کچی پکی دیواریں
بلوچستان جل رہا ہے، ’’سرکار‘‘ سب سمجھتی ہے، مگر اسے سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی
ISLAMABAD:
بلوچستان جل رہا ہے، ''سرکار'' سب سمجھتی ہے، مگر اسے سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ ''بلوچستان جلتا ہے تو پاکستان جلتا ہے'' اور ''سرکار'' سے ہٹ کر ''ثناء خوان تقدیس'' کہاں ہیں؟
کچھ پتا نہیں۔ توقیر چغتائی کے مصرعے میں ذرا سی ترمیم کرکے جالب کی خالد لکھ رہا ہوں۔
سنا ہے ایک ''خالد'' تھا، سو اب وہ بھی نہیں باقی
تو کیا اس ساری بستی میں قلم، رکھتا نہیں کوئی!
خالد علیگ اب تک آخری شاعر تھے، جن کا رہن سہن بھی عوامی تھا، اور شاعری بھی عوامی تھی، وہ بھی چند سال ہوئے یہ کہتے ہوئے اگلے جہاں چلے گئے۔
میں اپنی جنگ لڑ بھی چکا، ہار بھی چکا
اب میرے بعد میری لڑائی لڑے گا کون
خالد علیگ سے پہلے بھی سچ کی راہوں پر چلنے والے آخری سانس تک لڑتے رہے اور جاری جنگ چھوڑ کر جاتے رہے، اور مظلوم ابھی تک ظالموں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور خالد علیگ کی جنگ آج بھی جاری ہے اور آخری معرکے تک جاری رہے گی۔ غلام محمد قاصر کہہ گئے ہیں:
کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
ہے شوق سفر ایسا، اک عمر سے یاروں کا
منزل بھی نہیں پائی، رستہ بھی نہیں بدلا
سچ کے رستے پر چلنے والوں کا پختہ یقین ایک عمر سے انھیں لیے چلے جا رہا ہے۔ ظہیر کاشمیری کہہ کر گئے ہیں:
ہمیں یقین ہے ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
حبیب جالب بھی اسی یقین کا اظہار کرکے گئے ہیں کہ ''میں ضرور آؤں گا، اک عہد حسیں کی صورت''۔
سچ کی راہوں پر چلنے والے آج بھی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ احفاظ الرحمن کی شاعرانہ آواز میں جو گھن گرج ہے، جس شدت سے وہ شعلہ بار چیختے ہیں، احفاظ بھی اپنے دور کے زندہ شاعر ہیں اور صابر ظفر بھی، خصوصاً اپنے دو شعری مجموعوں ''گردش مرثیہ'' اور ''لہو سے دستخط'' کے ذریعے اپنے زندہ شاعر ہونے کا ثبوت فراہم کرچکے ہیں۔ یہ دونوں شعری مجموعے صوبہ بلوچستان کے مظلوموں کی خون آشام داستانیں ہیں۔
بلوچستان مسلسل ظلم کا شکار ہے۔ اس صوبے کو ہر حکمران نے شکار گاہ ہی سمجھا۔ شکاری حکمران بلوچوں کو شکار کرتے رہے اور کوئی انھیں بچانے نہیں آیا۔ ملک نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کی سکھر جیل کے پھانسی گھاٹ پر جھولتی لاشیں ہوں، بلوچستان کی پہلی صوبائی اسمبلی کی برطرفی ہو، اکبر خان بگٹی کا اعلانیہ قل ہو یا بلوچ سوختہ لاشیں۔ ہزارہ برادری کے چاند جیسے لوگ جنھیں کئی بار نشانہ بنایا گیا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے صوبے کے لائق ترین وکلا خودکش بمباروں کا نشانہ بنے۔ ابھی ہم یہ سانحہ عظیم نہیں بھولے تھے کہ دہشت گردی کا ایک اور بہت بڑا واقعہ ہوگیا جس میں صرف تین دہشت گردوں نے خود کو اڑایا اور 61 پولیس کیڈٹس مار ڈالے۔ ان میں ایک فوجی بھی شامل تھے، کیپٹن روح اللہ جن کا تعلق شبقدر سے تھا۔
کہتے ہیں پولیس ٹریننگ کالج کی چار دیواری صرف ساڑھے تین فٹ اونچی اور کچی تھی۔ کوئٹہ شہر سے 12 کلومیٹر باہر کالج کے لیے بنیادی ضروری حفاظتی انتظامات نہیں تھے۔
افسوس صد افسوس، حکمرانوں کے اپنے گھر اور دفاتر، گورنر ہاؤس، وزیر اعلیٰ ہاؤس اور جہاں جہاں یہ ظالم حکمران اٹھتے بیٹھتے ہیں ان کے سب ٹھکانے ''بم پروف'' دیواروں کے حصار میں ہوتے ہیں۔ فولادی بیریئرز اور جدید ترین اسلحے سے لیس مضبوط جثوں والے گارڈ الگ ہیں۔ اور غریبوں کے بچے پولیس کیڈٹ کے جوان بغیر اسلحے کے ساڑھے تین فٹ اونچی کچی چار دیواری کے اندر رات کے سناٹے میں مار دیے گئے۔
