لیاقت باغ جلسہ سے لال حویلی جلسہ تک
ایک کارکن سیاست دان کس طرح بدترین حالات کوبھی اپنے لیے سازگارکرلیتاہے
ایک کارکن سیاست دان کس طرح بدترین حالات کوبھی اپنے لیے سازگارکرلیتاہے،اس کامظاہرہ28 ستمبر کوعوامی مسلم لیگ کے شیخ رشیداحمد نے اس طرح کیا کہ ان کی لال حویلی بھی ملکی اورغیرملکی میڈیا کاموضوع بنی رہی۔ حکومت نے شیخ رشیداحمد کااحتجاجی جلسہ روکنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ یعنی آج کل کی اصطلاح میں لال حویلی کو'لاک ڈاون' کردیا۔
کوئی یہ سمجھ نہیں پارہاتھاکہ لال حویلی سیل کیے جانے کے بعدکہاں وہ جلسہ کریں گے اورساونڈسسٹم کے بغیرکس طرح ان کی آوازگونجے گی۔ مگرشیخ رشید، جولال حویلی کی اردگرد کی گلیوں میں کہیں گم ہوچکے تھے، اپنے وڈیوپیغامات میں برابرکہے جارہے تھے کہ وہ بہرصورت 'جلسہ گاہ' پہنچیں گے اور 'خطاب' کریں گے ۔ پھرجس طرح وہ 'جلسہ گاہ' پہنچے اور'خطاب' کیا، یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک منفردواقعہ کے طورپر ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔
28نومبرکوشیخ رشیداحمدنے راولپنڈی میںجس طرح'جلسہ' کرکے دکھایا؛ اس طرح برسوں پہلے جب وہ اسٹوڈنٹ لیڈرتھے اوراتفاق سے اس وقت بھی اپوزیشن میں تھے، انھوں نے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکاجلسہ راولپنڈی میں نہ ہونے دینے کاچیلنج کیاتھا،اورحکومتی جلسہ الٹ کردکھایاتھاکہ خودبھٹو نے بعد میں کسی موقع پرحیران ہوکران سے پوچھا تھا' شیخ رشید، تم نے یہ کیسے کیاتھا۔' یہ 'جلسہ' جوشیخ رشید نے کرکے دکھایا، وہ تو دنیانے دیکھاہے،لیکن وہ 'جلسہ' جوشیخ رشیدنے نہیں ہونے دیا تھا، اورآج کے نوجوان سیاسی کارکنوں کو اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، آج کے کالم میں ' گاہے گاہے بازخواں ایں قصہ ء پارینہ را' کے مصداق اس کی ایک جھلک دیکھتے ہیں ۔
اکہتر کی جنگ ختم ہوچکی تھی۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکاتھا۔ قوم میں ہیجان برپاتھا۔ مغربی پاکستان میں نوجوان اورخاص طورپرطالب علم سخت مشتعل میں تھے۔ 'بنگلہ دیش نامنظور'تحریک شروع ہوچکی تھی۔ ان حالات میں لیاقت باغ راولپنڈی میں پیپلزپارٹی کی طرف سے جلسہ کرنے کااعلان ہوا۔کہا جارہاتھا، اس جلسہ میں وہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران بنگلہ دیش منظورکرانے کی ریہرسل کریں گے۔
لیکن شیخ رشید بھی،جوان دنوںگورڈن کالج راولپنڈی پڑھتے تھے اور اسٹوڈنٹ لیڈرتھے، تہیہ ء طوفان کیے بیٹھے تھے ۔ دودن پہلے شہید چوک میں انھوں نے حکومت کوچیلنج کرتے ہوئے کہاتھا، وہ یہ جلسہ نہیں ہونے دیں گے۔
شیخ رشیدنے حکومت کوچیلنج توکردیاتھا، لیکن وزیراعظم کاجلسہ الٹناآسان نہیں تھا۔ مقامی پولیس فوراًحرکت میں آگئی تھی۔ اسی رات کوان کے گھرپرچھاپہ مارا گیااوران کے والداوربھائیوں کوگرفتارکرکے سی آئی اے اسٹاف پہنچا دیاگیا۔ شیخ رشیدنے یہ رات کہیں چھپ کرگزاری اور گزشتہ روز پھریہ دھمکی داغ دی کہ اگرزندہ رہاتوکل لیاقت باغ میں بھٹوکوجلسہ نہیں کرنے دوں گا۔ جس روزیہ جلسہ ہونا تھا۔ اس سے پہلے کی رات جب شہر میں پولیس ان کی تلاش میں ماری ماری پھررہی تھی، وہ لیاقت باغ جلسہ گاہ کے عین سامنے ایک کیفے کے اوپرٹین کی چھت پرسرکے نیچے دواینٹیں رکھے سورہے تھے۔ وہ اتنے محتاط تھے کہ دوستوںکوبھی نہیں بتایا تھا کہ آج رات وہ کہاں ہوں گے۔ بس چندجانثارساتھیوں ہی کواس ٹھکانے کاعلم تھا۔
