مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
مودی سرکار پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی سرکار پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور یہ جھوٹا پروپیگنڈا بھی کر رہی ہے کہ وہ اپنی اس مذموم کوشش میں کامیاب بھی ہوگئی ہے تاہم حقیقت میں ایسا نہ تو ہوا ہے اور نہ ہی انشا اللہ کبھی ہوگا کیونکہ بقول شاعر:
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
چنانچہ سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے ابھی حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کو دی گئی ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت اپنی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے نتیجے میں خود دنیا بھر میں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کاٹھ کی ہانڈی صرف ایک بار ہی چولھے پر چڑھائی جاسکتی ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے ظلم و بربریت اور انسانیت سوز ستم گری کے جو پہاڑ ڈھا رہا ہے دنیا بھر میں ان کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے جس کے باعث وہ اب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ اپنی اس ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے مودی سرکار نے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا جھوٹا ناٹک رچایا اور نہ صرف اپنی بھوکی ننگی جنتا کو بلکہ عالمی رائے عامہ کو بھی گمراہ کرنے کی بھونڈی اور مذموم کوشش کی جو بری طرح ناکام ہونے کے بعد اب اسے Back Fire کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ بھارت کی سفارتی سطح پر تازہ ترین ناکامی گوا میں گزشتہ دنوں منعقدہ برکس کانفرنس کے دوران دیکھنے میں آئی جس کے انعقاد کا بنیادی مقصد ہی پاکستان کو بدنام کرنا اور سفارتی محاذ پر شکست دینا تھا۔ اس کانفرنس میں نہ صرف روس بلکہ چین کی اعلیٰ ترین قیادت کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی تاکہ مشترکہ اعلامیے میں پاکستان مخالف بھارت کو شامل کرکے پاکستان کو نیچا دکھایا جائے اور اسے دنیا بھر میں رسوا اور Isolate کیا جائے۔ لیکن چینی قیادت تو کجا روسی صدر پیوٹن تک نے بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملانے اور پاکستان مخالف الفاظ شامل کرنے سے صاف انکار کردیا جس کے نتیجے میں مودی سرکار کو خود منہ کی کھانی پڑی اور اس کا مکروہ چہرہ پوری عالمی برادری کے سامنے بے نقاب ہوگیا۔
پاکستان کی مخالفت بھارت کی ہر حکومت کی گھٹی میں شامل ہے جس کا مظاہرہ روز اول سے ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ چنانچہ ہندوستان کے اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اکتوبر 1949 میں آزادی کے فوراً بعد ہی امریکا یاترا کی تھی جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی تھی۔ بعدازاں بھارتی حکومت نے اس وقت کی دوسری سپر پاور (سابق) سوویت یونین پر ڈورے ڈالنے شروع کیے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 1949 میں پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر 14 اگست کو سوویت یونین کی جانب سے ماسکو کے سرکاری دورے کی دعوت دی گئی تھی مگر چونکہ یہ یوم آزادی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے اگلے سال پڑ رہا تھا اس لیے وزیر اعظم پاکستان کا اس موقع پر وطن عزیز میں حاضر رہنا ناگزیر تھا لہٰذا حکومت پاکستان نے سوویت حکومت کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ اس تاریخ کے علاوہ کوئی اور تاریخ مقرر کردی جائے لیکن روس کی جانب سے اس کا کوئی جواب نہ ملنے کی وجہ سے یہ دورہ ممکن نہ ہوسکا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ پاکستان کی جانب سے سوویت روس کے ساتھ روابط کے لیے بہت کوششیں کی گئی تھیں جس میں سوویت انقلاب کے 10 سال کی تکمیل کی تقریبات کے موقع پر ماسکو میں تعینات پاکستان کے اولین سفیر شعیب قریشی کے تحریر کردہ مختلف مضامین کی اشاعت بھی شامل تھی جس کا علم ماسکو کی حکومت کو بھی بخوبی تھا لیکن کوشش بسیار کے باوجود پاکستان کے سفیر کو ماسکو کے ایوان اقتدار میں روس کے نائب وزیر خارجہ گرومیکو سے آگے تک رسائی حاصل نہ ہوسکی۔