کیا تبدیلی وقت ناگزیر ہے

اگر اوقات بدلتے ہیں تو معاشرتی نظام کو بھی بدلنا ہوگا۔


Naseem Anjum October 30, 2016
[email protected]

انتظامی اور بنیادی ضرورتوں کے حوالے سے کراچی کے حالات جوں کے توں ہیں، ذرا برابر بھی تبدیلی نظرنہیں آتی ہے،اسی قسم کے امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، یوٹیلٹی بلز نے غریب اور متوسط طبقوں کے چودہ طبق روشن کردیے ہیں۔ واٹر بورڈ اور کے ای نے سب سے زیادہ تباہی مچائی ہے اورکراچی شہرکے مکینوں کو آٹھ آٹھ آنسو رلایا ہے۔

پانی نہ آنے کی وجہ سے لوگ ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں، واٹر بورڈ والے پانی کی کمی کا رونا روتے ہیں لیکن ٹینکر مافیا کے پاس پانی بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے تو یہ پانی کہاں سے آتا ہے؟ اسی ہی رویے سے افسرانِ بالا کے بیان میں تضاد نظر آتا ہے۔ بالکل اسی طرح کے ای کا محکمہ بھی زیادہ سے زیادہ ریڈنگ نوٹ کرکے لے جاتا ہے اور اپنے صارفین سے تین حصے زیادہ رقم وصول کرتا ہے۔

کنڈا ڈالنے والے سب سے زیادہ نفع میں ہوتے ہیں۔ چار اے سی چلائیں یا دو، دن رات بجلی خرچ کریں،انھیں کوئی پکڑنے یا جرمانہ کرنے والا نہیں، شامت آتی ہے تو بے چارے اس شریف انسان کی جس کی تنخواہ صرف دس، بیس ہزار اور بجلی کا بل 8،10 ہزار سے کم نہیں آتا ہے۔

جس طرح موجودہ وزیراعلیٰ نے مارکیٹوں اور شادی ہالوں کے اوقات تبدیل کرنے کی بات کی ہے اسی طرح ان کی دوسرے اداروں پر بھی گہری نگاہ ہونی چاہیے۔

وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے دکانوں اور شادی ہالوں کا وقت تبدیل کردیا ہے، دکانیں 7 بجے شام اور شادی ہال کے بند کرنے کا وقت 10 بجے شب مقرر کیا ہے اس کا اطلاق یکم نومبر سے ہوگا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ مارکیٹیں اور میرج ہال بند ہونے سے ایک طرف شاید بجلی کی بچت ہوسکتی ہے تو دوسری طرف اندھیری سڑکوں اور راستوں پر چوری، ڈکیتی اور اغوا کے ہونے کے امکانات واضح طور پر روشن نظر آتے ہیں۔ روشن راستوں اور لوگوں کی آمد و رفت کے باعث ملزمان کو مواقعے کم میسر آتے ہیں، وہ تو اسی تاک میں رہتے ہیں کہ ذرا سناٹا ہو اور وہ اپنا کام کریں۔

وزیراعلیٰ نے صرف اور صرف شادی ہالوں اور دکانوں کو وقت مقررہ پر بند کرنے کے احکامات صادر کیے ہیں۔ مختلف اداروں سے کام کرنے والے نائٹ کالج اور ٹیوشن سینٹروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسٹریٹ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے علاقے تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں، اسی طرح سڑکوں پر اندھیرا پھیل جاتا ہے۔

ٹرانسپورٹ کے مسائل نے بھی مسافروں کو بے شمار مشکلات سے دو چار کیا ہے، بے چارے سفر کرنے والے بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں ان کی جان کو ہر لمحہ خطرہ لاحق رہتا ہے، سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے کئی بار پرانی بسوں کی مرمت کرنے اور انھیں سڑکوں پر لانے کے وعدے اپنے دور حکومت میں کیے تھے لیکن وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہوجائیں۔ سو ایسا ہی ہوا وہ بھولنے کے عادی تھے اپنے آپ میں مگن، سوال کیا پوچھا جاتا، جواب کیا دیتے۔

بہرحال برا وقت گزرگیا اور اب یہ نہیں کسی کو معلوم کہ اچھا وقت آنے والا ہے کہ نہیں؟ یا پھر یہ ایسا بلکہ اس سے زیادہ برا وقت آئے گا۔ بس اسٹاپوں کے قرب وجوار میں دکانیں رات گئے تک کھلی رہتی ہیں، کتابوں کے بک اسٹال پانی کے کھوکے یا پھر مختلف اشیا کی مارکیٹیں چودہویں کے چاند کو ماند کرتی ہیں۔فوڈ اسٹریٹ یا باربی کیو ریستوران، آئسکریم پارلر اور مٹھائی کی دکانیں راستوں کو رونق اور راہ گیروں کو روشنی اور تحفظ بخشتا ہے۔

خواتین بھی بسوں کے انتظار میں دیر تک کھڑی ہونے پر مجبور ہوتی ہیں اور اب یعنی یکم نومبر اور اس کے بعد گہرے سناٹے اور اندھیرے میں اس بس کی امید میں کھڑی رہا کریںگی جس میں جگہ ہی نہیں ہے اس طرح رات بیتتی جائے گی، راستے سنسان ہوتے جائیںگے اور عدم تحفظ کا احساس جاگزیں ہوگا۔ شہر کی رونقیں توکاروباری مراکز کے ہی دم سے ہیں،اگر وقت ہی تبدیل کرنا تھا تو سب کو ساتھ لے کر چلنا ناگزیر ہے۔

گھروں میں رات گئے لوٹنے والے شادی میں کس طرح شرکت کرسکتے ہیں، جب وہ پہنچیں گے اس وقت تک ہال تاریکی میں ڈوبا نظر آئے گا اور مہمان رخصت ہوچکے ہوں گے، ہر شخص اتنی جلدی اپنی بودوباش اورطور طریقے کس طرح بدل سکتا ہے؟ کیا حکمران اپنے آپ کو تبدیل کرسکتے ہیں، سادہ غذا، سادہ لباس اور ایک عام سا گھر جو تعیشات زندگی سے خالی ہو، سواری کے لیے سائیکل بھی میسر نہ ہو؟ ایسی زیست بسر کرلیں گے؟ اسی طرح طلبا و طالبات اشیائے ضروریہ کی خریداری کو ممکن کیسے بنائیں گے۔ جب باہر نکلنے والے شام ڈھلے گھر پہنچیں گے، کھانا کھانے اور آرام کرنے کے بعد شام کے سات بجنے کو آئیں گے اور پہنچتے پہنچتے دکانیں بند ہوچکیں گی۔

اگر اوقات بدلتے ہیں تو معاشرتی نظام کو بھی بدلناہوگا۔ دہشت گردی اور خوف کے خاتمے کے لیے دیانت داری کو اپناکر ہر فرد کے جینے کا حق دینا حکومت وقت کو اپنا اولین فرض سمجھنا ضروری ہے، بوسیدہ، گلے سڑے سماجی ڈھانچے کی جگہ مضبوط و شفاف ڈھانچے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں