گداگر پال بزنس
شہر میں گداگر پال بزنس بھی ایک مکروہ کاروبار کی طرح چلایا جا رہا تھا۔
سکندر کا کسی کام سے شہر کی شمالی سمت جانا ہوا ایک جگہ ٹریفک سگنل پر بہت رش کی وجہ سے سگنل گرین ہونے میں دیر لگی تو کئی گداگروں نے اس کی کار کا شیشہ کھٹکھٹایا ایک گداگر کی حالت قابل رحم تھی اس لیے سکندر نے اسے پچاس روپے کا نوٹ دیا کچھ روز بعد اس کا دوبارہ اسی طرف آنا ہوا تو اس نے دو تین گداگروں کو شناخت کر لیا جن میں وہ گداگر بھی تھا جسے اس نے پیسے دیے تھے۔
پندرہ بیس روز کے بعد وہ شہر کے جنوبی علاقے کی طرف گیا تو ایک معروف چوراہے کے ٹریفک سگنل پر دو ایسے گداگر پہچان لیے جنھیں وہ شمالی علاقے میں دیکھ چکا تھا ایک دو ماہ کے بعد اس نے شہر کے ایک اور مصروف علاقے کے ٹریفک سگنل پر کئی گداگروں پر نظر دوڑاتے ہوئے دو پرانے گداگر پہچان لیے۔ اب اسے خواہ مخواہ کے تجسس نے گھیر لیا اور وہ جب بھی زیادہ رش والے ٹریفک سگنل پر گاڑی روکتا گداگروں پر نظر دوڑاتا تب اسے معلوم ہوا کہ گداگر کچھ عرصہ کے بعد اپنی لوکیشن بدل لیتے ہیں۔
ایک روزاس نے تین مختلف مقامات پر دیکھے جانے والے چند گداگروں کی تصاویر اپنے موبائل فون پر اتار لیں آیندہ ایک دو ماہ میں لوکیشن بدلنے والے دو تین مزید گداگر کیمرے کی گرفت میں آ گئے تو اسے ایک نیا آئیڈیا آیا وہ یہ کہ معلوم کیا جائے کہ گداگر کس نظام کے تحت گداگری کے اڈے تبدیل کرتے ہیں کیونکہ ایسا صرف گداگر تنظیم قائم ہونے سے ممکن ہے جو ایک چارٹ بنا کر یا پھر سرکاری ملازمین کی طرح پوسٹنگ ٹرانسفر کی پالیسی کے تحت ان کو Rotate کرے۔
چند ماہ کی مسلسل ابزرویشن سے سکندر نے جن سات آٹھ روزی رساں گداگر اڈوں کی ریکی کی تھی اسے معلوم ہو چکا تھا کہ کون کون سے ٹریفک سگنل اڈے زیادہ اور کون سے کم منافع بخش ہیں لیکن جب ایک گداگر زیادہ کمائی والے اڈے سے کم کمائی والے اڈے پر منتقل ہوتا تو انسانی فطرت کے برخلاف سکندر کی ابزرویشن کے مطابق گداگروں میں کوئی تنازع کھڑا نہ ہوتا اور وہ معمول کی گداگری میں مصروف پائے جاتے سکندر کے لیے یہ تو نا ممکن تھا کہ وہ کسی گداگر ہی سے دریافت کرے کہ ان کا پوسٹنگ ٹرانسفر کا کیا نظام ہے اور شرو ع شروع میں جب اس نے ان گداگروں کا نوٹس لیا تو اس نے ان کو کوئی اہمیت نہ دی تھی لیکن تین چار ماہ کی ابزرویشن سے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ سراغ لگائے کہ کیا وہ ایک منظم پارٹی ہیں یہ لوگ کس طرح اپنی لوکیشن طے کرتے اور بدلتے ہیں کہاں سے آتے اور کہاں کہاں جاتے ہیں۔
اس نے ایک دوست سے اپنی تحقیق بارے مشورہ کیا تو وہ قہقہہ مار کر ہنسا اور اسے شوق فضول سے منع کیا لیکن سکندر کے ذہن میں جو تجسس پیدا ہو چکا تھا وہ اسے انجام تک پہنچانا چاہتا تھا اس لیے اس نے دو عدد لوکیشنز کا انتخاب کر کے اپنے دو ملازموں کو وہاں علی الصبح ڈراپ کر کے ان کو اپنے منتخب کیے ہوئے گداگروں کی موبائل فون سے کھینچی ہوئی تصاویر دے کر ان گداگروں کی وہاں آمد اور شام کو روانگی Trace کرنے کی ڈیوٹی پر لگا دیا۔