بعد کے حالات اور روس کے ساتھ بھارت کے 20 سالہ دفاعی معاہدے سے اس خیال کو کافی تقویت پہنچتی ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کو اس وقت شہید کردیا گیا جب وہ روس کے سرکاری دورے کا انتظار کر رہے تھے۔ اگر ان کا یہ دورہ ممکن ہوگیا ہوتا تو وقت اور حالات کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ البتہ 1956 میں بھارتی پردھان منتری پنڈت جواہر لعل نہرو نے ماسکو یاترا کرکے سوویت یونین کے ساتھ اپنے دیس کے تعلقات کی راہ ہموار کردی اور موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ ہمیں یاد ہے جب بھارت سرکار کی دعوت پر روسی صدر بلگانن اور وزیر اعظم خروشچیف پنڈت نہرو کی دعوت پر بھارت آئے تھے ان کا دہلی کے رام لیلا گراؤنڈ میں بڑا شاندار سواگت کیا گیا تھا۔ بھارتی قیادت نے ان دونوں روسی قائدین کی آؤ بھگت میں اپنی جانب سے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔
سب سے غیر معمولی مہمان نوازی یہ کہ روسی رہنماؤں کو شیشے میں اتارنے کے لیے اپنے وقت کی ممتاز بھارتی اداکاراؤں اور رقاصاؤں وجنتی مالا اور پدمنی کو ان کی ''خصوصی خدمت'' پر مامور کیا گیا تھا۔ چانکیہ کے چیلوں بھارتی نیتاؤں کے نزدیک اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنا جائز ہے کیونکہ چانکیورنیتی(پالیسی) میں جائز و ناجائز یا حرام و حلال کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔ End Justifies the Means اس پالیسی کا بنیادی اصول ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا پاک روس تعلقات کی خلیج گہری سے گہری اور وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی جس کا بھارت کو خوب فائدہ اور پاکستان کو بڑا بھاری نقصان ہوا۔ پھر پاکستان کے بڈبیر کے ہوائی اڈے سے امریکا کے یوٹو نامی جاسوس طیارے کی سوویت یونین پر پرواز نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تلخیوں اور غلط فہمیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا جس کا بھرپورا فائدہ ہمارے سب سے بڑے اور ازلی دشمن بھارت نے اٹھایا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی بعض خامیوں سے قطع نظر انھیں اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ لیاقت علی خان کے بعد وہ پاکستان کے دوسرے دور اندیش اور صاحب فہم و بصیرت قائد تھے جنھوں نے پاک روس تعلقات کی اہمیت کو محسوس بھی کیا اور ان کشیدہ تعلقات کی بحالی اور فروغ کے لیے لائق تحسین پرخلوص اور بار آور کوششیں بھی کیں۔ پاکستان اسٹیل ملز اس کی سب سے بڑی اور روشن مثال ہے جو آج کل زبوں حالی کا شکار ہے۔ بھٹو صاحب کے اس عظیم کارنامے سے ان کے بدترین دشمن بھی اختلاف اور انکار نہیں کرسکتے۔ بھٹو صاحب کے زوال کے بعد پاکستان اسٹیل ملز کا زوال بھی شروع ہوگیا اور آج اس کا جو حشر ہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ اس لاوارث ادارے کا کوئی پرسان حال نہیں اور اس کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس ملازمین تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی میں غیر معینہ تاخیر کے باعث بدترین معاشی مسائل اور کسمپرسی کا شکار ہیں۔
سرد جنگ کے خاتمے نے پاکستان کو روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کردیا ہے اور اگرچہ اکتوبر 2012 میں روس کے صدر پیوٹن کا دورہ پاکستان ملتوی ہو گیا تھا تاہم دونوں ممالک کے درمیان روابط کو بڑھانے کی مثبت کوششیں برابر جاری رہیں۔ پاکستان اور روس دونوں کو ہی بدلتے ہوئے عالمی حالات کا احساس اور ادراک ہے جس کا تازہ ترین ثبوت 70 افراد پر مشتمل روسی فوجی دستے کا حالیہ دورہ پاکستان ہے۔ اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان اقتصادی اور ٹیکنالوجیکل تعاون وقت اور حالات کا اہم ترین تقاضا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں روس کی ترقی روز روشن کی طرح سے عیاں ہے جس سے پاکستان بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ چین کے ساتھ ساتھ روس کے تعاون سے پاکستان کو زبردست تقویت حاصل ہوگی اور اس کے نتیجے میں امریکا کو بھی پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنے کے لیے سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ روس کے ساتھ تعاون بڑھے گا تو پاکستان اسٹیل ملز کی قسمت بھی پھر سے جاگ اٹھے گی۔