ہمیں آپ کا تحفظ عزیز ہے
اگر عوام کو کوئی خوف ہو تو وہ یہ ہونا چاہیے کہ کسی بھی قانون کو توڑنے سے انھیں سزا کا مستحق قرار دیا جا سکتا ہے
جی ٹی روڈ پر اپنی گاڑی کے آگے جاتی ہوئی بائیک کو فاصلے سے دیکھا تو اس کی پچھلی سیٹ پر سوار خاتون نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا، دیکھ کر خوشی ہوئی کہ لوگوں میں کس قدر شعور آ گیا ہے مگر قریب پہنچی تو بائیک چلانے والے صاحب کو بغیر ہیلمٹ کے دیکھ کر حیرت ہوئی۔
اس حیرت کا سامنا زیادہ دیر تک نہ رہا کہ تھوڑا ہی آگے ایک اور بائیک پر پچھلی سواری ہاتھ میں ہیلمٹ تھامے نظر آئی اور جونہی مذکورہ دونوں بائیک قریبی شہری حدود میں داخل ہوئیں، دونوں بائیک چلانے والوں نے اپنے اپنے ساتھی سے لے کر ہیلمٹ پہن لیے، کیوں بھلا؟ کیونکہ وہاں پر پولیس والے ان موٹر سا ئیکلوں کو چیک کر رہے تھے اور بغیر ہیلمٹ والوں کا چالان کیا جا رہا تھا۔ یقینا شہری حدود سے نکل کر وہی ہیلمٹ دوبارہ ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں یا سر پر آ جائیں گے ، شاید موٹر سائیکل چلانے والوں کو شاید گرمی محسوس ہوتی ہے یا بوجھ!!
جہاں پر چیکنگ ہو رہی تھی، وہاں ذرا سے فاصلے سے دیکھنے سے بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ پولیس والوں کے چہرے اور انداز کس قدر سختی لیے ہوئے تھا ، ان لوگوں کے لیے جن کے سروں پر ہیلمٹ نہ تھے اور وہ ''رنگے ہاتھوں'' پکڑے گئے تھے۔ ہیلمٹ کی پابندی لوگوں کو بوجھ لگتی ہے اس لیے وہ سستے ترین ہیلمٹ خرید لیتے ہیں مگر اپنے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ صرف انھی مواقع کے لیے کہ جب وہ پولیس والوں کو دور سے دیکھیں تو فورا انھیں سروں پر سجا لیں اور چیکنگ کے مرحلے سے سرخرو ہو جائیں۔
بڑے شہروں میں ہیلمٹ پہننے کا رجحان اس لیے ہے کہ وہاں پر چیکنگ زیادہ ہوتی ہے جب کہ چھوٹے شہروں میں لوگ اسے پہننے سے گریزکرتے ہیں، اس کا اہم سبب یہ ہے کہ انھیں اس کی اہمیت کی بابت علم ہی نہیں۔ عوام کا سامنا اپنی روز مرہ زندگی میں جن قوانین سے پڑتا ہے ان کا تعلق اگرچہ ان کے مفاد سے ہے، ان کے تحفظ اور ان کی سلامتی سے، مگر چونکہ ان قوانین کا اطلاق کرنے والوں کا انداز کرخت ہے اس لیے لوگوں کو یہ قوانین سخت لگتے ہیں۔
اگرآپ کسی ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں پر داخلہ چیکنگ کے بغیر نہیں ہو سکتا، عموماً وہاں کے مکینوں کی گاڑیوں پر داخلے کے لیے سٹکر لگے ہوتے ہیں مگر جو لوگ وہاں بطور مہمان جاتے ہیں یا جن مکینوں کی گاڑیوں پر ابھی سٹکر نہیں لگے ہوئے، گیٹ پر موجود ایک باوردی گارڈ اگر آپ کو روکتا ہے، اسے حق حاصل ہے کہ وہ کسی سٹکر والی گاڑی کو بھی روک کر کسی وقت چیک کر سکتا ہے، اس کا مطالبہ ہو گا کہ آپ رکیں، گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی وہ آپ کی شناخت پوچھتا ہے اور آپ کو جانے کا اشارہ دے دیتا ہے، کبھی وہ آپ سے آپ کا شناختی کارڈ بھی مانگ سکتا ہے جو کہ وہ چیک کر کے واپس کر دیتا ہے، مگر ہوتا کیا ہے کہ اتنی سی چیکنگ سے ہمارا پارہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے، نوجوان،'' تم جانتے نہیں مجھے...'' اور کچھ حضرات، '' یار کیوں وقت ضایع کر رہے ہو میرا؟ '' جیسے فقرے ناراضی سے کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ چیکنگ مفاد عامہ کے لیے ہوتی ہے، آپ کے تحفظ کے لیے۔
