عالمی دہشت گردی کی جڑ اسرائیل

گزشتہ طویل دہائیوں سے اس پاک سر زمین میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے اور آئے روز یہاں کبھی فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی...


Sabir Karbalai December 16, 2012

دورحاضر میں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ عالمی استعمار امریکا کی ''نیو ورلڈ آرڈر '' کی اصطلاح کا اصل مطلب کیا ہے، یعنی پوری دنیا پر امریکی غاصبانہ قبضہ ،کہیں اسرائیل جیسی غاصب صہیونی ریاست کے ذریعے فلسطین پر قبضہ اور پھرگریٹر اسرائیل (نیل تا فرات) کے مذموم منصوبے،کبھی لبنان پر اسرائیلی حملوں کا دفاع کرنا،تو کہیں عراق اور افغانستان میں امریکی فوجوں کو اتار کر براہ راست قبضہ کرنا، لیبیا میں اپنی فوجوں کو بھیج کر وہاں کے وسائل پر قبضہ، بالکل اسی طرح پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سمیت امریکی دہشت گرد افواج کی کھلی کارروائیوں جیسی کئی مثالیں موجود ہیں اورکہیں شام کے اندر دہشت گرد قوتوں کو اسلحہ اور ڈالر کی مدد کے ذریعے عدم استحکام کی سازشیں کرنا ۔

اسی طرح مصر ،تیونس،یمن ،لیبیا سمیت سوڈان اور صومالیہ میںامریکی جارحیت ہمارے سامنے واضح مثالیں ہیں کہ جہاں امریکا نے کبھی انسانی حقوق کے نام پر اور کبھی مہلک ہتھیاروں اور کبھی جمہوریت کے نام پر شب خون مارا اور پھر بالآخر وہاں کے تمام وسائل پر قابض ہو گیا،الغرض ایشیاء ،شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے اندر موجود وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے عالمی دہشت گرد امریکا نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ،اور اس کام کو انجام دینے کے لیے امریکا کے ساتھ اسرائیل صف اول میں موجود ہے۔

درج بالا جتنے خطوں اور ممالک کی بات کی گئی ہے وہاں پر منظم منصوبہ بندی کے ذریعے سے امریکی پلان کو کامیاب کیا جاتا رہا ،مثال کے طور پر افغانستان میں جہادی گروہوں کو ختم کرنے کے لیے امریکی بہانہ مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہ گروہ ماضی قریب میں ہی امریکا کی جنگ لڑ رہے تھے اور آج امریکا کے دشمن کیسے بن گئے؟ یقینا یہ فقط ایک بہانہ تھا ،اس کے بر عکس دوسری جانب وہاں پر مہلک اور خطر ناک ہتھیار جو استعمال ہوتے رہے وہ سب کے سب غاصب صہیونی ریاست اسرائیل سے لائے گئے تھے ،سوا یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسرائیلی اسلحہ کی ترسیل کس طرح ممکن ہوئی؟

اسی طرح پاکستان جو کہ مسلم امہ کا قلب سمجھا جاتا ہے اور دنیا بھر میں مسلم امہ پر کوئی آنچ آن پڑے تو پاکستان اس کا درد محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ،گزشتہ طویل دہائیوں سے اس پاک سر زمین میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے اور آئے روز یہاں کبھی فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے تو کبھی لسانیت کو تو کبھی قوموں کو آپس میں لڑوانے کی بات کی جاتی ہے ۔غرض یہ کہ یہاں پر صرف یہ کوششیں زوروں پر ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایک سیاسی جماعت کسی دوسری سیاسی جماعت سے لڑے ،اگر نہیں تو کوئی مذہبی جماعت ہی کسی دوسری مذہبی جماعت سے گتھم گتھا ہو جائے اور اگر یہ بھی نہیں تو پھر فرداً فرداً افراد کو نشانہ بنایا جائے اور یہاں کے عوام کو آپس میں دست و گریباں کیا جائے ۔

