یہ کیا ہے کیوں ہے یہ عالم

ہمارے شہروں کے نالے ان پلاسٹک بیگ اور تھیلیوں سے اٹے پڑے ہیں۔

چاروں طرف سے ایک یلغار ہے، جس نے ہمارے ملک پاکستان کو گھیر رکھا ہے، ہمارا دشمن ہمیں تباہ و برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ عافیت کی کوئی سمت دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومت والے بھی جو برا کر رہے ہیں سو کر رہے ہیں، عام لوگ بھی کچھ کم نہیں کر رہے ہیں، ملنے جلنے والے بہت سے مسائل کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں اور میں ان مسائل پر لکھنا بھی چاہتا تھا۔ مگر گمبھیر مسائل سے پیچھا چھوٹے تو دھیان کسی اور طرف جائے۔ ایسے حالات میں کل ٹیلی ویژن پر ایک ایسی خبر چلی کہ جسے دیکھ اور سن کر میرا پورا وجود کانپ کر رہ گیا۔

ٹیلی ویژن پر ہمارے سرکاری و نیم سرکاری اسپتالوں کے کچرے کو دکھایا جارہا تھا، جس میں پلاسٹک کی سرنجیں، بلڈ اور دیگر ادویات کی ڈرپس میں استعمال ہونے والے پلاسٹک بیگ، پلاسٹک کے دستانے اور دیگر استعمال شدہ انتہائی خطرناک جراثیم سے آلودہ فضلہ بھی شامل تھا، منوں اور ٹنوں کے حساب سے یہ کچرا بوریوں میں بھر کر ان کارخانوں کو فروخت کردیا جاتا ہے جہاں اس کچرے کو پگھلا کر اس کا دانہ بنایا جاتا ہے اور پھر اس دانے سے بچوں کے دودھ پینے کے نپل اورکھانے کے برتن بنائے جاتے ہیں۔ اس گھناؤنے اور مکروہ کاروبار میں شامل افراد کہہ رہے تھے''یہ کچرا اسپتال والے ہمیں خود پہنچاتے ہیں'' بچوں کے نپل اور کھانے کے پلاسٹک کے برتن بنانے والے مالکان کہہ رہے تھے ''ہم اس کچرے کو اتنی زیادہ حرارت پر پگھلاتے ہیں کہ ان میں شامل جراثیم مر جاتے ہیں۔''

گویا ہمارے دشمن جو کررہے ہیں سو کررہے ہیں مگر ہمارے دوست بھی کم نہیں کررہے۔ عام چھوٹے کاروباری حضرات کچھ ٹکوں کی خاطر انسانی جانوں سے کھیلتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کر رہے۔ جعلی ادویات کا غیر انسانی کام بھی ہمارے ملک میں خوب چلتا ہے، دوا جیسی چیز جو انسانی جان بچانے کے کام آتی ہے اس میں بھی جعل سازی کرکے انسانی جانوں سے کھیلا جارہا ہے اور یہ کام کرنے والے بہت بڑی تعداد میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے دھوکا دینے کے لیے چہروں پر ڈاڑھیاں سجا رکھی ہیں، ماتھے پر سجدوں کا سیاہ نشان بھی بنا رکھا ہے، اللہ مجھے معاف کرے، مگر ایسا ہی ہورہا ہے۔

میرے احباب ملنے جلنے والے اکثر جن مسائل کی طرف میری توجہ دلاتے تھے وہ بھی سنگین ہیں۔ مگر کل یہ اسپتالوں کے کچرے والے مناظر دیکھ کر اور تفصیلات سن کر دل دہل گیا۔ ایک دوست قصہ سنا رہے تھے ان کا چھوٹا سا چھاپہ خانہ ہے، ان کے پاس ایک صاحب آئے اور سنگاپور کی پینسلوں کا رنگین ڈبہ انھیں دکھایا اور کہا کہ اس ڈبے کی نقل بنا دیں، انھوں نے وہی رنگ، وہی روپ دے کر ڈبے بنا دیے، پتہ چلا کہ ان ڈبوں میں چائنا کی سستی پینسلیں ڈال کر سنگاپور کے نام سے انھیں بازار میں بیچا جائے گا۔ خیر! یہ تو جعل سازیاں عام ہیں۔

اصل بات سنیے! وہ صاحب جو یہ جعلی ڈبے بنوا رہے تھے انھوں نے پریس والے سے کہا کہ جب میرا کام ہورہا ہو تو اپنے کاریگروں سے کہیں کہ وہ نور جہاں، رفیع، لتا کے گانے نہیں سنا کریں اور ایسا کرنے کے ان کو پانچ سو روپے میں علیحدہ دوں گا۔ کاریگروں نے پانچ سو روپے کے لیے گانے سننا بند کردیے۔ غور فرمائیں جو چائنا کی پنسلیں وہ صاحب سنگاپور کی کہہ کر بازار میں بیچ رہے ہیں اس جعل سازی کو وہ گناہ نہیں سمجھ رہے اور نورجہاں، لتا، رفیع کے گانوں کو ان کے جعلی ڈبوں کی تیاری کے دوران کاریگر، مزدور، مشین مین نہ سنیں، یہ کیا بات ہوئی؟ ذرا سوچیے۔۔۔۔ ان کے نزدیک یہ گانے سننا زیادہ بڑا گناہ ہے۔


