دھرنے سے پہلے پشاور بھی بند ہو گیا

آج کل ہر طرف دھرنے کی باز گشت ہے

آج کل ہر طرف دھرنے کی باز گشت ہے۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اب وہ اسلام آباد بند کر کے نواز حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے قریب ہیں اور نواز حکومت سمجھتی ہے کہ نہ اسلام آباد بند ہو گا اور نہ ان کی حکومت کوئی ختم کر سکتا ہے۔شیخ رشید نے اپنی دبنگ انٹری دے کر راول پنڈی میں اپنی اہمیت کا احساس دلا دیا ہے ،طاہر القادری اس بار دھرنے میں نہیں ہوں گے۔

سوشل میڈیا پر ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے کنونشن پر پولیس کے شب خون مارنے سے متعلق ویڈیو کلپ ہیں تو دوسری طرف حکومت بھی خاموش نہیں اگرچہ بظاہر مشکلات سے دوچار لیکن مستقبل میں شکست نہ ماننے کا عزم لیے نواز شریف حکومت بھی سوشل میڈیا پر عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم کا توڑ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔کوہاٹ میں وزیر اعظم نواز شریف نے جو اعلانات کیے ہیں اگر ان پر عمل درآمد ہوتا ہے تو سمجھنے والے سمجھ جائیں گے کہ آنے والے انتخابات جب بھی ہوں پاکستان مسلم لیگ نواز کو پاس ہونے کے لیے گریس مارکس ضرور ملیں گے اور آیندہ برس اگر موجودہ نواز حکومت وفاق میں رہ جاتی ہے تو ہزارہ ایکسپریس وے کی تعمیر سے ہزارہ میں پاکستان مسلم لیگ کی کامیابی پہلے سے زیادہ دکھائی دیتی ہے اور یہ بھی نظر آتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بہت سے قریبی رفقاء اپنی پارٹی کو الوداع کہہ دیں گے ۔

یہ اگر مگر اور امید و یاس کی باتیں ابھی کرنا قبل از وقت بھی ہے لیکن سر دست عمران خان کے متوقع دھرنے نے اسلام آباد کو مفلوج کیا یا نہیں کم از کم صوبائی دارالحکومت پشاور کو ضرور مفلوج کر کے رکھ دیا ہے ۔ایک ایسے وقت میں جب کہ عمران خان کو صوبائی حکومت کی بھرپور مدد درکار ہے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک انگلستان کے دورے پر تھے اور کہا جا رہا تھا کہ وہ دھرنے سے قبل وطن واپس نہیں آئیںگے لیکن وہ نہ صرف وطن واپس پہنچ گئے ہیں بلکہ صوابی میں جلسہ بھی کر ڈالا اور مزید جلسوں کی تیاری میں مصروف ہو گئے ہیں۔

البتہ ان کے حوالے سے وفاقی وزارت داخلہ نے واضح کر دیا ہے کہ اگر پرویز خٹک دھرنے میں شرکت کے لیے آئے تو انھیں پروٹو کول فراہم نہیں کیا جائے گا یعنی انھیں پولیس کی گاڑیاں جو عام طور پر اسلام آباد کی پولیس فراہم کرتی ہے ان کے ساتھ نہیں ہوں گی، وفاقی وزارت داخلہ نے یہ انکاری خط خیبر پختون خوا پولیس کی جانب سے پرویز خٹک کو دھرنے کی متوقع کشیدہ صورت حال کے تناظر میں پروٹو کول فراہم کرنے سے متعلق خط کے جواب میں لکھا ہے۔پرویز خٹک کے لیے پروٹو کول کی اہمیت اس لیے بھی نہیں کہ وہ پشاور میں بھی یا تو بغیر پروٹوکول سفر کرتے ہیں اور یا پھر ایک آدھ پولیس کا اسکواڈ ان کے ہمراہ ہوتا ہے۔ لاکھ برائیاں سہی مگر پروٹو کول کے حوالے سے پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ اور وزیروں پر زیادہ جملے نہیں کسے جا سکتے۔


