’’دھاندلی ‘‘کا ساز
واقعات تیزی سے ہو رہے ہیں ، مان لیجئے، کرپشن روزانہ سات ارب کی نہیں، بارہ چودہ بلکہ پندرہ ارب روپے کی ہو رہی ہے
حیدر آباد میں پیر پگاڑا کا جلسہ بہت بڑا تھا۔ شاید بہت طویل عرصے بعد اس شہر میں اتنا بڑا ہجوم اکٹھا ہوا۔ کہنے کو یہ پیر پگاڑا کاجلسہ تھا لیکن اس میں سندھ کی تمام قابل ذکر قوم پرست جماعتوں نے شرکت کی۔ ایک طرح سے یہ اندرون سندھ بلدیاتی آرڈیننس کے مخالفوں کی طرف سے قوت کا مظاہرہ تھا جس میں پیپلز پارٹی پر کم لیکن متحدہ پر زیادہ تنقید ہوئی۔ اس جلسے کی ایک بات مثبت تھی اور دوسری منفی۔ مثبت یہ تھی کہ جلسے نے واضح طور پر اعتماد کا پیغام دیا۔
مقررین نے کہا کہ وہ متحدہ سندھ اور متحدہ پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ اس طرح جہاں انہوں نے سندھ کی تقسیم کے امکان کو مسترد کیا، وہاں انہوں نے ان عناصر کو بھی واضح پیغام دیا جو پاکستان توڑنے کے اشارے دیتے رہے ہیں۔ اس جلسے کا منفی پہلو یہ تھا کہ سندھ عملی طور پر سیاسی یا نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو رہا ہے۔ شہری آبادی ایک طرف ہوگئی ہے اور دیہی آبادی دوسری طرف۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں امن وامان کے لئے وسیع تر اتحاد کیا تھا لیکن اس کے الٹ نتائج نکلے۔ کراچی کی بدامنی نے پیپلز پارٹی کو دو طریقے سے متاثر کیا۔ بدامنی کی بدنامی اس کے حصے میں آئی حالانکہ بدامنی میں اس کا حصہ اگر کوئی ہے تو بہت کم ہے، دوسرا یہ کہ اندرون سندھ اس پر متحدہ کے ناز نخرے اٹھانے اور سندھ کے حقوق پر سمجھوتہ کرنے کے الزامات لگے جن کو وزن دیا جارہا ہے۔
حیدر آباد کا یہ جلسہ شہری سندھ کی قیادت کے لئے چیلنج ہے۔ اندرون سندھ اگر بلدیاتی نظام کی مخالفت نے گہرا رنگ اختیار کرلیا تو حیدر آباد، سکھر، نواب شاہ، میرپور خاص، شہداد پور، ٹنڈو آدم،لاڑکانہ اور شکار پور میں جہاں متحدہ کا نیٹ ورک بہت نمایاں ہو کر کام کررہا ہے، وہ مشکلات میں گھرجائے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ خود کراچی کے کئی علاقوں میں بھی متحدہ کو مسائل کاسامنا کرنا ہوگا۔ متحدہ نے اپنے دفاع میں اقدامات کئے تو صورت حال سنگین ہو جائے گی۔
حیدر آباد کے اس جلسے میں مقررین نے یہ الزام لگایا کہ عام انتخابات میں وسیع دھاندلی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ دھاندلی کے منصوبے کے کچھ شواہد سامنے نہیں آسکے لیکن الزام جس طریقے سے اور جس زور سے لگایا گیا ہے، بہت سے لوگ اسے سچ مان لیں گے۔ انتخابات تب ملتوی کئے جائیں گے جب یہاں سے جواز اکٹھے ہو جائیں گے اور ان بہت سے اسباب میں ایک سبب یہ بھی ہوگا کہ ''حکومت وقت نے دھاندلی کی منصوبہ بندی کی تھی'' یہ اتفاق سمجھئے کہ دھاندلی کا الزام ایک ایسے محترم سیاسی رہنما نے لگایا ہے جن کا اپنے بارے میں ہمیشہ یہ دعویٰ رہا ہے یا لوگوں کا خیال رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہیں۔
دوسری طرف ایک نیا طوفان سامنے آیا ہے۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوگیا ہے۔ کراچی میں انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں کے کیس میں فاضل جج کے بعض ریمارکس پر الطاف حسین نے رد عمل دیا تھا۔ اسی رد عمل کا نوٹس لے کر عدالت نے کہا ہے کہ ردعمل میں دیئے گئے ریمارکس ججوں کی تضحیک پر مشتمل تھے اور ان کے ذریعے عدلیہ کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی۔
