ معمولی نوعیت کی ناچاقی کی بنیاد پر قتل جیسا انتہائی سنگین قدم اُٹھانا۔ اولاد کا ماں باپ کو مار دینا۔ معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کردینا۔ یہ تمام واقعات انتہائی افسوسناک مگر تلخ حقیقت ہیں جو ہمارے معاشرے کی بدحالی کا ثبوت ہے۔ معاشرہ جس روش پہ چل رہا ہے، اس میں بیمار ذہنوں کی پیداوار ایک لازمی امر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آگاہی دی جائے اور اسباب تلاش کیے جائیں، تاکہ نفسیاتی امراض کے شکار افراد کو بروقت سمجھ کر ابتدا ہی میں علاج کیا جاسکے۔
Load Next Story