بہرطور شہر پشاور میں نوکر شاہی پہلے ہی کام نہیں کر رہی تھی اب اس دھرنے کی وجہ سے سارے وزیر اور مشیر بھی اپنے دفتروں سے غائب ہیں، ایک وزیر کو تو دیکھنے والوں نے کئی مہینوں سے اپنے دفتر میں نہیں دیکھا زیادہ تر وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوتے ہیں یا پھر عمران خان کے پیچھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک وزیر بہت کم دفتر جاتے ہیں لیکن انھیں بھی اپنے قائد کی قربت کا شوق ہے چنانچہ کبھی کبھار ہی دفتر میں پائے جاتے ہیں، ایساہی حال دیگر کئی وزیروں کا بھی ہے لیکن جب دھرنا آتا ہے تو پھر ببانگ دہل یہ وزیر اور مشیر دفتروں سے غائب ہو جاتے ہیں جس کے بعد بیوروکریسی بھی خوب مزے لوٹتی ہے۔

اسلام آباد دھرنے کی وجہ سے یہ کہنا قطعی غلط نہیں کہ آنے والے کئی دنوں تک پشاور سیکرٹیریٹ میں ہو کا عالم رہے گا اور اسلام آباد بند ہو یا نہ لیکن پشاور ضرور بند رہے گا۔اس دھرنے کی وجہ سے خیبر پختون خوا اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے بھی خبریں آ رہی ہیں، کوئی کہتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف صوبائی اسمبلی کو تحلیل کر دے گی،کوئی فرماتا ہے کہ عمران خان نے اپنے وزراء کو استعفے تیار رکھنے کا کہہ دیا ہے، کہیں سے خبر آتی ہے کہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد تیار کر لی ہے ۔

کوئی کہتا ہے کہ گورنر راج لگنے کو ہے گویا جتنے منہ اتنی باتیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ کوئی بھی جاننے والا حقیقت جاننے کو تیار نہیں۔یہ ممکن مگر مشکل ہے کہ پاکستان تحریک انصاف حکومت تحلیل کرے اگر وزیر اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو نواز شریف حکومت کو تو گورنر راج لگانے کا موقع مل جائے گا اسے اسمبلی کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مستعفی ہوتی ہے تو بھی نواز شریف کی مسلم لیگ دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا لے گی۔

ان سب سے بڑھ کر پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر صاحبان اب کچی گولیاں نہیں کھیلتے اور اس کا اندازہ اس امر سے لگا لیجیے کہ اسپیکر اسد قیصر نے پہلے ہی صوبائی اسمبلی کا اجلاس اکیس نومبر تک ملتوی کردیاہے ۔گو اسلام آباد میں تبدیلی آئے یا نہ آئے خیبر پختون خوا میں کوئی بھی تبدیلی متوقع نہیں ہے، باقی رہ گئے عوام وہ بھی تیار ہیں کہ ٹیلی وژن کی اسکرینوں کے سامنے بیٹھ کر الٹے سیدھے مگر چٹ پٹے تبصرے سنیں اور خیالوں ہی خیالوں میں اپنی رائے قائم کریں ،سوشل میڈیا پر اسے شئیر کریں اور پھر ایک نئی صبح کے انتظار میں سو جائیں کہ اٹھیں تو کچھ تو بدلا ہوا پائیں!

اس ہفتے کی دوسری اہم خبر عدالت عظمیٰ نے ان سرکاری ملازمین کو ملازمتوں سے برخاست کرنے کا حکم جاری کیا ہے جنہوں نے نیب سے پلی بارگین کرتے ہوئے دوبارہ ملازمتیں جوائن کر لی تھیں اورآجکل ترقی پا کر مزے لوٹ رہے ہیں۔ان افسروں اور اہل کاروں کو صوبائی حکومت نے شوکاز نوٹسز جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ان کی تعداد 921 بتائی گئی ہے ۔اگر اتنی بڑی تعداد میں ان ملازمین کو فارغ کیا جاتا ہے تو پہلے سے کمی کا شکار اس صوبے کو افسروں کی مد میں مزید کمی کا سامنا ہو گا۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ایک بات سوچنے پر ضرور مجبور کیا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین نے کرپشن کی لیکن پھر واپس آگئے، واپسی کے بعد وہ کرتے ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
Load Next Story