سعودی عرب اور مصرکی راہیں جدا
اخوان المسلمون حکومت کے خلاف جنرل سیسی کی حمایت کرنے والے سعودی حکمرانوں نے مصر کا تیل کیوں بند کیا؟
HYDERABAD:
گزشتہ چند برسوں سے عرب دنیا تذویراتی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ یہاں ایسا بہت کچھ ہورہاہے جس کے ہونے کی توقع کم ازکم چند برس پہلے تک نہ تھی۔ تیونس، مصر، لیبیا میں طویل عرصہ سے قائم آمریتوں کے خاتمے کے بعد شام میں حکمران اسد خاندان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہاہے۔
تیونس عرب انقلابی بہار کاشکار ہوا، وہاں انقلابی کسی نہ کسی اندازمیں حکومت کررہے ہیں۔ مصر میں انقلاب آیا اور پھر رول بیک کردیاگیا، لیبیا میں انقلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے گزر رہاہے۔ شام میں اسد خاندان کو باقی رکھنے یا نہ رکھنے کے سوال پرمختلف ممالک اپنی روایتی پوزیشن تبدیل کرچکے ہیں، اس کا حالیہ مظاہرہ سعودی عرب اور مصر جیسے دیرینہ حلیفوں کے درمیان شدید اختلاف کی صورت میں ہوا۔ اس کی فوری وجہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مصر کا روسیقرارداد کی حمایت کرناہے جبکہ سعودی عرب اس قرارداد کا مخالف تھا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیزکی حکومت فرانسیسی قراردادکی حمایت کررہی ہے جس میں روس سے مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ حلب(شام) میں بمباری روکے۔ سعودی عرب نے مصری فیصلے کو تکلیف دہ عمل قراردیا۔
شام کے مسئلے پر دونوں ممالک کا اپنی راہیں جدا کرنا عالمی منظر نامے میں ایک بڑا واقعہ ہے۔ نتیجتاً سعودی عرب کی تیل کمپنی آرامکو نے اس ماہ کے لیے مصر کو سات لاکھ ٹن پیٹرولیم مصنوعات کی برآمدات روکنے کا اعلان کردیا تھا۔ آرامکو کے اس فیصلے کے بعد مصر کو اپنی پیٹرولیم مصنوعات کو پورا کرنے کے لیے عجلت میں ٹینڈرز جاری کرنا پڑے ہیں۔
مصری وزارت خارجہ کا کہناہے کہ آرامکو کی طرف سے مصر کو تیل مصنوعات کی فراہمی روکنے کے اسباب تکنیکی ہیںیا کاروباری ہیں یاپھر کچھ اور، وہ نہیں جانتے۔ دونوں ملکوں میں جھگڑا ایک ایسے نازک موقع پر ہوا ہے جب وہ آئی ایم ایف کے ساتھ 12 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدے کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مصر کے معاہدے کے یہ شرائط بھی شامل ہیں کہ وہ اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرے گا اور ایندھن پر سبسڈیز بھی کم کرے گا۔ مصر کو اصلاحات کرنے کے لئے قرض کی مد میں الگ سے 5سے6 ارب ڈالر کی بھی ضرورت ہے اور یہ پیسہ اسے تیل سے مالا مال خلیجی اتحادیوں سے ہی ملنے کی توقع ہے۔
مصری جنرل عبدالفتاح السیسی کی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اول روز سے گہرے تھے۔ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدر ڈاکٹرمحمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد جنرل السیسی کو سعودی عرب نے5بلین ڈالر امداد دی تھی، عام تاثر یہ تھا کہ سعودی عرب مصری فوجی حکومت کا سب سے بڑا حامی ہے۔ حال ہی میں سعودی ٹی وی چینل 'العریبیہ' نے بھی اعتراف کیاہے کہ '' سعودی عرب نے ملک کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی برطرفی کی حمایت کی تھی۔ اس کے بعد سے وہ صدر السیسی کی بھرپور حمایت کرتا چلا آ رہا ہے۔ سعودی عرب نے مصرکو اربوں ڈالرز نقد رقوم اور مفت یا ارزاں نرخوں پر تیل کی برآمدات کی مد میں بھرپور امداد دی ہے''۔
