کیا کمی ہے میرے ادیبوں میں
غروب ہوتے سورج کی کرنیںجھاڑیوں تک پہنچیں، تو وہاں جیسے جگنو حرکت کرنے لگے
غروب ہوتے سورج کی کرنیںجھاڑیوں تک پہنچیں، تو وہاں جیسے جگنو حرکت کرنے لگے۔ ریت سنہری ہوگئی۔ ہوائیں بہہ رہی تھیں۔۔۔ یہ کراچی یونیورسٹی کی ایک شام کا لینڈ اسکیپ ہے۔ زردآسمان پر بادل تھے۔ درختوں پر پھول کھلے تھے۔
بہار کی ہوا ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کی راہداریوں سے گزرتی، توکچھ دیر ٹھہر کر طلبا کی باتیں سنتی، خیالات پڑھتی، اور آگے بڑھ جاتی۔ اس حسین شام۔۔۔ میں نے بھی اس ہوا کو محسوس کیا تھا، سورج کی کرنوں کو جھاڑیوں میں سلگتے دیکھا تھا، اور پنچھیوں کے گیت سنے تھے کہ میں بھی اس منظر کا حصہ تھا۔کراچی یونیورسٹی کے ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ میں اردو اور انگریزی؛ دنوں زبانوں کا نصاب رائج۔ اردو کے طلبا کی اکثریت ہوتی ہے۔ گو پرائیویٹ چینلز کو آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا، مگر دو انگریزی چینلز کے ناکام تجربے ہمارے سامنے تھے، اردو اخبارات کی سرکولیشن اور کالم نگاروں کی اثر پذیری بھی ہمیںمتاثر کرتی۔ سو اردو کا انتخاب فطری ٹھہرا۔ وہاں جو اساتذہ میسر تھے۔
ان میں محترمہ شاہدہ قاضی بھی شامل، جامعہ کراچی سے صحافت میں ماسٹرز کرنے والی پہلی طالبہ، پرنٹ میڈیا کی اولین خاتون رپورٹر، پی ٹی وی کی پہلی خاتون نیوز پروڈیوسر، اور میرے لیے بااختیار پاکستانی عورت کی روشن مثال۔۔۔ تو اس شام کوئی سوال لیے ان تک پہنچے۔ دوران گفتگو اردو اور انگریزی جرنلزم کا موضوع نکل آیا۔ ان کا موقف تھا؛ ہمیں یہ مضمون انگریزی میں پڑھنا چاہیے کہ عالمی میڈیا میں انگریزی رائج، اس زبان پر گرفت روزگار کے امکانات بڑھا دیتی ہے، پھر صحافی کا کینوس بھی وسیع ہوتا ہے۔ عملی صحافت میں قدم رکھنے کے بعد، جس سے پہلے بے روزگاری کے ڈیڑھ برس ہیں، پروفیسر شاہدہ قاضی کے موقف کی اہمیت ہم پر آشکار ہوئی۔ تین انکشافات ہوئے۔
''پہلا انکشاف'': چینلز کی بڑھتی تعداد، نئے نئے اخبارات اور ویب سائٹس کے باوجود اردو صحافت امکانات کے معاملے میں انگریزی صحافت کے روبرو ایک چھوٹا میدان ہے۔''دوسرا انکشاف'': معیاری اردو صحافت کے لیے بھی انگریزی کی شدبد ضروری کہ عالمی دنیا کی خبر یں انگریزی ہی میں صحافی تک پہنچتی ہیں۔''تیسرا انکشاف'': انگریزی تو چھوڑیے، ہمارا صحافی اردو سے بھی نابلد۔ آج میڈیا میں اردو کی جو درگت بن رہی ہے، وہ اس کا منہ بولتا ثبوت۔۔۔ دوستو، اب میں گزشتہ کالم ''عشاق اردو سے معذرت کے ساتھ'' کی بحث کو نکات کی صورت پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔
پہلا نکتہ: اردو کی معیشت کمزور ہے۔ ذرایع روزگار میں اس کی حیثیت ثانوی۔ یہاں تک کہ اردو صحافت، جو کلی طور پر اردو کے ستون پر کھڑی نظر آتی ہے، اسے بھی ہمہ وقت انگریزی سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔ ''دوسرا نکتہ'': ترقی اور تبدیلی میں کلید کی حیثیت رکھنے والے پاکستان کے متوسط طبقے کو انگریزی سے متعلق عملی زندگی میں احساس کمتری کا سامنا رہتا ہے۔
اس کا ایک سبب تو ہماری تاریخ۔ ہم عشروں تک انگریزوں کے غلام رہے، آزدی کے بعد بھی ان ہی کے نظام اور فکر کی ترویج کی۔ پھر ایک بڑی وجہ ہمارے سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی اور نجی تعلیم کا بیوپار بننا بھی ہے۔ ''تیسرا نکتہ'': انگریزی رابطے کے ساتھ علوم کی بھی زبان۔ اس کی وسعت، قوت اور اثر پذیری سے انکار دراصل اسی احساس کمتری کی توسیع ہے، جس میں ہم مبتلا۔ ''چوتھا نکتہ'': اردو اور انگریزی؛ دونوں زبانوں کو بوسیدہ نصابی کتابوں سے نکل کر، جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے عملی انداز میں پڑھایا جائے۔ ان مضامین کو، ان کے اساتذہ اور طلبا کو سماج میں اہمیت دی جائے۔ اشرافیہ کی فکر تبدیل ہو۔۔۔ اس کالم کے آخر میں ہم نے تین سوال اٹھائے تھے۔ کیا اردو ادب عالمی دنیا سے پیچھے رہ گیا؟ کیا ہمارا ادیب حقیقی عالمی شہ پارہ تخلیق نہیں کرسکا؟ کیا اس میں صلاحیت کی کمی ہے؟ پہلے دو سوالوں کا جواب تو ہاں میں ہے۔