اب لگے ہاتھوں ان دو سنگین مسئلوں کا بھی ذکر ہوجائے کہ جن کے بارے میں احباب مجھ سے اکثر کہتے تھے ''گٹکا'' یہ زہر ہمارے نوجوان، بوڑھے، مرد، عورتیں اور نابالغ بچے بھی خوب کھا رہے ہیں اور برباد ہورہے ہیں۔ خصوصاً ہمارے محنت کش، ہنرمند، مزدور طبقہ، مکانات بنانے والے راج، مزدور، فرنیچر بنانے والے کاریگر، بڑھئی، موٹر مکینک، پرنٹنگ پریس کے مزدور کاریگر یہ زہر اپنے اندر خوب اتار رہے ہیں۔ یہ گٹکا جس گندگی کے ساتھ گندی جگہوں پر بنایا جاتا ہے وہ گندگی کا ماحول کئی بار عوام کو دکھایا جاچکا ہے۔ نشاندہی کے باوجود اس زہر کو تیار کرنے والے دندنا کر یہ کاروبار کر رہے ہیں اور انھیں کوئی نہیں پکڑتا، پولیس والے اور دیگر حکومتی ادارے خاموش نظر آتے ہیں۔کئی قسم کے گٹکے اور زہریلی چھالیہ، انتہائی خوبصورت پیکنگ کے ساتھ پورے ملک میں دستیاب ہیں۔ کروڑوں روپے کا سرمایہ موت کے رقص پر لگا ہوا ہے۔ افسوس کہ ''سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں۔''

اب ایک اور مسئلہ! وہ بھی سن لیجیے! ابھی کل ہی کی بات ہے چند سال پہلے تک دودھ دہی، لسّی، ہوٹل کے پکے ہوئے سالن وغیرہ۔ ان اشیاء کے لیے برتن کا استعمال ہوتا تھا۔ مثلاً دودھ والا آتا تو گھر والے برتن لے کر دروازے پر جاتے اور دودھ برتن میں ڈلوا لیتے تھے۔ دہی وغیرہ کے لیے گھر سے برتن لے کر بازار جاتے تھے، گوشت والا بھی اخباری کاغذ یا کاغذ کے لفافوں میں گوشت دیا کرتا تھا، پرچون کا سامان دالیں، چاول، بیسن، گرم مصالحے، لال مرچ، سوکھا دھنیا، ہلدی نمک یہ سب کاغذ کے لفافوں میں دیا لیا جاتا تھا۔ گھی، تیل کے لیے گھر کے برتن استعمال ہوتے تھے۔ یا ٹین کے ڈبوں میں گھی تیل ہوتے تھے۔ گھر سے صبح کے وقت، سودا سلف لینے کے لیے ایک ٹوکری لے کر بازار جانا ہوتا تھا۔

مگر آج ان سب روایات کو بھلا کر پلاسٹک کی تھیلیاں ہمارا مقدر بن چکی ہیں، اب دودھ، دہی، لسّی، دالیں، چاول، سرخ مرچ، مصالحے، سبزی، ہوٹل کی نہاری، قورمہ، روٹیاں، ان سب کے لیے پلاسٹک کی انسان دشمن تھیلیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ آج ہم حد درجہ سہل پسند ہوچکے ہیں اور بہت سی خطرناک بیماریوں کا ازخود شکار ہورہے ہیں۔ یہ پلاسٹک کی تھیلیاں انتہائی مضر صحت ہیں، گھڑی بھر کو ان تھیلیوں میں اشیاء خورونوش لے کر ہم انھیں پھینک دیتے ہیں اور پھر یہ تھیلیاں ہوا کے تھپیڑوں کے ساتھ گلیوں، بازاروں میں دھکے کھاتے بالآخر کسی نالی، کسی گٹر میں چلی جاتی ہیں اور نالیوں اور گٹروں کو بند کردیتی ہیں۔

ہمارے شہروں کے نالے ان پلاسٹک بیگ اور تھیلیوں سے اٹے پڑے ہیں۔ نالوں کا بہاؤ رک جاتا ہے۔ بارشوں کے موسم میں یہ تھیلیاں اپنا رنگ خوب دکھاتی ہیں۔ آج بہت سی خطرناک بیماریوں کا سبب یہی تھیلیاں ہیں۔ آخر میں نہایت اختصار کے ساتھ ایک واقعہ اور پھر بس۔۔۔۔۔! پندرہ بیس سال پہلے ایک دوست کے والد کے جنازے میں قبرستان جانا ہوا، قبر تیار تھی چار فٹ گہری قبر کے اطراف میں پلاسٹک کی تھیلیاں مٹی میں دبی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ دوست کے والد کو انھی تھیلیوں سمیت دفنا دیا گیا۔

قارئین کرام! یہ ڈرون حملے، یہ خودکش حملے، سلگتا ہوا بلوچستان، خون آلودہ میرا شہر کراچی اور ''نامعلوم قاتل'' ان تمام یلغاروں نے ہمیں پہلے ہی گھیر رکھا ہے اور ان کے علاوہ وہ یلغاریں جن کا میں نے اس کالم میں ذکر کیا ہے۔ ''یہ کیا ہے، کیوں ہے یہ عالم؟'' تو کیا ہمیں ہر طرف سے ہر طرح سے مارا ہی جارہا ہے، پلاسٹک تھیلیوں پر کئی بار پابندی بھی لگائی گئی، مگر کچھ دن کے لیے اور پھر وہی تھیلیاں اور وہی ہم۔
Load Next Story