پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے
اقتدار کے لیے بے قرار ہیرو سے کس امپائر نے انگلی اٹھانے کے لیے کیا وعدے کیے ہیں
اسلام آباد کے ہر ادارے میں تالا ڈالنے کے خواہش مند رہنما کو بے قراری صرف اس بات کی ہے کہ کسی طور شہرِ اقتدار میں بچھی ہوئی سیاست کی بساط لپیٹ کر اپنی پسند کا کھیل کھیلیں۔ ان کا خیال ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کا کپ وہ جیت کر گھر لے جائیں گے۔
پاکستان کی تاریخ انھوں نے نہیں پڑھی۔ وہ نہیں جانتے کہ اب سے بہت پہلے 7 اکتوبر 1958ء کو صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے یہ سمجھ کر جنرل ایوب خان سے ہاتھ ملایا تھا کہ اس طور وہ ملک کے ناپسندیدہ سیاستدانوں سے نجات حاصل کر لیں گے اور اقتدار کی کھیر مل بانٹ کر کھائیں گے۔
اسکندر مرزا، میر جعفر کے سگڑ پوتے یا شاید پروتے تھے اس کے باوجود نادان تھے اور سیاست کے اس بنیادی اصول سے بھی واقف نہ تھے کہ اقتدار کی میان میں 2 تلواریں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ یہ تو جمہوریت کا کرشمہ ہے جس میں قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
ایک دوسرے پر شدید نکتہ چینی کرتے ہیں لیکن یہ نکتہ چینی دشمنی کی حدوں کو نہیں چھوتی، کوئی دوسرے کو سیکیورٹی رسک قرار نہیں دیتا اور یہ بھی نہیں کہتا کہ اس کا حریف دشمن ملک سے خفیہ تعلقات رکھتا ہے، سب سے اہم اور اول ملک اور ملکی مفادات ہوتے ہیں، خواہش اقتدار کبھی ان سے بالاتر نہیں ہوتی۔
ہمارے یہاں مشکل یہ ہو گئی ہے کہ جمہوریت کے نام پر انتخاب لڑنے والے اس بات کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ اگر وہ کامیاب نہیں ہوں گے تو انھیں صبر و تحمل سے اگلے انتخابات کا انتظار کرنا ہو گا اور اس درمیانی مدت میں انھیں بہتر منصوبہ بندی کرنا ہو گی اور اپنے کارکنوں کو تربیت دینی ہو گی کہ وہ ایک بہتر نظام میں کام کرنے کے لیے خود کو تیار کریں۔
اسلام آباد میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے ہیرو نے شاید ملکی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہمارے اس 'ہیرو' کو یہ نہیں معلوم کہ ملک بننے کے صرف دس برس کے اندر غیر سیاسی عناصر نے اقتدار پر قبضے کے لیے نہایت ذہانت سے بساط بچھائی تھی اور اس میں بنیادی کردار ان لو گوں نے ادا کیا تھا جو سیاستدانوں کو بے توقیر کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔
اس زمانے کا ایک اہم کردار پاکستان مسلم لیگ کے صدر خان عبدالقیوم کا تھا۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں امید ظاہر کی تھی کہ فوج اور بیورو کریسی عوامی امنگوں کا احترام کرتے ہوئے اپنے فرائض آئین اور قانون کے مطابق ادا کرے گی۔ ابھی ان کی اس 'معصومانہ خواہش' کو اخبارات میں چھاپے کی سیاہی بھی نہیں لگی تھی کہ فوج اور بیورو کریسی نے عوامی امنگوں اور ترنگوں کا خیال کرتے ہوئے اسی رات مارشل لا نافذ کر دیا۔
تمام قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئیں، آئین منسوخ ہوا۔ چند دنوں بعد ایوب خان وزیراعظم بنے۔ خوش فہم اسکندر مرزا کو یقین تھا کہ وہ حسبِ سابق پاکستان کے صدر رہیں گے۔ انھوں نے 7 اکتوبر 1958ء کو مارشل لا نافذ کرتے ہوئے اعلان فرمایا تھا کہ ملک کے غدار، ملک چھوڑ کر فوراً باہر چلے جائیں۔ ابھی ان کے اس اعلان کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ 27 اکتوبر 1958ء کو ان سے بندوق کی نوک پر استعفیٰ لکھوا لیا گیا کیونکہ وہ 'غدار' تھے۔
اس کے بعد اسکندر مرزا اور بیگم ناہید اسکندر مرزا کو لندن روانہ کر دیا گیا، جہاں انھوں نے ایک ہوٹل میں ملازمت کی، ایک عزیز دوست کے فلیٹ میں رہتے رہے، ناہید اسکندر مرزا نے عُسرت اور غربت کی زندگی میں مرزا صاحب کا ساتھ دیا۔
یہ وہ زمانے تھے جب رہنماؤں کے سوئس بینکوں میں اکاؤنٹ نہیں ہوتے تھے، آف شور کمپنیاں نہیں ہوتی تھیں، امیر دوست نہیں ہوتے تھے، جو انھیں جہازوں میں سیر کرائیں اور ان کے تمام اخراجات اٹھائیں۔ اس زمانے کے سیاستدان سادہ زندگی گزارتے تھے اور عموماً مفلسی میں دنیا سے گزر جاتے تھے۔ اس کے باوجود کلف لگی وردیوں والے انھیں 'بدعنوان'، 'اسمگلر' اور 'رشوت خور' کہتے تھے اور ان ہی کے دورِ حکومت میں 20 خاندانوں کی دولت کی شہرت ہوتی تھی۔