تمام ماہرین مانتے ہیں کہسعودی عرب نے اخوان المسلمون کے خلاف جنرل السیسی کے خونیں کریک ڈاؤن کی حمایت کی تھی اور سفارتی سطح پر ایسی کوششیں کیںکہ دنیا میں کوئی ملک مصری فوجی حکومت پر دباؤ نہ ڈالے۔ اس وقت کے سعودی حکمران شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے اخوان المسلمون کے خلاف بیانات بھی دئیے تھے۔ یونیورسٹی آف اٹلانٹا سے وابستہ عربی کے لیکچرار امانٹا ای راجرز کو یقین ہے کہ سعودی بادشاہت کو ایسی جمہوریت قبول نہیں جس میں کوئی اسلامی تحریک برسراقتدار آئے۔ کہاجاتاہے کہ مصری انقلاب کو روکنے میں ناکامی کے بعد سعودی عرب نے انقلاب کو رول بیک کرنے کا منصوبہ تیارکرنے اور اس پر عمل درآمد میں مصری جرنیلوں کی مکمل حمایت کی تھی۔
اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل السیسی پر مغربی ممالک دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ جمہوریت بحال کریں، ایسے میں سعودی عرب نے ایسے ممالک کو واضح پیغام دیا کہ وہ مصر کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ شاہ عبداللہ نے کہاتھا:'' سعودی بادشاہت مصر کے ساتھ کھڑی ہے اور ان تمام قوتوں کے خلاف ہے جو مصر کے داخلی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں''۔
اس خطاب کے ایک گھنٹہ بعد اس وقت کے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے پیرس کی طرف اڑان بھری اور اس وقت کے فرانسیسی صدر فرانکوئس ہالینڈ سے ملاقات کی، نتیجتاً میزبان صدر نے مصری جرنیلوں کے ''روڈ میپ'' کی حمایت کا اعلان کردیا۔ یادر ہے کہ اس وقت باقی یورپی حکمران فوجی بغاوت کی مذمت کررہے تھے اور مصر میں ہونے والے خون خرابے کا ذمہ دار فوجی جرنیلوں کو قرار دے رہے تھے۔اس کے ردعمل میں شہزادہ سعود الفیصل نے ایک بیان میں کہاتھا کہ انھیں(یورپی ممالک کی طرف سے) مصر سے تعاون روکنے اور مصری جرنیل حکومت کے خلاف دھمکی آمیز بیانات جاری کرنے پر تشویش ہے۔
انھوں نے امریکہ اور دوسرے اتحادیوں سے شکوہ کیا کہ انھوں نے مصری قوم کے سڑکوں پر آنے کے بعد صدر حسنی مبارک کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیاتھا۔اس وقت کی سعودی حکومت نے مصری جرنیلوں کو اُس سب کچھ کی کھلی چھٹی دیدی تھی جو وہ اپنے ملک میں کررہے تھے اور ان کے لئے سعودی ریالوں سے بھری بوریوں کے منہ کھول دئیے تھے۔ مصری جرنیلوں کی حمایت سعودی عرب اکیلے ہی نہیں کررہاتھا بلکہ اس مہم میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات بھی شامل تھے۔یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ سعودی عرب ہمیشہ پس پردہ رہ کر 'چیک بک ڈپلومیسی' سے کام لیتا ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سعودی حکمران خطے میں مختلف مقاصد کے لئے ریال فراہم کرتیہیں تاہم اس کام کے بھی کچھ معیار ہیں۔ البتہ مصر کے معاملہ میں سعودی عرب نے اپنے معیارات کو تبدیل کردیا۔ مثلاً جنرل السیسی کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے ایک ہفتہ کے اندر سعودی عرب نے مصر کے لئے 12بلین ڈالرز کے ریسکیو پیکیج کا اعلان کردیا، اس کا ڈرافٹ براہ راست فوجی جرنیلوں کو تھمایاگیا۔ اس میں متحدہ عرب امارات نے3بلین ڈالرز جبکہ کویت نے 4بلین ڈالرز کا حصہ ڈالا تھا۔اُس وقت مصری جرنیلوں کی بغاوت کے معاملے پر خلیجی خطے میں ایک تقسیم پیدا ہوگئی تھی۔