چند سال پہلے، امریکا میں ڈزنی ورلڈ سے واپسی پر صاحب گاڑی کو حد رفتار سے زائد پر چلاتے ہوئے'' پکڑے'' گئے۔ ہماری گاڑی کو ایک پولیس کی گاڑی نے اوور ٹیک کیا، آگے جا کر رفتار آہستہ کی اور ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔ دونوں گاڑیاں رک گئیں، ایک باوردی اپنی گاڑی سے اتر کر آیا، سلام دعا کے بعد پوچھا کہ ہم موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ نہیں، ہمارے حلیوں سے اسے اندازہ ہوا اور اس نے سوال کیا کہ ہمارا تعلق کہاں سے تھا، پھر اس نے پاکستان کے بارے میں دو ایک سوال کیے، مسکرا کر کہا، ''سر آپ مقررہ رفتار سے اتنی زیادہ رفتار پر، فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک گاڑی چلا رہے تھے...'' صاحب نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے بتایا کہ اس کا اتنا جرمانہ ہے جو کہ ہم اگلے چھ ہفتوں کے دوران کہیں بھی ادا کر سکتے ہیں، اس کی رسید فلاں جگہ پر پوسٹ کردیں ، اس نے ہمیں '' گڈ لک'' بھی کہا اور روانہ ہوا۔
ہمارے ہاں ایسی بات سنیں تو لگتا ہے نا ایک ناممکن سا کام ، پولیس والے اور مسکرا کر بات کریں! شاید یہ بات پولیس والوں کی تربیت کا حصہ ہے کہ وہ اپنے چہرے پر کرختگی کا تاثر رکھیں ، بات کریں تو با رعب انداز میں اور سختی کے ساتھ۔ محکمہ پولیس یا باقی وردیوں والے محکموں کی بدنامی میں بہت سا دخل ان کے رویے اور انداز گفتگو کا ہے، وہ عوام پر اپنے انداز اور لہجے کی ایک ایسی دھاک بٹھا دیتے ہیں کہ ان سے خیر کی توقع کوئی نہیں کرتا، جہاں پولیس والا آپ کو ہاتھ کے اشارے سے روکتا ہے، دل کی دھڑکنیں غیر معتدل ہوجاتی ہیں آپ کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے، '' اب آئی سختی!!''
اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص پولیس یا اسی نوعیت کے کسی محکمے میں افسر یا سپاہی ہے اور انتہائی نرم مزاج اور خوش اخلاق ہے تو اسے شاید سننے والے لطیفہ سمجھیں، یہ بھی جانتی ہوں کہ پولیس والوں کو یہ پڑھ کر دکھ ہو گا مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس میں ایسی ریفارمز کی جائیں اور ان کی تربیت ان خطوط پر کی جائے کہ وہ لوگوں میں خوف و ہراس کی بجائے یہ شعور پیدا کریں کہ ملک کا ہر قانون اس لیے ہے کہ اس سے عوام کو تحفظ ملے، بالخصوص ٹریفک کے قوانین ان کی جان کی حفاظت کی خاطر وضع کیے جاتے ہیں، ان پر عمل درآمد کرنے سے انھی کا فائدہ ہے۔ پولیس والے انھیں ڈرانے ،دھمکانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں اور انھیں قوانین پر عمل درآمد کرنے کے لیے پابند کریں۔