اقتدار کے لیے بے قرار ہیرو سے کس امپائر نے انگلی اٹھانے کے لیے کیا وعدے کیے ہیں، ہمیں کچھ نہیں معلوم، لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ تاریخ کو پڑھتے رہنا چاہیے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ خوش فہمی کا ست رنگا غبار کس طرح حقیقت پر دبیز پردے ڈال دیتا ہے۔ بساط یہ سمجھ کر بچھائی جاتی ہے کہ اس پر ہم کھیلیں گے لیکن وقت گزرتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری حیثیت تو بس پیادے کی تھی اور پیادوں کو فارغ کرنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔
اکتوبر 1958ء اور اکتوبر 2016ء کے واقعات میں کتنی مماثلت ہے۔ کھیل کے میدان سے باہر چند سیاستدانوں کو اکٹھا کر کے وہ شور و غل مچاؤ کہ محسوس یہ ہو جیسے ان نام نہاد سیاستدانوں سے زیادہ اہم تو کوئی ہے ہی نہیں۔ یہ جو کہہ رہے ہیں ان کی ہر بات آمنا و صدقنا ہے۔ وہ لوگ جو عوام میں سے ہیں جن کے لیے اپنے ووٹ کی بے حد اہمیت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ووٹ ان کی اور ان کے بچوں کی تقدیر بدلے گا، انھیں حکومت بدلنے کی جلدی نہیں۔
وہ اپنے منتخب نمایندوں سے مطمئن نہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان سے جو وعدے کیے گئے وہ پورے نہیں کیے گئے، اس کے ساتھ ہی وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ جلد بازی، اصل بازی ہی پلٹ دیتی ہے۔ انھیں یاد ہے کہ جب بھٹو صاحب کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی مہم چل رہی تھی، اس وقت بھی کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ملک میں مارشل لا لگانے کے لیے پس پردہ تیاریاں ہیں لیکن بیشتر لوگوں کو اس بات سے اتفاق نہیں تھا۔
اس بھٹو مخالف مہم میں ایئر مارشل اصغر خان پیش پیش تھے۔ انھوں نے مارشل لا نافذ کرنے کے لیے ایک تفصیلی خط بھی لکھا تھا۔ ان معاملات کی تفصیل میں جائے بغیر اصل بات یہ ہے کہ بھٹو صاحب سے نجات حاصل کرکے اقتدار میں اپنا اپنا حصہ لینے کے خواہش مند سیاستدان پرلے درجے کے خوش فہم ثابت ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق جو اپنی سرمہ بھری آنکھوں سے ہمیں دیکھتے ہوئے، جمہوریت اور آئین کی بحالی اور 90 دن کے اندر اگلے انتخابات کا وعدہ کرتے ہوئے آئے تھے، وہ ہماری گردنوں پر گیارہ برس مسلط رہے اور جب ہمیں ان سے نجات ملی تو پاکستان ایک رجعت پرست اور تنگ نظر سماج میں تبدیل ہو چکا تھا۔
پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے بجا اور بر حق کہا ہے کہ ہم غیر آئینی طریقے سے لائی جانے والی کسی بھی تبدیلی کے مخالف ہیں۔ ہم کسی فرد کے نہیں جمہوریت اور پارلیمنٹ کے حامی ہیں۔
ہمارے یہاں خوش فہموں کا ایک بہت بڑا قبیلہ پایا جاتا ہے اور یہ صرف سیاست میں ہی نہیں، زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے خیال میں پاکستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر ابھر سکتا ہے اور یہاں خلیفۃالمسلمین کی زیر نگرانی وہ سنہری دور واپس آ سکتا ہے جسے خلفائے راشدین کا زمانہ کہا جاتا ہے۔
کچھ دانا و بینا لوگوں کی رائے میں اگر ملک کی نصف آبادی کو گھروں میں قید کر دیا جائے تو یہاں کا اخلاقی اور سماجی نظام بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ خوش فہم ایٹم بم کے استعمال کو دشمن سے نجات اور ملک کے بیشتر مسائل کا حل خیال کرتے ہیں۔
چند دنوں پہلے ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں ایک صاحب یہ کہتے ہوئے سنائی دیے کہ ملکی مسائل کا حل سیاستدانوں سے نجات ہے۔ اگر صرف چھ مہینے کے لیے ان سے چھٹکارا مل جائے تو عوام کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ جی چاہا کہ ان سے جان کی امان مانگ کر یہ سوال کیا جائے کہ عوام نے جنرل ایوب کے 10، جنرل ضیاء کے 11 اور جنرل مشرف کے بھی لگ بھگ اتنے ہی برس سیاستدانوں کے بغیر گزار دیے۔ یہاں سیاستدان سے مراد وہ لوگ ہیں جو جیل جاتے ہیں، جلاوطن ہوتے ہیں، پھانسی چڑھتے ہیں۔
ایسے سیاستدانوں سے آپ کو سالہا سال نجات رہی۔ 'نجات' کے ان طول طویل برسوں میں قوم کی کون سی مشکلیں کم ہوئیں اور کون سے دلِدّر دور ہوئے؟ سچ پوچھئے تو ہر 'نجات دہندہ' کے دور اقتدار میں ہمارے مسائل بڑھتے گئے اور ہمارے ملک کا جغرافیہ کم ہوتا گیا۔ چند دنوں پہلے یہ بھی کہا جا چکا ہے کہ امپائر کی انگلی اٹھ چکی ہے، ہم جو عوام میں سے ہیں، ہم نہ کرکٹ کا کھیل جانتے ہیں اور نہ خوش فہموں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، ہم تو بس اس انتظار میں ہیں کہ پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