قطر اور ترکی اخوان المسلمون کی حکومت کے حق میں تھے۔سعودی عرب نیمارچ 2015ء میں مزید 4 بلین ڈالر دئیے گئے۔دونوں ممالک کے مابین اچھے تعلقات سال رواں کے آغاز تک کسی نہ کسی اندازمیں چلتے رہے۔ امسال اپریل میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے دورہ مصر کے دوران میں 36معاہدوں پر دستخط کئے جن کے تحت سعودی عرب نے مصر میں 25بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا تھی۔ شاہ سلمان کے دورہ سے کئی روز قبل 'مصری پٹرولیم کواپریشن' نے دنیا کی سب سے بڑی سعودی کمپنی آرامکو کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس میں سعودی کمپنی نے 23بلین ڈالر کے عوض اگلے پانچ برس تک پٹرولیم کی ضروریات پوری کرنے کا عہد کیاتھا۔
مصر میں ڈاکٹرمحمد مرسی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سعودی عرب کا خیال تھا کہ اخوان المسلمون کی حکمرانی اس کے لئے خطرناک ثابت ہوگی اور جنرل السیسی کی قیادت میں مضبوط مصر ایران اور اس کی حامی ملیشیاؤں کا مقابلہ کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔کم ازکم گزشتہ برس تک جنرل السیسی سعودی عرب کو یقین دلاتے رہے کہ وہ خلیجی ریاستوں کی سلامتی کو اپنی خارجہ پالیسی میں ''سرخ لکیر'' کا درجہ دیتے ہیں۔تاہم جب یمن میں حوثیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سعودی عرب نے مصری فوج بھیجنے کا مطالبہ کیا تو جنرل السیسی نے فوج نہ بھیجی۔ اسی طرح سعودی عرب نے شام کے معاملے میں بھی مصر سے عسکری تعاون کا مطالبہ کیا، جنرل السیسی نے یہ بات بھی نہ مانی۔ اپریل 2016ء میں جب شاہ سلمان مصر پہنچے تو جنرل السیسی نے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے اور سعودی عرب کو راضی کرنے کے لئے بحراحمر میں دو جزیرے سعودی عرب کو دینے کا اعلان کردیا۔
جنرل السیسی اپنے مخصوص اندازمیں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا چاہتے تھے تاہم سلامتی کونسل میں روسی قرارداد نے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کو نمایاں کردیا۔ سعودی عرب سمجھتاہے کہ شام کے مستقبل میں بشارالاسد کی موجودگی سے خطے میں ایران کو تقویت ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ سلمان حکومت کسی بھی صورت میں بشارالاسد کو نکال باہر کرناچاہتی ہے۔ تاہم گزشتہ ماہ مصری وزیرخارجہ سامح شکری نے ایرانی وزیرخارجہ سے ملاقات کے بعد بیان جاری کیاتھا کہ شام میں لڑائی کا مقصد بشارالاسد حکومت کا خاتمہ ہے لیکن مصر ایسا نہیں چاہتا۔
سعودی عرب کی طرف سے مصر کو تیل کی فراہمی بند کرنے کے بعد جنرل سیسی کے قریب سمجھے جانے والامصری میڈیا سعودی عرب پر خوب برس رہاہے۔ایک مصری ٹی وی اینکر نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ عمرے کے لئے مکہ مدینہ جانا چھوڑ دیں تاکہ سعودی عرب آمدنی سے محروم ہوجائے ۔ایک تجزیہ کار احمد موسیٰ نے کہا کہ کوئی آٹا، پٹرول، گیس یا اسلحہ حتیٰ کہ ڈالر کی بنیاد پر مصر پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔
مصر کے پاس آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔کوئی ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ہمیں کسی سے کوئی بھی امداد نہیں چاہئے۔ اگر کوئی ملک ہماری امداد روکنا چاہتاہے تو وہ اپنی مرضی پورے کرلے۔ ہمیں امداد دینے والے بہت ہیں۔ اگر مصر نہیں تو آپ بھی نہیں۔ مصر کی بقا ہی عرب دنیا کی بقا ہے''۔ ایک دوسرے تجزیہ کار ابراہیم عیسیٰ نے کہا کہ آپ لیبیا، یمن، عراق اور شام میں جوکچھ دیکھ رہے ہیں، وہ وہابیوں( سعودی عرب) کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ عرب ممالک میں جو کچھ بھی ہورہاہے، اس کے ذمہ دار یہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اور مصر کے مابین ناراضی عارضی ہے یا اس کا سلسلہ آگے بھی بڑھے گا؟ اگرچہگزشتہ ہفتے جنرل السیسی نے یہ کہہ کر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی کہ سعودی عرب نے صدرمرسی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک مصر کی بہت زیادہ امداد کی، اس پر اس کا شکریہ، انھوں نے یہ بھی کہا کہ روسی قرارداد پر دونوں ممالک کا اختلاف ہمارے باہمی تعلقات خراب نہیں کرسکتا۔ انھوں نے آرامکو کی طرف سے مصر کو تیل کی فراہمی بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم گزشتہ دنوں جنرل السیسی نے مصری فوج کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے'' مصر نے عرب قوم کی سلامتی کے لئے ایک آزادانہ پالیسی اختیار کی ہے۔ شام کے مسئلہ پر ہمارا موقف طے شدہ ہے، یہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔ مصر خدا کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتا''۔
گزشتہ چند ماہ سے مصر نے روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا شروع کردئیے تھے۔ ستمبر میں دونوں ملکوں کے درمیان 3.5بلین ڈالر مالیت اسلحہ کا معاہدہ ہوا۔ اسی طرح ایک دوسرے معاہدے کے مطابق مصر روس سے 25بلین ڈالر کا قرضہ بھی لے گا جس سے نیوکلیر پاور پلانٹ قائم کیاجائے۔ ماہ رواں میں دونوں ملک مشترکہ فوجی مشقیں بھی کررہے ہیں جبکہ مصر میزبان ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ مصر چند مہینوں قبل ہی سے سعودی عرب سے الگ راہ اختیار کرنے کی تیاری کررہاتھا۔
مصر کا سعودی عرب سے الگ ہونا اور روس، ایران اتحاد کا حصہ بننا ایک بڑا فیصلہ ہے۔ اس کے اثرات بھی اسی قدر گہرے ہوں گے۔ ترکی جیسے ایک مضبوط معاشی ملک کے ساتھ مصر کے تعلقات پہلے ہی سے منقطع ہیں، اب سعودی عرب سے علیحدگی کا فیصلہ اسے عرب دنیا میں شدید تنہائی کا شکار کردے گا۔ ایسے میں مصر کا زیادہ دیر تک اپنی موجودہ روش کو برقرار رکھنا خود اس کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔
گزشتہ چند برسوں سے عرب دنیا تذویراتی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ یہاں ایسا بہت کچھ ہورہاہے جس کے ہونے کی توقع کم ازکم چند برس پہلے تک نہ تھی۔ تیونس، مصر، لیبیا میں طویل عرصہ سے قائم آمریتوں کے خاتمے کے بعد شام میں حکمران اسد خاندان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہاہے۔
تیونس عرب انقلابی بہار کاشکار ہوا، وہاں انقلابی کسی نہ کسی اندازمیں حکومت کررہے ہیں۔ مصر میں انقلاب آیا اور پھر رول بیک کردیاگیا، لیبیا میں انقلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے گزر رہاہے۔ شام میں اسد خاندان کو باقی رکھنے یا نہ رکھنے کے سوال پرمختلف ممالک اپنی روایتی پوزیشن تبدیل کرچکے ہیں، اس کا حالیہ مظاہرہ سعودی عرب اور مصر جیسے دیرینہ حلیفوں کے درمیان شدید اختلاف کی صورت میں ہوا۔ اس کی فوری وجہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مصر کا روسیقرارداد کی حمایت کرناہے جبکہ سعودی عرب اس قرارداد کا مخالف تھا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیزکی حکومت فرانسیسی قراردادکی حمایت کررہی ہے جس میں روس سے مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ حلب(شام) میں بمباری روکے۔ سعودی عرب نے مصری فیصلے کو تکلیف دہ عمل قراردیا۔
شام کے مسئلے پر دونوں ممالک کا اپنی راہیں جدا کرنا عالمی منظر نامے میں ایک بڑا واقعہ ہے۔ نتیجتاً سعودی عرب کی تیل کمپنی آرامکو نے اس ماہ کے لیے مصر کو سات لاکھ ٹن پیٹرولیم مصنوعات کی برآمدات روکنے کا اعلان کردیا تھا۔ آرامکو کے اس فیصلے کے بعد مصر کو اپنی پیٹرولیم مصنوعات کو پورا کرنے کے لیے عجلت میں ٹینڈرز جاری کرنا پڑے ہیں۔