سکندر نے پھر دونوں ملازموں کو کرائے کی موٹر بائیکس بھی دلوا دیں۔ چند روز تک تو بے چارے ملازموں کو اپنے کام کی نوعیت ہی سمجھ نہ آئی اور وہ معلوم نہ کر سکے کہ تصاویر والے کب اور کہاں سے اپنی ڈیوٹی والے سگنل کراسنگز پر آن ٹپکتے اور کہاں سے شام ہوتے ہی غائب ہو جاتے ہیں لیکن سکندر نے ان کی رہنمائی کی تو کام کی نوعیت ان کی سمجھ میں آ گئی۔
ایک روز سکندر کے ملازم نے شام کے وقت ایک گداگر کو ایک پرائیویٹ وین میں بیٹھتے دیکھ کر اپنا موٹر سائیکل اس کے پیچھے لگا دیا۔ وین نے چند اور جگہوں سے گداگر نما لوگوں کو پک کیا اور پھر وین ایک دور کی آبادی کے الگ تھلک مکان پر جا رکی۔ ملازم ذرا قریب پہنچ کر موٹر سائیکل کو اس طرح چیک کرنے لگا جیسے اس میں کوئی نقص پڑ گیا ہو پھر اس نے ویگن ڈرائیور سے پلاس اور پیچ کس مانگا اور جھوٹ موٹ بائیک کی مرمت کرنے کے دوران گداگروں کو عمارت کے اندر جاتے دیکھا۔ اس کا موٹر سائیکل تو ٹھیک نہ ہوا لیکن وین وہاں سے چلی گئی پھر اس نے مکان کا دروازہ کھٹکھٹا کر پینے کے لیے پانی مانگا تو چوکیدار نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پانی پلا کر جھٹ سے دروازہ اندر سے بند کر لیا۔
سکندر کا ملازم اگلی صبح طلوع آفتاب سے پہلے اس مکان سے دور گلی کے موڑ پر کھڑا ہو گیا اور گداگروں کو وین میں سوار ہوتا دیکھتا رہا۔ سکندر کے دوسرے ملازم کی کہانی بھی پہلے ملازم جیسی ہی تھی۔ سکندر کو اب کوئی شبہ نہ رہا کہ اسے گداگروں کے ڈیوٹی ڈسپلن کے پس منظر میں جو شک گزرا تھا وہ صحیح تھا اور شہر میں گداگر پال بزنس بھی ایک مکروہ کاروبار کی طرح چلایا جا رہا تھا۔
پندرہ بیس روز کے بعد وہ شہر کے جنوبی علاقے کی طرف گیا تو ایک معروف چوراہے کے ٹریفک سگنل پر دو ایسے گداگر پہچان لیے جنھیں وہ شمالی علاقے میں دیکھ چکا تھا ایک دو ماہ کے بعد اس نے شہر کے ایک اور مصروف علاقے کے ٹریفک سگنل پر کئی گداگروں پر نظر دوڑاتے ہوئے دو پرانے گداگر پہچان لیے۔ اب اسے خواہ مخواہ کے تجسس نے گھیر لیا اور وہ جب بھی زیادہ رش والے ٹریفک سگنل پر گاڑی روکتا گداگروں پر نظر دوڑاتا تب اسے معلوم ہوا کہ گداگر کچھ عرصہ کے بعد اپنی لوکیشن بدل لیتے ہیں۔
ایک روزاس نے تین مختلف مقامات پر دیکھے جانے والے چند گداگروں کی تصاویر اپنے موبائل فون پر اتار لیں آیندہ ایک دو ماہ میں لوکیشن بدلنے والے دو تین مزید گداگر کیمرے کی گرفت میں آ گئے تو اسے ایک نیا آئیڈیا آیا وہ یہ کہ معلوم کیا جائے کہ گداگر کس نظام کے تحت گداگری کے اڈے تبدیل کرتے ہیں کیونکہ ایسا صرف گداگر تنظیم قائم ہونے سے ممکن ہے جو ایک چارٹ بنا کر یا پھر سرکاری ملازمین کی طرح پوسٹنگ ٹرانسفر کی پالیسی کے تحت ان کو Rotate کرے۔
