کاشف غائر کے مجموعے سے انتخاب

کاشف غائر کا کا کمال ہے کہ اپنی شاعری میں تازہ کاری لے آتے ہیں۔

غائر کی غزلوں کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ با آسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے من میں اتر کر خود کو غیر حقیقی خیالات کے حوالے نہیں کرنے دیتا۔

FAISALABAD:
کاشف حسین غائر کراچی کے ان چند نوجوان غزل گو شعراء میں سے ایک ہیں جنہوں نے ملک بھر میں غزل کے شائقین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ سہل ممتنع میں لکھتے ہیں اور پرت در پرت کھلنے والی شاعری سے اجتناب کرتے ہیں۔ پھر بھی یہ ان کا کمال ہے کہ اپنی شاعری میں تازہ کاری لے آتے ہیں۔ غائر کی غزلوں کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ باآسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے من میں اُتر کر خود کو غیر حقیقی خیالات کے حوالے نہیں کرنے دیتا۔ یہ وہ خوبی ہوا کرتی ہے جو شاعر کو غیر منطقی تصورات میں الجھنے سے بچاتی ہے۔ شاعری کا چوں کہ روزگارِ حیات کے ساتھ قریبی ناتا ہوتا ہے اس لیے یہ اس رشتے کو جمالیاتی اظہار میں لاکر ابدیت سے ہم کنار کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

غائر کا یہ مجموعہ ''راستے گھر نہیں جانے دیتے'' پہلی بار مارچ 2009ء میں شائع ہوا اور اب اس کا دوسرا ایڈیشن چھپ کر آچکا ہے۔ بلاشبہ مکرر اشاعت اس شاعری کے لیے پسندیدگی پائی جانے کا ثبوت ہے جس میں موجود فکر زندگی کے مسلسل تحرک سے عبارت ہے۔ اسے شہرزاد، گلشن اقبال کراچی نے چھاپا ہے۔ کتاب کی تدوین فہیم شناس کاظمی اور علی زبیر نے کی ہے۔ غائر کی اس کتاب سے چند نمایندہ اشعار کا انتخاب آپ کے ذوقِ مطالعے کی نذر ہے:
یہ ہوا یونہی خاک چھانتی ہے
یا کوئی چیز کھوگئی ہے یہاں
زندگی ہی مرا اثاثہ ہے
وہ بھی تقسیم ہورہی ہے یہاں

ہر نئی شام میری اجرت ہے
دن بِتانا ہے روزگار مرا
کیا عجب ہے کہ سربلند کرے
ایک دن مجھ کو انکسار مرا

کچھ ہیں بھی اگر ہم تو گرفتار ہیں اپنے
زنجیر نظر آتی ہے آزاد ہماری
ہم گوشہ نشینوں سے ہے مانوس کچھ ایسی
جیسے کہ یہ تنہائی ہو اولاد ہماری

زمیں کے جسم پر قبریں نہیں ہیں
خیال رفتگاں رکھا ہوا ہے
یہاں جو اک چراغ زندگی تھا
نہ جانے اب کہاں رکھا ہوا ہے

آ کبھی شام کے علاوہ بھی
مل کبھی کام کے علاوہ بھی
ایک کردار ہے کہانی کا
آدمی نام کے علاوہ بھی

خاک پر رہ گئے ہیں نقش قدم
اور مسافر کا کچھ پتا ہی نہیں
یا ہوا تھک چکی ہے اب غائر
یا کسی گھر میں اب دِیا ہی نہیں


اک صبح تھی جو شام میں تبدیل ہوگئی
اک رنگ ہے جو رنگِ حنا ہو نہیں رہا
کیا چاہتی ہے ہم سے ہماری یہ زندگی
کیا قرض ہے جو ہم سے ادا ہو نہیں رہا

کس کو معلوم ہے یہ بے خبری
کس خبر سے فرار ہے اپنا
لمحہ لمحہ وصول کرتے ہیں
زندگی پر ادھار ہے اپنا

میں دیکھتا ہوں پرندے تو ایسا لگتا ہے
کہ واقعی یہ مرے ہم خیال ہوگئے ہیں

ایسے کھلتا ہے کہاں رنگ جہاں
تیری تصویر بنانے سے کھلا

آئی ہوا خود آپ بجھانے چراغ کو
کوئی چراغ لے کے ہوا تک نہیں گیا

کیا کہیں اور دل کے بارے میں
ہم ملازم ہیں اس ادارے میں

زمیں آباد ہوتی جارہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری

عجب مزاج تھا اپنا کہ گھر میں بیٹھے رہے
کچھ اور سوچتے، کچھ اور جستجو کرتے

جانے وہ کیوں ادھر نہیں آتا
ہم تو کچھ سوچ کر نہیں جاتے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story