حکمران زیادہ قیمتی ہیں جن کی حفاظت کے لیے مضبوط آہنی دیواریں اور غریب پولیس والوں کے لیے نہ اسلحہ نہ مضبوط چار دیواری۔ جاتی امرا اور بنی گالہ کے اطراف میں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا، تقریباً ایک کلومیٹر پہلے ہی ان جگہوں کی دیواریں شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک حکمران ہے، دوسرا حکمرانی کا طالب ہے۔ مگر عوام وہیں کے وہیں۔ وہی غریبوں کے دن رات۔ اور حکمران پھر مزے میں۔ بس چہرے ہی تو بدلیں گے، جمہور کے قاتل کہاں بدلیں گے۔ حکمرانوں اور حکمرانی کے طالبوں کا ایک جیسا حال ہے۔
مسلح محافظوں کی دیوار، لوہے کے بیریئرز کی دیوار، فولادی گیٹ کی دیوار، اندر بم پروف دیوار، ان دیواروں کے درمیان حفاظتی گیٹ تھرو اور غریبوں کے بچے بے یار و مددگار مارے گئے۔ میں کیا کروں؟ مجھے تو کچھ نہیں آتا۔ میں حسن حمیدی، واحد بشیر، ڈاکٹر اعزاز نذیر، لالہ لعل بخش رند، امام علی نازش، ڈاکٹر حسان، رفیق چوہدری جیسے کہاں سے لاؤں۔ ایک معراج محمد خان تھے وہ بھی چلے گئے۔ جام ساقی کا دم غنیمت ہے وہ بھی شدید علیل ہیں۔ باقی اللہ اللہ خیر صلا۔ ''کوئی صدا نہیں کہ جسے زندگی کہوں ''۔
وہ جو غریبوں کا دم بھرتے ہیں وہ بھی بھاری بھرکم گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ صرف یہی نہیں وہ منظم بھی نہیں ہیں۔ ترقی پسند، تقسیم ہیں لاہور اور کراچی میں دو دو تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔
انقلاب کون لائے گا
انقلاب کیسے آئے گا
مگر انقلاب ضرور آئے گا۔ وہ لاوا تو کہیں پک رہا ہے۔ وہ آتش فشاں پھٹے گا تو سارے نقش کہن مٹ جائیں گے۔ جالب کا شعر اور اجازت:
کوئی تو پرچم لے کر نکلے، اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے، دیوانے یاد آتے ہیں
بلوچستان جل رہا ہے، ''سرکار'' سب سمجھتی ہے، مگر اسے سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ ''بلوچستان جلتا ہے تو پاکستان جلتا ہے'' اور ''سرکار'' سے ہٹ کر ''ثناء خوان تقدیس'' کہاں ہیں؟
کچھ پتا نہیں۔ توقیر چغتائی کے مصرعے میں ذرا سی ترمیم کرکے جالب کی خالد لکھ رہا ہوں۔
سنا ہے ایک ''خالد'' تھا، سو اب وہ بھی نہیں باقی
تو کیا اس ساری بستی میں قلم، رکھتا نہیں کوئی!
خالد علیگ اب تک آخری شاعر تھے، جن کا رہن سہن بھی عوامی تھا، اور شاعری بھی عوامی تھی، وہ بھی چند سال ہوئے یہ کہتے ہوئے اگلے جہاں چلے گئے۔
میں اپنی جنگ لڑ بھی چکا، ہار بھی چکا
اب میرے بعد میری لڑائی لڑے گا کون
خالد علیگ سے پہلے بھی سچ کی راہوں پر چلنے والے آخری سانس تک لڑتے رہے اور جاری جنگ چھوڑ کر جاتے رہے، اور مظلوم ابھی تک ظالموں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور خالد علیگ کی جنگ آج بھی جاری ہے اور آخری معرکے تک جاری رہے گی۔ غلام محمد قاصر کہہ گئے ہیں:
کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
ہے شوق سفر ایسا، اک عمر سے یاروں کا
منزل بھی نہیں پائی، رستہ بھی نہیں بدلا
سچ کے رستے پر چلنے والوں کا پختہ یقین ایک عمر سے انھیں لیے چلے جا رہا ہے۔ ظہیر کاشمیری کہہ کر گئے ہیں:
ہمیں یقین ہے ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
حبیب جالب بھی اسی یقین کا اظہار کرکے گئے ہیں کہ ''میں ضرور آؤں گا، اک عہد حسیں کی صورت''۔