چند ماہ کی مسلسل ابزرویشن سے سکندر نے جن سات آٹھ روزی رساں گداگر اڈوں کی ریکی کی تھی اسے معلوم ہو چکا تھا کہ کون کون سے ٹریفک سگنل اڈے زیادہ اور کون سے کم منافع بخش ہیں لیکن جب ایک گداگر زیادہ کمائی والے اڈے سے کم کمائی والے اڈے پر منتقل ہوتا تو انسانی فطرت کے برخلاف سکندر کی ابزرویشن کے مطابق گداگروں میں کوئی تنازع کھڑا نہ ہوتا اور وہ معمول کی گداگری میں مصروف پائے جاتے سکندر کے لیے یہ تو نا ممکن تھا کہ وہ کسی گداگر ہی سے دریافت کرے کہ ان کا پوسٹنگ ٹرانسفر کا کیا نظام ہے اور شرو ع شروع میں جب اس نے ان گداگروں کا نوٹس لیا تو اس نے ان کو کوئی اہمیت نہ دی تھی لیکن تین چار ماہ کی ابزرویشن سے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ سراغ لگائے کہ کیا وہ ایک منظم پارٹی ہیں یہ لوگ کس طرح اپنی لوکیشن طے کرتے اور بدلتے ہیں کہاں سے آتے اور کہاں کہاں جاتے ہیں۔
اس نے ایک دوست سے اپنی تحقیق بارے مشورہ کیا تو وہ قہقہہ مار کر ہنسا اور اسے شوق فضول سے منع کیا لیکن سکندر کے ذہن میں جو تجسس پیدا ہو چکا تھا وہ اسے انجام تک پہنچانا چاہتا تھا اس لیے اس نے دو عدد لوکیشنز کا انتخاب کر کے اپنے دو ملازموں کو وہاں علی الصبح ڈراپ کر کے ان کو اپنے منتخب کیے ہوئے گداگروں کی موبائل فون سے کھینچی ہوئی تصاویر دے کر ان گداگروں کی وہاں آمد اور شام کو روانگی Trace کرنے کی ڈیوٹی پر لگا دیا۔
سکندر نے پھر دونوں ملازموں کو کرائے کی موٹر بائیکس بھی دلوا دیں۔ چند روز تک تو بے چارے ملازموں کو اپنے کام کی نوعیت ہی سمجھ نہ آئی اور وہ معلوم نہ کر سکے کہ تصاویر والے کب اور کہاں سے اپنی ڈیوٹی والے سگنل کراسنگز پر آن ٹپکتے اور کہاں سے شام ہوتے ہی غائب ہو جاتے ہیں لیکن سکندر نے ان کی رہنمائی کی تو کام کی نوعیت ان کی سمجھ میں آ گئی۔
ایک روز سکندر کے ملازم نے شام کے وقت ایک گداگر کو ایک پرائیویٹ وین میں بیٹھتے دیکھ کر اپنا موٹر سائیکل اس کے پیچھے لگا دیا۔ وین نے چند اور جگہوں سے گداگر نما لوگوں کو پک کیا اور پھر وین ایک دور کی آبادی کے الگ تھلک مکان پر جا رکی۔ ملازم ذرا قریب پہنچ کر موٹر سائیکل کو اس طرح چیک کرنے لگا جیسے اس میں کوئی نقص پڑ گیا ہو پھر اس نے ویگن ڈرائیور سے پلاس اور پیچ کس مانگا اور جھوٹ موٹ بائیک کی مرمت کرنے کے دوران گداگروں کو عمارت کے اندر جاتے دیکھا۔ اس کا موٹر سائیکل تو ٹھیک نہ ہوا لیکن وین وہاں سے چلی گئی پھر اس نے مکان کا دروازہ کھٹکھٹا کر پینے کے لیے پانی مانگا تو چوکیدار نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پانی پلا کر جھٹ سے دروازہ اندر سے بند کر لیا۔
سکندر کا ملازم اگلی صبح طلوع آفتاب سے پہلے اس مکان سے دور گلی کے موڑ پر کھڑا ہو گیا اور گداگروں کو وین میں سوار ہوتا دیکھتا رہا۔ سکندر کے دوسرے ملازم کی کہانی بھی پہلے ملازم جیسی ہی تھی۔ سکندر کو اب کوئی شبہ نہ رہا کہ اسے گداگروں کے ڈیوٹی ڈسپلن کے پس منظر میں جو شک گزرا تھا وہ صحیح تھا اور شہر میں گداگر پال بزنس بھی ایک مکروہ کاروبار کی طرح چلایا جا رہا تھا۔