ان تمام معاملات کے پس پردہ دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہونے والے اسلحے کی بات کی جائے تو حیرت انگیز اورافسوس کی بات ہے کہ یہاں بھی اسرائیلی اسلحہ پہنچایا جارہا ہے تا کہ ملک میں خون کی ہولی کا کھیل جاری رہے۔یہ فقط ہوا میں باتیں نہیں ہیں،ابھی حال ہی میں پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں اس بات کا انکشاف کیا کہ پاکستان میں جاری دہشت گردانہ کارروائیوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ اسرائیلی اسلحہ ہے ۔

اب سوچیے کہ مملکت خداداد پاکستان میں آخر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے؟آخر کس طرح یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کو اسرائیلی اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے اور ہمارا خون بہا رہے ہیں؟ آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ یہاں میں ایک اور بات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان ایسا اسلامی ملک ہے کہ جس نے روز اول سے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے غیر قانونی وجود کو تسلیم نہیں کیا ۔صرف یہی نہیں بلکہ مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کی ہمیشہ مدد اور حمایت جاری رکھی ہے ،شاید اسی گناہ کی سزا میں ملک دشمن قوتیں امریکا اور اسرائیل پاک سر زمین کو اتنی بڑی سزا دینا چاہتے ہیں اور ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے باہم دست وگریباں کرنا چاہتے ہیں۔

اب ذرا شام کی صورتحال بھی دیکھ لیجیے! شام میں آخر کیا ہو رہاہے؟ یہ سوال ہر ذی شعور کے دماغ میں گونج رہا ہے ،یقینا یہ ایک اہم ترین سوال ہے۔شام ایک ایسی ریاست اور حکومت والا ملک ہے کہ جس نے روز اول سے جہاں فلسطینی کاز کی نہ صرف زبانی حمایت جاری رکھی ہے بلکہ عملی طور پر لاکھوں فلسطینیوںکو شام میں حقوق بھی فراہم کیے ہیں اور فلسطینیوں کی ہر محاذ پر عملی مدد بھی کی ہے ۔آج شام میں چند دہشت گرد گروہ نکل کھڑے ہوئے ہیں جو دنیا کے دوسرے ممالک سے وہاں پہنچائے جا رہے ہیں تا کہ شام کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے اور شام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد فلسطینی تحریکوں کو کچل دیا جائے ۔شام کی سرحد گولان کی پہاڑیوں پر تو اسرائیل پہلے سے ہی موجود ہے بس وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ شام پر قبضہ کر کے فلسطینی مزاحمتی تحریک کو نابود کر دیں ۔

دوسری جانب انتہائی اہمیت کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی ذرایع ابلاغ کے حالیہ انکشاف کے مطابق اسرائیلی کیبنٹ میں حزب اقتدار کے رکن پارلیمان میخائل بن آری نے اسرائیلی حکومت سے فوجی صنعتوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا ہے کہ اسرائیل اپنے اسلحے کی ترسیل کے ذریعے دنیا بھر میں قتل و غارت گری کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ان کا کہنا ہے ''اگر میں اسرائیل کا وزیر اعظم ہوتا تو اسرائیل سے اسلحے کی برآمد پر پابندی عائد کر دیتا اور اور ایک گولی بھی برآمد نہ ہونے دیتا۔''

یوٹیوب پر نشر اس ویڈیو میں فلسطینی رکن پارلیمان اعتراف کر رہے ہیں کہ اسرائیل میں اسلحہ سازی اور پھر اس اسلحے کی مختلف ممالک تک ترسیل دنیا بھر میں قتل وغارت گری اور جنگوں کا سبب بن رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کتنی بار ایسا ہوا کہ ہم نے دنیا میں امن برقرار رکھنے کے لیے اسلحہ برآمد کیا اور یہ اسلحہ قتل و غارت گری میں استعمال ہوا، ایشیاء ہو،افریقا ہو یا ایران۔ عراق جنگ کے دوران ہر جگہ ہم نے اسلحہ برآمد کیا جو جنگوں میں استعمال ہوا اور قتل وغارت گری میں استعمال ہوا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