گھر کے اندر اور اپنے گھر سے باہر نکل کر جو احتیاطی تدابیر ایک عام آدمی کے لیے لازم ہیں، ان میں اپنے گھروں میں کرایہ دار رکھتے وقت ان کے کوائف کی جانچ پڑتال کرنا اور اپنے گھروںمیں کام کے لیے آنے والے ملازمین کے کوائف کی تصدیق کرنا اور ان کے کوائف کو قریبی تھانے میں جمع کروانا بھی شامل ہیں، ہم میں سے کتنے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں؟
نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ ہمارے کرایہ دار دہشت گرد نکل آتے ہیں یا ملازمین کوئی نہ کوئی واردات کر کے غائب ہو جاتے ہیں، سانپ نکل جائے تو لکیر کو پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ گھروں سے سڑک پر نکلتے ہیں تو بہت سی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اپنے پاس اپنی گاڑی کے کاغذات اور لائسنس کا رکھنا، گاڑی کو حد رفتار اور اپنی لین میں چلانا،بائیک والوں کے لیے ہیلمٹ کی پابندی اور ون ویلنگ سے اجتناب کرنا، یہ قوانین اور اصول اس لیے وضع کیے جاتے ہیں کہ ان سے عوام کو سہولت ہو، ان کی زندگیاں آسان ہوں۔
اگر عوام کو کوئی خوف ہو تو وہ یہ ہونا چاہیے کہ کسی بھی قانون کو توڑنے سے انھیں سزا کا مستحق قرار دیا جا سکتا ہے، خوف سزا کا ہونا چاہیے نہ کہ وردی والوں کا، وہ ہم ہی میں سے ہیں اور ہمارے بھلے کے لیے کام کرتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوکہ اگر وردی والے اپنے فرائض ذرا مسکرا کر ادا کریں، مسکرا کر ادا کیے جانے والا فرض بھی نیکی کے زمرے میں آتا ہے!!! کاش ہمارے پولیس والے، ہیلمٹ نہ پہننے والوں کو جب روک کر جرمانہ کرتے ہیں تو انھیں لعن و طعن کرنے کی بجائے یہ سمجھائیں کہ اس کی اہمیت کیا ہے، اس کی ضرورت کیوں ہوتی ہے اور یہ کہ اسے نہ پہننے سے ان کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے اور کیا حرج ہے اگر پولیس والے مسکرا کر کہہ دیں، ''جناب آپ ہیلمٹ لازمی پہنا کریں، یہ آپ کے تحفظ کے لیے ہے، اس کے بغیر آپ کی زندگی کو حادثے کی صورت میں انتہائی خطرہ ہے اور ہمیں آپ کا تحفظ عزیز ہے! '' یہ بھی ممکن ہے کہ اس عبارت کے سائن پوسٹ سڑکوں کے کناروں پر آویزاں ہوں یا جب کوئی پولیس والا ہمیں روکے، ہمیں سلام کرے اور ہم جواب دیتے سمے اس کی طرف دیکھیں تو ہمیں اس کی وردی پر ایک چھوٹا سا بیج نظر آئے جس پر لکھا ہو، '' ہمیں آپ کا تحفظ عزیز ہے! ''
اس حیرت کا سامنا زیادہ دیر تک نہ رہا کہ تھوڑا ہی آگے ایک اور بائیک پر پچھلی سواری ہاتھ میں ہیلمٹ تھامے نظر آئی اور جونہی مذکورہ دونوں بائیک قریبی شہری حدود میں داخل ہوئیں، دونوں بائیک چلانے والوں نے اپنے اپنے ساتھی سے لے کر ہیلمٹ پہن لیے، کیوں بھلا؟ کیونکہ وہاں پر پولیس والے ان موٹر سا ئیکلوں کو چیک کر رہے تھے اور بغیر ہیلمٹ والوں کا چالان کیا جا رہا تھا۔ یقینا شہری حدود سے نکل کر وہی ہیلمٹ دوبارہ ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں یا سر پر آ جائیں گے ، شاید موٹر سائیکل چلانے والوں کو شاید گرمی محسوس ہوتی ہے یا بوجھ!!