مصری وزارت خارجہ کا کہناہے کہ آرامکو کی طرف سے مصر کو تیل مصنوعات کی فراہمی روکنے کے اسباب تکنیکی ہیںیا کاروباری ہیں یاپھر کچھ اور، وہ نہیں جانتے۔ دونوں ملکوں میں جھگڑا ایک ایسے نازک موقع پر ہوا ہے جب وہ آئی ایم ایف کے ساتھ 12 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدے کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مصر کے معاہدے کے یہ شرائط بھی شامل ہیں کہ وہ اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرے گا اور ایندھن پر سبسڈیز بھی کم کرے گا۔ مصر کو اصلاحات کرنے کے لئے قرض کی مد میں الگ سے 5سے6 ارب ڈالر کی بھی ضرورت ہے اور یہ پیسہ اسے تیل سے مالا مال خلیجی اتحادیوں سے ہی ملنے کی توقع ہے۔
مصری جنرل عبدالفتاح السیسی کی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اول روز سے گہرے تھے۔ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدر ڈاکٹرمحمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد جنرل السیسی کو سعودی عرب نے5بلین ڈالر امداد دی تھی، عام تاثر یہ تھا کہ سعودی عرب مصری فوجی حکومت کا سب سے بڑا حامی ہے۔ حال ہی میں سعودی ٹی وی چینل 'العریبیہ' نے بھی اعتراف کیاہے کہ '' سعودی عرب نے ملک کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی برطرفی کی حمایت کی تھی۔ اس کے بعد سے وہ صدر السیسی کی بھرپور حمایت کرتا چلا آ رہا ہے۔ سعودی عرب نے مصرکو اربوں ڈالرز نقد رقوم اور مفت یا ارزاں نرخوں پر تیل کی برآمدات کی مد میں بھرپور امداد دی ہے''۔
تمام ماہرین مانتے ہیں کہسعودی عرب نے اخوان المسلمون کے خلاف جنرل السیسی کے خونیں کریک ڈاؤن کی حمایت کی تھی اور سفارتی سطح پر ایسی کوششیں کیںکہ دنیا میں کوئی ملک مصری فوجی حکومت پر دباؤ نہ ڈالے۔ اس وقت کے سعودی حکمران شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے اخوان المسلمون کے خلاف بیانات بھی دئیے تھے۔ یونیورسٹی آف اٹلانٹا سے وابستہ عربی کے لیکچرار امانٹا ای راجرز کو یقین ہے کہ سعودی بادشاہت کو ایسی جمہوریت قبول نہیں جس میں کوئی اسلامی تحریک برسراقتدار آئے۔ کہاجاتاہے کہ مصری انقلاب کو روکنے میں ناکامی کے بعد سعودی عرب نے انقلاب کو رول بیک کرنے کا منصوبہ تیارکرنے اور اس پر عمل درآمد میں مصری جرنیلوں کی مکمل حمایت کی تھی۔
اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل السیسی پر مغربی ممالک دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ جمہوریت بحال کریں، ایسے میں سعودی عرب نے ایسے ممالک کو واضح پیغام دیا کہ وہ مصر کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ شاہ عبداللہ نے کہاتھا:'' سعودی بادشاہت مصر کے ساتھ کھڑی ہے اور ان تمام قوتوں کے خلاف ہے جو مصر کے داخلی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں''۔
اس خطاب کے ایک گھنٹہ بعد اس وقت کے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے پیرس کی طرف اڑان بھری اور اس وقت کے فرانسیسی صدر فرانکوئس ہالینڈ سے ملاقات کی، نتیجتاً میزبان صدر نے مصری جرنیلوں کے ''روڈ میپ'' کی حمایت کا اعلان کردیا۔ یادر ہے کہ اس وقت باقی یورپی حکمران فوجی بغاوت کی مذمت کررہے تھے اور مصر میں ہونے والے خون خرابے کا ذمہ دار فوجی جرنیلوں کو قرار دے رہے تھے۔اس کے ردعمل میں شہزادہ سعود الفیصل نے ایک بیان میں کہاتھا کہ انھیں(یورپی ممالک کی طرف سے) مصر سے تعاون روکنے اور مصری جرنیل حکومت کے خلاف دھمکی آمیز بیانات جاری کرنے پر تشویش ہے۔
