کاش ایسا معاہدہ ہم بھی کرلیں
ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے اقتصادی و سیاسی مدبرین کی ضرورت ہے
لاہور:
اتوار کو برسلز میں یورپی یونین اور کینیڈا کے مابین آخر کار کئی مرحلوں کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد ایک تاریخ ساز معاہدہ پر دستخط ہوگئے جسے دوطرفہ آزاد تجارت کے باب میں ایک سنگ میل قراردیا گیا ہے،اس معاہدہ کو کمپری ہینسیو اکنامک اینڈ فری ٹریڈ ایگریمنٹ(CETA) کا نام دیا گیا ہے۔
اگرچہ کامیاب معاہدہ کے آخری مرحلہ میں بیلجیم کی ایک چھوٹی سی اقلیت ویلونیا کے مکینوں نے معاہدہ کو ناکام بنانے کے لیے بڑا کہرام برپا کیا اور یورپی یونین کے صدر دفتر کے سامنے مظاہرین نے پولیس کو ناکوں چنے چبوائے تاہم کینیڈا کے پر عزم اور جواں سال وزیراعظم جسٹین ٹروڈیو نے برسلز پہنچ کر معاہدہ پر دستخط کیے۔ مبصرین کے مطابق اس معاہدہ سے تقریبا 50کروڑ کی آبادی مستفید ہوگی اور تجارتی ہمہ گیریت کے حوالہ سے کینیڈا کے وزیراعظم نے معاہدے میں تاخیر کو باعث تاخیر قراردیتے ہوئے بڑے شگفتہ انداز میں کہا کہ میرے دو تین دن بعد آنے سے کوئی فرق نہیں پہنچتا اصل بات اس اہم سمجھوتہ میں مضمر ہے ، ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔
کینیڈا کے مشہور ادیب اور سیاسی مفکر اسٹیفن لیکاک نے ایک بار کہا تھا کہ جس چیز کو پولیٹیکل اکانومی کہا جاتا ہے اسے در حقیقت سیاست و معیشت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یوں بھی فی زمانہ تمام ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک کے مابین اقتصادی معاہدوں اور بات چیت کا بنیادی مقصد قومی خوشحالی اور ایک ایسا عالمی اقتصادی نظام قائم کرنا ہے جو استحصال ،عدم مساوات اور لوٹ کھسوٹ سے پاک ہو۔
بلاشبہ تجارتی پابندیوں میں جکڑے ممالک کو ان کی غربت اور پسماندگی سے نکالنے کی کوئی راہ نہیں ملتی جب کہ ریاست کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے عوام کی دیکھ بھال میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے اور معاشی طور پر ملک کا چپہ چپہ معاشی ثمرات سے محروم نہ ہو،کینیڈا اور یورپی یونین کے مابین اس معاہدہ کی ایک اہم بات دو طرفہ اقتصادی و تجارتی اسپرٹ ہے، کینیڈین وزیراعظم ٹروڈیو جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور کینیڈا کو مستحکم اور پائیدار سیاسی و معاشی نظام دینے کا عزم رکھتے ہیں۔
ان کی جواں سالی پر کافی مبصرین شکوک و شبہات میں مبتلا تھے کہ کہیں یہ نوجوان کینیڈا کا معاشی نقشہ ہی تتر بتر نہ کردے۔مگر اسی وزیر اعظم نے برسلز میں معاہدہ پر دستخط ہونے کی شاندار تقریب میں ہر طرف اظہار مسرت کرنے والے چہرے دیکھے، اس معاہدے کے تحت 99 فی صد کسٹم ڈیوٹیز ختم کی گئی ہیں، یورپی یونین سے منسلک 28 ممالک سنگل یورپی منڈی سے وابستہ ہوںگی۔ دوطرفہ معاہدہ میں شریک ماہرین کا کہنا ہے کہ بیلجیم ڈرامہ سے قطع نظر تجارتی سمجھوتہ کے اثرات دور رس ہونگے۔
مخالفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ بات چیت بے نتیجہ ثابت ہو ، اس ضمن میں برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے ہولناک معاشی مضمرات سے کینیڈا اور یورپی یونین کے حکام کو دھمکایا لیکن مشاہدہ میں یہ آیا کہ جہاں قومی مفاد ، دوطرفہ خیرسگالی معاشی معاونت ، مشترکہ سرمایہ کاری اور تجارت کے مواقع کے حصول کی یقینیت ہو وہاں کسی قسم کے تصادم، احتجاج اور تباہ کن طرز عمل کی گنجائش نہیں ہوتی، اس معاہدہ سے اہل وطن کے ریاستی امور پر فائز ارباب اختیار کے لیے بھی ایک سبق پوشیدہ ہے کہ معاشی استحکام کو لاحق خطرات سے کبھی صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ سیاسی و جمہوری نظام کی ترقی و کامیابی کا انحصار مضبوط معیشت پر ہے۔سوال یہ ہے کہ حکومتوں کو عوام کے کئی اقسام کے مذہبی و سماجی پریشر گروپوں کے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے تاہم اچھی گورننس کا کمال یہ ہے کہ وہ ایجی ٹیشن کے طوفانی ماحول میں بھی بات چیت کا جزیرہ تلاش کرلیتی ہے جہاں وہ مضطرب اور مشتعل گروپوں اور سیاسی اکائیوں کو اطمینان دلا کر معاہدوں سے مستفید ہونے کا یقین دلاتی ہے، کینیڈا اور یورپی یونین کے معاہدے نے بیلجیم کے ویلونیا ۔