جہاں پر چیکنگ ہو رہی تھی، وہاں ذرا سے فاصلے سے دیکھنے سے بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ پولیس والوں کے چہرے اور انداز کس قدر سختی لیے ہوئے تھا ، ان لوگوں کے لیے جن کے سروں پر ہیلمٹ نہ تھے اور وہ ''رنگے ہاتھوں'' پکڑے گئے تھے۔ ہیلمٹ کی پابندی لوگوں کو بوجھ لگتی ہے اس لیے وہ سستے ترین ہیلمٹ خرید لیتے ہیں مگر اپنے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ صرف انھی مواقع کے لیے کہ جب وہ پولیس والوں کو دور سے دیکھیں تو فورا انھیں سروں پر سجا لیں اور چیکنگ کے مرحلے سے سرخرو ہو جائیں۔
بڑے شہروں میں ہیلمٹ پہننے کا رجحان اس لیے ہے کہ وہاں پر چیکنگ زیادہ ہوتی ہے جب کہ چھوٹے شہروں میں لوگ اسے پہننے سے گریزکرتے ہیں، اس کا اہم سبب یہ ہے کہ انھیں اس کی اہمیت کی بابت علم ہی نہیں۔ عوام کا سامنا اپنی روز مرہ زندگی میں جن قوانین سے پڑتا ہے ان کا تعلق اگرچہ ان کے مفاد سے ہے، ان کے تحفظ اور ان کی سلامتی سے، مگر چونکہ ان قوانین کا اطلاق کرنے والوں کا انداز کرخت ہے اس لیے لوگوں کو یہ قوانین سخت لگتے ہیں۔
اگرآپ کسی ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں پر داخلہ چیکنگ کے بغیر نہیں ہو سکتا، عموماً وہاں کے مکینوں کی گاڑیوں پر داخلے کے لیے سٹکر لگے ہوتے ہیں مگر جو لوگ وہاں بطور مہمان جاتے ہیں یا جن مکینوں کی گاڑیوں پر ابھی سٹکر نہیں لگے ہوئے، گیٹ پر موجود ایک باوردی گارڈ اگر آپ کو روکتا ہے، اسے حق حاصل ہے کہ وہ کسی سٹکر والی گاڑی کو بھی روک کر کسی وقت چیک کر سکتا ہے، اس کا مطالبہ ہو گا کہ آپ رکیں، گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی وہ آپ کی شناخت پوچھتا ہے اور آپ کو جانے کا اشارہ دے دیتا ہے، کبھی وہ آپ سے آپ کا شناختی کارڈ بھی مانگ سکتا ہے جو کہ وہ چیک کر کے واپس کر دیتا ہے، مگر ہوتا کیا ہے کہ اتنی سی چیکنگ سے ہمارا پارہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے، نوجوان،'' تم جانتے نہیں مجھے...'' اور کچھ حضرات، '' یار کیوں وقت ضایع کر رہے ہو میرا؟ '' جیسے فقرے ناراضی سے کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ چیکنگ مفاد عامہ کے لیے ہوتی ہے، آپ کے تحفظ کے لیے۔
چند سال پہلے، امریکا میں ڈزنی ورلڈ سے واپسی پر صاحب گاڑی کو حد رفتار سے زائد پر چلاتے ہوئے'' پکڑے'' گئے۔ ہماری گاڑی کو ایک پولیس کی گاڑی نے اوور ٹیک کیا، آگے جا کر رفتار آہستہ کی اور ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔ دونوں گاڑیاں رک گئیں، ایک باوردی اپنی گاڑی سے اتر کر آیا، سلام دعا کے بعد پوچھا کہ ہم موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ نہیں، ہمارے حلیوں سے اسے اندازہ ہوا اور اس نے سوال کیا کہ ہمارا تعلق کہاں سے تھا، پھر اس نے پاکستان کے بارے میں دو ایک سوال کیے، مسکرا کر کہا، ''سر آپ مقررہ رفتار سے اتنی زیادہ رفتار پر، فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک گاڑی چلا رہے تھے...'' صاحب نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے بتایا کہ اس کا اتنا جرمانہ ہے جو کہ ہم اگلے چھ ہفتوں کے دوران کہیں بھی ادا کر سکتے ہیں، اس کی رسید فلاں جگہ پر پوسٹ کردیں ، اس نے ہمیں '' گڈ لک'' بھی کہا اور روانہ ہوا۔
ہمارے ہاں ایسی بات سنیں تو لگتا ہے نا ایک ناممکن سا کام ، پولیس والے اور مسکرا کر بات کریں! شاید یہ بات پولیس والوں کی تربیت کا حصہ ہے کہ وہ اپنے چہرے پر کرختگی کا تاثر رکھیں ، بات کریں تو با رعب انداز میں اور سختی کے ساتھ۔ محکمہ پولیس یا باقی وردیوں والے محکموں کی بدنامی میں بہت سا دخل ان کے رویے اور انداز گفتگو کا ہے، وہ عوام پر اپنے انداز اور لہجے کی ایک ایسی دھاک بٹھا دیتے ہیں کہ ان سے خیر کی توقع کوئی نہیں کرتا، جہاں پولیس والا آپ کو ہاتھ کے اشارے سے روکتا ہے، دل کی دھڑکنیں غیر معتدل ہوجاتی ہیں آپ کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے، '' اب آئی سختی!!''
اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص پولیس یا اسی نوعیت کے کسی محکمے میں افسر یا سپاہی ہے اور انتہائی نرم مزاج اور خوش اخلاق ہے تو اسے شاید سننے والے لطیفہ سمجھیں، یہ بھی جانتی ہوں کہ پولیس والوں کو یہ پڑھ کر دکھ ہو گا مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس میں ایسی ریفارمز کی جائیں اور ان کی تربیت ان خطوط پر کی جائے کہ وہ لوگوں میں خوف و ہراس کی بجائے یہ شعور پیدا کریں کہ ملک کا ہر قانون اس لیے ہے کہ اس سے عوام کو تحفظ ملے، بالخصوص ٹریفک کے قوانین ان کی جان کی حفاظت کی خاطر وضع کیے جاتے ہیں، ان پر عمل درآمد کرنے سے انھی کا فائدہ ہے۔ پولیس والے انھیں ڈرانے ،دھمکانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں اور انھیں قوانین پر عمل درآمد کرنے کے لیے پابند کریں۔
گھر کے اندر اور اپنے گھر سے باہر نکل کر جو احتیاطی تدابیر ایک عام آدمی کے لیے لازم ہیں، ان میں اپنے گھروں میں کرایہ دار رکھتے وقت ان کے کوائف کی جانچ پڑتال کرنا اور اپنے گھروںمیں کام کے لیے آنے والے ملازمین کے کوائف کی تصدیق کرنا اور ان کے کوائف کو قریبی تھانے میں جمع کروانا بھی شامل ہیں، ہم میں سے کتنے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں؟
نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ ہمارے کرایہ دار دہشت گرد نکل آتے ہیں یا ملازمین کوئی نہ کوئی واردات کر کے غائب ہو جاتے ہیں، سانپ نکل جائے تو لکیر کو پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ گھروں سے سڑک پر نکلتے ہیں تو بہت سی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اپنے پاس اپنی گاڑی کے کاغذات اور لائسنس کا رکھنا، گاڑی کو حد رفتار اور اپنی لین میں چلانا،بائیک والوں کے لیے ہیلمٹ کی پابندی اور ون ویلنگ سے اجتناب کرنا، یہ قوانین اور اصول اس لیے وضع کیے جاتے ہیں کہ ان سے عوام کو سہولت ہو، ان کی زندگیاں آسان ہوں۔
اگر عوام کو کوئی خوف ہو تو وہ یہ ہونا چاہیے کہ کسی بھی قانون کو توڑنے سے انھیں سزا کا مستحق قرار دیا جا سکتا ہے، خوف سزا کا ہونا چاہیے نہ کہ وردی والوں کا، وہ ہم ہی میں سے ہیں اور ہمارے بھلے کے لیے کام کرتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوکہ اگر وردی والے اپنے فرائض ذرا مسکرا کر ادا کریں، مسکرا کر ادا کیے جانے والا فرض بھی نیکی کے زمرے میں آتا ہے!!! کاش ہمارے پولیس والے، ہیلمٹ نہ پہننے والوں کو جب روک کر جرمانہ کرتے ہیں تو انھیں لعن و طعن کرنے کی بجائے یہ سمجھائیں کہ اس کی اہمیت کیا ہے، اس کی ضرورت کیوں ہوتی ہے اور یہ کہ اسے نہ پہننے سے ان کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے اور کیا حرج ہے اگر پولیس والے مسکرا کر کہہ دیں، ''جناب آپ ہیلمٹ لازمی پہنا کریں، یہ آپ کے تحفظ کے لیے ہے، اس کے بغیر آپ کی زندگی کو حادثے کی صورت میں انتہائی خطرہ ہے اور ہمیں آپ کا تحفظ عزیز ہے! '' یہ بھی ممکن ہے کہ اس عبارت کے سائن پوسٹ سڑکوں کے کناروں پر آویزاں ہوں یا جب کوئی پولیس والا ہمیں روکے، ہمیں سلام کرے اور ہم جواب دیتے سمے اس کی طرف دیکھیں تو ہمیں اس کی وردی پر ایک چھوٹا سا بیج نظر آئے جس پر لکھا ہو، '' ہمیں آپ کا تحفظ عزیز ہے! ''