انھوں نے امریکہ اور دوسرے اتحادیوں سے شکوہ کیا کہ انھوں نے مصری قوم کے سڑکوں پر آنے کے بعد صدر حسنی مبارک کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیاتھا۔اس وقت کی سعودی حکومت نے مصری جرنیلوں کو اُس سب کچھ کی کھلی چھٹی دیدی تھی جو وہ اپنے ملک میں کررہے تھے اور ان کے لئے سعودی ریالوں سے بھری بوریوں کے منہ کھول دئیے تھے۔ مصری جرنیلوں کی حمایت سعودی عرب اکیلے ہی نہیں کررہاتھا بلکہ اس مہم میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات بھی شامل تھے۔یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ سعودی عرب ہمیشہ پس پردہ رہ کر 'چیک بک ڈپلومیسی' سے کام لیتا ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سعودی حکمران خطے میں مختلف مقاصد کے لئے ریال فراہم کرتیہیں تاہم اس کام کے بھی کچھ معیار ہیں۔ البتہ مصر کے معاملہ میں سعودی عرب نے اپنے معیارات کو تبدیل کردیا۔ مثلاً جنرل السیسی کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے ایک ہفتہ کے اندر سعودی عرب نے مصر کے لئے 12بلین ڈالرز کے ریسکیو پیکیج کا اعلان کردیا، اس کا ڈرافٹ براہ راست فوجی جرنیلوں کو تھمایاگیا۔ اس میں متحدہ عرب امارات نے3بلین ڈالرز جبکہ کویت نے 4بلین ڈالرز کا حصہ ڈالا تھا۔اُس وقت مصری جرنیلوں کی بغاوت کے معاملے پر خلیجی خطے میں ایک تقسیم پیدا ہوگئی تھی۔
قطر اور ترکی اخوان المسلمون کی حکومت کے حق میں تھے۔سعودی عرب نیمارچ 2015ء میں مزید 4 بلین ڈالر دئیے گئے۔دونوں ممالک کے مابین اچھے تعلقات سال رواں کے آغاز تک کسی نہ کسی اندازمیں چلتے رہے۔ امسال اپریل میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے دورہ مصر کے دوران میں 36معاہدوں پر دستخط کئے جن کے تحت سعودی عرب نے مصر میں 25بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا تھی۔ شاہ سلمان کے دورہ سے کئی روز قبل 'مصری پٹرولیم کواپریشن' نے دنیا کی سب سے بڑی سعودی کمپنی آرامکو کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس میں سعودی کمپنی نے 23بلین ڈالر کے عوض اگلے پانچ برس تک پٹرولیم کی ضروریات پوری کرنے کا عہد کیاتھا۔
مصر میں ڈاکٹرمحمد مرسی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سعودی عرب کا خیال تھا کہ اخوان المسلمون کی حکمرانی اس کے لئے خطرناک ثابت ہوگی اور جنرل السیسی کی قیادت میں مضبوط مصر ایران اور اس کی حامی ملیشیاؤں کا مقابلہ کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔کم ازکم گزشتہ برس تک جنرل السیسی سعودی عرب کو یقین دلاتے رہے کہ وہ خلیجی ریاستوں کی سلامتی کو اپنی خارجہ پالیسی میں ''سرخ لکیر'' کا درجہ دیتے ہیں۔تاہم جب یمن میں حوثیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سعودی عرب نے مصری فوج بھیجنے کا مطالبہ کیا تو جنرل السیسی نے فوج نہ بھیجی۔ اسی طرح سعودی عرب نے شام کے معاملے میں بھی مصر سے عسکری تعاون کا مطالبہ کیا، جنرل السیسی نے یہ بات بھی نہ مانی۔ اپریل 2016ء میں جب شاہ سلمان مصر پہنچے تو جنرل السیسی نے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے اور سعودی عرب کو راضی کرنے کے لئے بحراحمر میں دو جزیرے سعودی عرب کو دینے کا اعلان کردیا۔
جنرل السیسی اپنے مخصوص اندازمیں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا چاہتے تھے تاہم سلامتی کونسل میں روسی قرارداد نے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کو نمایاں کردیا۔ سعودی عرب سمجھتاہے کہ شام کے مستقبل میں بشارالاسد کی موجودگی سے خطے میں ایران کو تقویت ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ سلمان حکومت کسی بھی صورت میں بشارالاسد کو نکال باہر کرناچاہتی ہے۔ تاہم گزشتہ ماہ مصری وزیرخارجہ سامح شکری نے ایرانی وزیرخارجہ سے ملاقات کے بعد بیان جاری کیاتھا کہ شام میں لڑائی کا مقصد بشارالاسد حکومت کا خاتمہ ہے لیکن مصر ایسا نہیں چاہتا۔