عدالت نے الطاف حسین کے ٹیلی فونک خطاب کے لئے اپ لنکنگ سہولت کے غلط استعمال کا بھی ذکر کیا۔ ممکن ہے اس بارے میں کبھی کوئی فیصلہ آجائے ۔ توہین عدالت کے نوٹس کی خبر آنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد کراچی سمیت شہری سندھ کے تمام علاقوں میں ہوائی فائرنگ کرکے بازار بند کرا دیئے گئے اور اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ فائرنگ کس بات کا رد عمل تھا۔ الطاف حسین بوجوہ پاکستان نہیں آئیں گے اور توہین عدالت کی کارروائی INABSENTIA چلانی پڑے گی۔ یہ بات فضا کو مزید تلخ بنا دے گی۔ متحدہ کے حامیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ شہری مراکز میں کہیں ان کی اکثریت ہے اور کہیں ایسی اقلیت جو اکثریت سے کم نہیں ۔کسی بھی جذباتی فضا میں حالات ایسے ہو جائیں گے کہ سندھ کی حد تک انتخابات کاانعقاد مشکل ہو جائے گا اور انتخابات کے ملک گیر التوا کے لئے یہ جواز خاصا بھاری ہوگا۔
واقعات تیزی سے ہو رہے ہیں ، مان لیجئے، کرپشن روزانہ سات ارب کی نہیں، بارہ چودہ بلکہ پندرہ ارب روپے کی ہو رہی ہے لیکن یہ کب سے ہو رہی ہے؟ اگریہ کئی برسوں سے ہو رہی ہے تو اس کا دھماکہ خیز انکشاف انتخابات شروع ہونے سے پہلے ہی کیوں ہوا اور اگر یہ تازہ تازہ ہوئی ہے تو پھر یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہوگا کہ اچانک ہر روز اربوں کھربوں کی کرپشن ہونے لگی ہے۔ یہ اتفاق قابل غور ہے کہ روزانہ سات ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف پہلے عالمی ادارے ٹرانسپرنسی نے کیا۔
اس کے اگلے روز نیب نے اس کی تصدیق کی بلکہ اس الزام کو گود لے لیا او اس سے اگلے روز نیب نے سات ارب کے ہندسے کو کم جانتے ہوئے گنتی بارہ سے سولہ کے درمیان کردی، یعنی ایک دم دوگنا اضافہ۔ کچھ حلقے کہتے ہیں کہ انتخابات کا التوا اور لمبے عرصے کے لئے نگران حکومت محض پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں، امریکہ کی دلچسپی بھی اسی میں ہے چنانچہ کچھ حلقوں کی اس رائے کو پہلے غیر ملکی ٹرانسپرنسی اور پھر نیب کے انکشافات سے جوڑیئے، دلچسپ نتیجہ نکلے گا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے والا ہے۔
اس کے لئے جو سہ فریقی سمجھوتہ پاکستان امریکہ اور طالبان میں ہونے والا ہے، اس میں امریکہ کے مفادات چونکہ ''سپریم'' ہوں گے اس لئے ایسے نازک موقع پر ''پارلیمنٹ'' جیسا نامعقول ادارہ موجود نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کی طرف سے دخل در معقولات کی کوشش صورت حال کو ناپسندیدہ بنادے گی۔ ایک خبر کے مطابق کسی سینئر وزیر نے ایک اخبار نویس کو بتایا نیب کے پیچھے کوئی ''خفیہ فورس'' ہے اورآنے والے دنوں میں کرپشن کی مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔ اس وزیر نے مسلم لیگ کو پیغام دیا ہے کہ یہ سارے معاملات نگران حکومت کو طول دینے کا منصوبہ ہیں۔
ذرا منظر نامے کو ترتیب دیجئے، سواات میں بدامنی کی نئی لہر شروع ہے۔ فاٹا میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر پشاور ہائیکورٹ نے بڑے سخت ریمارکس دیئے ہیں۔ بلوچستان میں خونریزی بے قابو ہے۔ کرپشن نے ملک کا ڈھانچہ زمین بوس کر دیا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر نیچے آرہے ہیں۔ حکومت نے انتخابات میں دھاندلی کا منصوبہ بنالیا ہے۔ کراچی اور شہری سندھ میں لوگ سڑکوں پر ہیں، ہوائی فائرنگ ہو رہی ہے ، لاشیں گر رہی ہیں، اندرون سندھ لوگ راستے بلاک کررہے ہیں چنانچہ صورت حال قابو سے باہر ہوگئی ہے، اس لئے ملک کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ انتخابات ملتوی کردیئے جائیں۔ ایک عبوری حکومت بنائی جائے جو ان ساری خرابیوں کو دور کرکے انتخابات کے لئے ساز گار فضا قائم کرے۔ آپ یقین رکھئے، فضا ساز گار ہوتے ہی جو پہلا حکم جاری ہوگا وہ عام اور منصفانہ انتخابات کرنے کا ہوگا۔ اللہ ہم سب کا نگہبان ہو۔