سچ کی راہوں پر چلنے والے آج بھی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ احفاظ الرحمن کی شاعرانہ آواز میں جو گھن گرج ہے، جس شدت سے وہ شعلہ بار چیختے ہیں، احفاظ بھی اپنے دور کے زندہ شاعر ہیں اور صابر ظفر بھی، خصوصاً اپنے دو شعری مجموعوں ''گردش مرثیہ'' اور ''لہو سے دستخط'' کے ذریعے اپنے زندہ شاعر ہونے کا ثبوت فراہم کرچکے ہیں۔ یہ دونوں شعری مجموعے صوبہ بلوچستان کے مظلوموں کی خون آشام داستانیں ہیں۔
بلوچستان مسلسل ظلم کا شکار ہے۔ اس صوبے کو ہر حکمران نے شکار گاہ ہی سمجھا۔ شکاری حکمران بلوچوں کو شکار کرتے رہے اور کوئی انھیں بچانے نہیں آیا۔ ملک نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کی سکھر جیل کے پھانسی گھاٹ پر جھولتی لاشیں ہوں، بلوچستان کی پہلی صوبائی اسمبلی کی برطرفی ہو، اکبر خان بگٹی کا اعلانیہ قل ہو یا بلوچ سوختہ لاشیں۔ ہزارہ برادری کے چاند جیسے لوگ جنھیں کئی بار نشانہ بنایا گیا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے صوبے کے لائق ترین وکلا خودکش بمباروں کا نشانہ بنے۔ ابھی ہم یہ سانحہ عظیم نہیں بھولے تھے کہ دہشت گردی کا ایک اور بہت بڑا واقعہ ہوگیا جس میں صرف تین دہشت گردوں نے خود کو اڑایا اور 61 پولیس کیڈٹس مار ڈالے۔ ان میں ایک فوجی بھی شامل تھے، کیپٹن روح اللہ جن کا تعلق شبقدر سے تھا۔
کہتے ہیں پولیس ٹریننگ کالج کی چار دیواری صرف ساڑھے تین فٹ اونچی اور کچی تھی۔ کوئٹہ شہر سے 12 کلومیٹر باہر کالج کے لیے بنیادی ضروری حفاظتی انتظامات نہیں تھے۔
افسوس صد افسوس، حکمرانوں کے اپنے گھر اور دفاتر، گورنر ہاؤس، وزیر اعلیٰ ہاؤس اور جہاں جہاں یہ ظالم حکمران اٹھتے بیٹھتے ہیں ان کے سب ٹھکانے ''بم پروف'' دیواروں کے حصار میں ہوتے ہیں۔ فولادی بیریئرز اور جدید ترین اسلحے سے لیس مضبوط جثوں والے گارڈ الگ ہیں۔ اور غریبوں کے بچے پولیس کیڈٹ کے جوان بغیر اسلحے کے ساڑھے تین فٹ اونچی کچی چار دیواری کے اندر رات کے سناٹے میں مار دیے گئے۔
حکمران زیادہ قیمتی ہیں جن کی حفاظت کے لیے مضبوط آہنی دیواریں اور غریب پولیس والوں کے لیے نہ اسلحہ نہ مضبوط چار دیواری۔ جاتی امرا اور بنی گالہ کے اطراف میں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا، تقریباً ایک کلومیٹر پہلے ہی ان جگہوں کی دیواریں شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک حکمران ہے، دوسرا حکمرانی کا طالب ہے۔ مگر عوام وہیں کے وہیں۔ وہی غریبوں کے دن رات۔ اور حکمران پھر مزے میں۔ بس چہرے ہی تو بدلیں گے، جمہور کے قاتل کہاں بدلیں گے۔ حکمرانوں اور حکمرانی کے طالبوں کا ایک جیسا حال ہے۔
مسلح محافظوں کی دیوار، لوہے کے بیریئرز کی دیوار، فولادی گیٹ کی دیوار، اندر بم پروف دیوار، ان دیواروں کے درمیان حفاظتی گیٹ تھرو اور غریبوں کے بچے بے یار و مددگار مارے گئے۔ میں کیا کروں؟ مجھے تو کچھ نہیں آتا۔ میں حسن حمیدی، واحد بشیر، ڈاکٹر اعزاز نذیر، لالہ لعل بخش رند، امام علی نازش، ڈاکٹر حسان، رفیق چوہدری جیسے کہاں سے لاؤں۔ ایک معراج محمد خان تھے وہ بھی چلے گئے۔ جام ساقی کا دم غنیمت ہے وہ بھی شدید علیل ہیں۔ باقی اللہ اللہ خیر صلا۔ ''کوئی صدا نہیں کہ جسے زندگی کہوں ''۔
وہ جو غریبوں کا دم بھرتے ہیں وہ بھی بھاری بھرکم گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ صرف یہی نہیں وہ منظم بھی نہیں ہیں۔ ترقی پسند، تقسیم ہیں لاہور اور کراچی میں دو دو تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔
انقلاب کون لائے گا
انقلاب کیسے آئے گا
مگر انقلاب ضرور آئے گا۔ وہ لاوا تو کہیں پک رہا ہے۔ وہ آتش فشاں پھٹے گا تو سارے نقش کہن مٹ جائیں گے۔ جالب کا شعر اور اجازت:
کوئی تو پرچم لے کر نکلے، اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے، دیوانے یاد آتے ہیں