صبح ہوئی ۔ آہستہ آہستہ جلسہ گاہ بھرگئی تو بھٹو بھی خطاب کرنے کے لیے پہنچ گئے۔دوگیزکیفے سے اترکرجلسہ گاہ میں پہنچنے کے لیے شیخ رشید باہرنکلنے لگے تو اچانک دوچارسپاہی کیفے کے سامنے آکے کھڑے ہوگئے ۔
بہرحال سپاہی تھوڑی دیریہاں رک کرآگے بڑھ گئے۔ بھٹو کاخطاب شروع ہوچکاتھا۔ شیخ رشیداسی کے منتظر تھے۔ ان کے ساتھی طلبہ طے شدہ حکمت عملی کے تحت جلسہ گاہ کے باہراپنی اپنی جگہ پرالرٹ ہوگئے۔ شیخ رشیدنیچے اترے اورپولیس کوغچہ دے کرآناًفاناً اپنے ساتھی طلبہ کے پاس پہنچ گئے۔اب احتجاج کاآخری مرحلہ شروع ہوا۔شیخ رشیداوران کے ساتھی طلبہ'بنگلہ دیش نامنظور، بنگلہ دیش نامنظور' کے نعرے لگاتے ہوئے مرکزی گیٹ سے جلسہ گاہ کے اندرداخل ہوگئے۔ یہ احتجاجی جلوس اس تیزی سے جلسہ گاہ کے اندرداخل ہواکہ پولیس بھونچکی رہ گئی۔ ہر طرف کھلبلی مچ گئی۔
احتجاجی طلبہ نعرے لگاتے ہوئے اسٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے، جہاں وزیراعظم بھٹومحوخطاب تھے۔ پھر ایک پولیس اہل کار نے گبھراکے یا جان بوجھ کے فائرنگ شروع کردی۔ پھر کیاتھا، جلسہ گاہ کے اندر بھگدڑ مچ گئی۔ ذوالفقارعلی بھٹوکی تقریرادھوری رہ گئی تھی ۔ لوگ افراتفری میں ادھر ادھربھاگ رہے تھے۔ طنابیں ٹوٹ چکی تھیں۔ جلسہ الٹ چکا تھا۔
وزیراعظم بھٹو کوسیکیورٹی اہل کاروں نے بمشکل جلسہ گاہ سے باہرنکالا۔ شیخ رشیدنے اپناچیلنج پوراکر دیا تھا، اورجلسہ گاہ کے منتظمین اورپولیس حکام کوحیران وپریشان پیچھے چھوڑکرکچھ ہی دیرمیںدوبارہ لیاقت باغ کے اردگرد گلیوں میں گم ہوچکے تھے۔ گزشتہ روزتمام اخبارات نے وزیراعظم بھٹوکاجلسہ اس طرح الٹے جانے کایہ واقعہ جلی سرخیوں کے ساتھ شایع کیا۔ بی بی سی نے چشم دیدرپورٹ اورتبصرہ نشرکیا۔ وزیراعظم بھٹو نے راولپنڈی کی مقامی قیادت اورانتظامیہ کوطلب کیا اور سخت سرزنش کی ۔ آغا شورش کاشمیری مرحوم نے ایک فی البدییہ نظم ' ایک بہادر نوجوان 'کے عنوان سے لکھی، اور اپنے ہفت روزہ چٹان میں جلی حروف میں شایع کی، جس کے آخری دوشعر ہیں ،
بحمدللہ ، رشیدایسے جواں ہیں غمگساروں میں
وگرنہ داستان ِ دل کہاں لکھیے، کہاں کہیے
جگرداروں کی اس سے آبروقائم ہے شورشؔ
اسے المختصر نام وطن کاپاسباں کہییے
مجھے یقین ہے کہ آج جب شیخ رشیداحمد2 نومبر کے اپنے احتجاج کی تیاری کرتے ہوئے کہیں بیٹھے یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، توان کی چہرے پروہی مسکراہٹ ابھری ہوگی جواس وقت میں نے ان کے چہرے پردیکھی تھی، جب وہ یہ واقعہ مجھے سنارہے تھے،اورآخر میںانھوں نے فیض احمدفیض کایہ شعر یادکرنے کی کوشش کی تھی،
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہا ں ہے