سعودی عرب کی طرف سے مصر کو تیل کی فراہمی بند کرنے کے بعد جنرل سیسی کے قریب سمجھے جانے والامصری میڈیا سعودی عرب پر خوب برس رہاہے۔ایک مصری ٹی وی اینکر نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ عمرے کے لئے مکہ مدینہ جانا چھوڑ دیں تاکہ سعودی عرب آمدنی سے محروم ہوجائے ۔ایک تجزیہ کار احمد موسیٰ نے کہا کہ کوئی آٹا، پٹرول، گیس یا اسلحہ حتیٰ کہ ڈالر کی بنیاد پر مصر پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔
مصر کے پاس آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔کوئی ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ہمیں کسی سے کوئی بھی امداد نہیں چاہئے۔ اگر کوئی ملک ہماری امداد روکنا چاہتاہے تو وہ اپنی مرضی پورے کرلے۔ ہمیں امداد دینے والے بہت ہیں۔ اگر مصر نہیں تو آپ بھی نہیں۔ مصر کی بقا ہی عرب دنیا کی بقا ہے''۔ ایک دوسرے تجزیہ کار ابراہیم عیسیٰ نے کہا کہ آپ لیبیا، یمن، عراق اور شام میں جوکچھ دیکھ رہے ہیں، وہ وہابیوں( سعودی عرب) کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ عرب ممالک میں جو کچھ بھی ہورہاہے، اس کے ذمہ دار یہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اور مصر کے مابین ناراضی عارضی ہے یا اس کا سلسلہ آگے بھی بڑھے گا؟ اگرچہگزشتہ ہفتے جنرل السیسی نے یہ کہہ کر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی کہ سعودی عرب نے صدرمرسی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک مصر کی بہت زیادہ امداد کی، اس پر اس کا شکریہ، انھوں نے یہ بھی کہا کہ روسی قرارداد پر دونوں ممالک کا اختلاف ہمارے باہمی تعلقات خراب نہیں کرسکتا۔ انھوں نے آرامکو کی طرف سے مصر کو تیل کی فراہمی بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم گزشتہ دنوں جنرل السیسی نے مصری فوج کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے'' مصر نے عرب قوم کی سلامتی کے لئے ایک آزادانہ پالیسی اختیار کی ہے۔ شام کے مسئلہ پر ہمارا موقف طے شدہ ہے، یہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔ مصر خدا کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتا''۔
گزشتہ چند ماہ سے مصر نے روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا شروع کردئیے تھے۔ ستمبر میں دونوں ملکوں کے درمیان 3.5بلین ڈالر مالیت اسلحہ کا معاہدہ ہوا۔ اسی طرح ایک دوسرے معاہدے کے مطابق مصر روس سے 25بلین ڈالر کا قرضہ بھی لے گا جس سے نیوکلیر پاور پلانٹ قائم کیاجائے۔ ماہ رواں میں دونوں ملک مشترکہ فوجی مشقیں بھی کررہے ہیں جبکہ مصر میزبان ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ مصر چند مہینوں قبل ہی سے سعودی عرب سے الگ راہ اختیار کرنے کی تیاری کررہاتھا۔
مصر کا سعودی عرب سے الگ ہونا اور روس، ایران اتحاد کا حصہ بننا ایک بڑا فیصلہ ہے۔ اس کے اثرات بھی اسی قدر گہرے ہوں گے۔ ترکی جیسے ایک مضبوط معاشی ملک کے ساتھ مصر کے تعلقات پہلے ہی سے منقطع ہیں، اب سعودی عرب سے علیحدگی کا فیصلہ اسے عرب دنیا میں شدید تنہائی کا شکار کردے گا۔ ایسے میں مصر کا زیادہ دیر تک اپنی موجودہ روش کو برقرار رکھنا خود اس کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