عوام کو ویٹو پاور دیا ،ان کے اعتراضات سنے اور حتمی معاہدہ کی ان سے بھی منظوری لے لی، اب تمام یورپی یونین کے رکن ممالک اس معاہدہ کی منظوری دیں گے۔ادھر ایک ہم ہیں کہ جو اقتصادی طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں، ایشیئن بینک بھاشا ڈیم کے لیے قرضہ دینے پرتیار نہیں، اورتحریک انصاف دھرنے پر بضد ہے، دھرنا یا کوئی بھی احتجاجی کال در حقیقت حکومت کے معاشی ایجنڈے سے عدم اتفاق اور مایوسی کا اظہار ہے، درست ہے کہ ملک میں موٹر ویز بنی ہیں۔
اورنج لائن ٹرین پروجیکٹ روبہ عمل لایا جارہا ہے، سی پیک گیم چینجر قراردیا گیا ہے اور کئی ملک گیر منصوبوں کی منظوری وزیراعظم نواز شریف دے چکے ہیں لیکن عام آدمی ریلیف سے محروم ہے، اسے اچھی تعلیم ، صحت کی سہولتیں درکار ہیں، اسے دہشتگردی ، فرقہ واریت ، عدم رواداری اور لوڈ شیڈنگ نے اعصابی طور پر نڈھال کردیا ہے، ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے اقتصادی و سیاسی مدبرین کی ضرورت ہے جو پیدا شدہ صورتحال میں ن لیگ اور تحریک انصاف کو تحمل کا درس دیں۔ یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ صبر ایک درخت ہے جس کی جڑ کڑوی کسیلی ہوتی ہے مگر اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ آج کا معاہدہ یہ یاد دلاتا ہے کہ مغربی برادری میں شکست و ریخت کا رجحان دیرپا اور مستقل نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے اس طرز فکر کو بھی ہمارے اقتصادی مشیر اور حکمراں اپنی حکمت عملی میں پیش نظر رکھ سکتے ہیں۔
کسی معاشی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ دنیا میں کوئی سیاسی نظام اقتصادی نظام کے کندھے پر پیر رکھے بغیر نہیں چل سکتا اسی لیے ہر ملک اپنی اقتصادیات کو سیاسی نظام سے پیوست رکھنے پر مجبور ہے ورنہ سیاست معاشی استحکام ، سماجی بہبود اور قومی خوشحالی کی منزل سے دور ہو تو ایسا معاشرہ اضطراب اور بے چینی کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ خیال رہے کہ اس معاہدہ کی تکمیل میں سات سال لگے اور یہ عرصہ اندرونی و بیرونی مخالفتوں سے عبارت رہا مگر جن قوموں کو اپنے عوام، خطے کی صورتحال اور عالمی اقتصادی و تجارتی نظام سے منسلک رہنے اور اس کے فوائد سے استفادہ کرنے کا جنون ہو وہی بات چیت کے ذریعے اپنے معاملات طے کرتی ہیں۔ اس تناظر میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ کے حالیہ دورے کو ذہن میں تازہ کیجیے جنہوں نے حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ کرپشن سے نجات حاصل کریں، ٹیکس نیٹ بڑھائیں، تعلیم کی مایوس کن صورتحال کو جدید دور کے علمی ، سائنسی اور تکنیکی تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی پولیٹیکل اکانومی میں خواتین کو امور مملکت میں شو پیس کے بجائے عملی شمولیت کا احساس اور یقین دلایا جائے ، جرائم کا کلچر کچل دیا ، مکالمہ کی نئی روح بیدار ہو ۔نئی نسل کو ایسا پاکستان دیں جو ان کی آسودگی کا ضامن ہوجب کہ ایسا ہی ایک غیر معمولی اور ملکی مفاد میں حکومت اور تحریک انصاف کے مابین اچانک سمجھوتہ ہو جس پر اہل وطن کی تاریخی خوشی دیدنی ہو۔