عالمی منظر میں اردو ادب حاشیہ پر بھی نہیں کہ ہمارے ادیبوں کے فن پارے عالمی ادبی فہرستوں میں جگہ نہیں پاسکے۔ البتہ یہ جو تیسرا سوال ہے؛ کیا ہمارے ادیبوں میں صلاحیت کی کمی ہے، اس کا جواب نہ میں ہے۔ جی، اگر ان میں لگن اور صلاحیت کا فقدان ہوتا، تو کیا نامساعد حالات، اس بے قیمتی اور گرانی میں ادب تخلیق کرپاتے۔ دراصل ایک بڑی دیوار ان کی صلاحیتوں کے آڑتے آگئی۔شاید آپ نے نامور لائف کوچ، ٹونی رابنز کی کتابیں پڑھی ہوں۔ ان میں بار بار ماڈلنگ کا تذکرہ آتا ہے۔ یعنی اگرکسی ادارے یا شخص نے کسی شعبے میں ایک خاص فکر اور مخصوص اقدامات کے ساتھ ترقی کی ہے، تو اس کے طریقۂ کار کو اپنا کر، اس کے ماڈل کو سامنے رکھ کر دوسرا شخص بھی اس شعبے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
Neuro-linguistic programming میں ماڈلنگ کا استعمال سائنسی بنیادوں پر تسلیم شدہ، اور دنیا بھر میں رائج۔۔۔ اب اس تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا غور کیجیے۔ ہمارے ادیبوں نے جم کر وکٹر ہیوگو، ڈکنز، مارک ٹوئن، ٹالسٹائی، دوستو فسکی، جین آسٹن اور او ہنری کو پڑھا۔ ان کے اسلوب کو سمجھا، حالات زیست اور افکار سے واقفیت حاصل کی، اور ان کا ترجمہ کرکے ان زمینوں تک رسائی حاصل کرلی، جہاں عظیم فن پاروں کے بیج گرے تھے۔۔۔ ہمارے یہ ادیب خود بھی نابغۂ روزگار تھے، اور انھیں جنگ، غلامی، سیاسی تحاریک، ہجرت اور غربت سمیت ادب کے تمام اہم موضوعات میسر تھے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ منٹو، بیدی، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، انور سجاد، عبداللہ حسین، اسد محمد خاں، نیر مسعود، حسن منظر، مستنصر حسین تارڑ، محمد حمید شاہد، مرزا اطہر بیگ حقیقی فن پارہ تخلیق نہ کرسکے ہوں؟بے شک انھوں نے اچھا ادب تخلیق کیا، مگر اردو کی کمزور معیشت آڑے آگئی۔ ناخواندگی اور غربت سے جوجھتے عوام، اشرافیہ کی اردو سے شعوری دوری، حکومتی غفلت، ادیب کبھی رائے عامہ کے نمایندے نہیں بن سکے۔ وہ اہمیت حاصل نہ کرسکے۔
جو باقی دنیا میں ادیبوں کو حاصل ہوئی (اقبال اور فیض جیسی مثالیں قلیل) پھر ایک سبب اور رہا۔ ہمارے ادیبوں کی تخلیقات کا عالمی زبان، یعنی انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوا۔ ہوا بھی، تو شاید وہ اتنا معیاری نہیں تھا۔ اور معیاری تھا بھی، تو بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر نہیں ہوئی۔ ہمیں انٹرویو دیتے ہوئے''باؤ وارث کی گمشدگی'' جیسے متاثر کن افسانے کے خالق، اخلاق احمد نے اس خواہش کا شدت سے اظہار کیا تھا کہ ہماری تخلیقات کا بھی دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو، تاکہ ہم اپنی حیثیت کا تعین کرسکیں۔ ہمارے خیال میں اگر کبھی ایسا ہوا تو ہم ''جنگ اور امن''، ''اے ٹیل آف ٹو سٹیز''، ''لیس مزربلز''، ''موبی ڈک'' اور ''تنہائی کے سو سال'' تک نہ بھی پہنچ پائیں، مگر خود کو شناخت ضرور کروالیں گے۔ جی ہاں، ہمارا ادب اتنا بودا نہیں، جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ ماڈلنگ کا کلیہ، ہماری لاعلمی کے باوجود اردو ادب کی تخلیق میں کارفرما رہا۔ یقین رکھیں، اردو ادب میں وہ قوت ہے، جو انگریزی میں ڈھلنے کے بعد قارئین کو متوجہ کرسکتی ہے۔ اپنی بات ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس ایک مضبوط دلیل ہے۔
دلیل: ذرا بپسی سدھوا، محسن حامد، محمد حنیف، کاملہ شمسی اور فاطمہ بھٹو کو ملنے والی عالمی شہرت اور اعزازت پر نظر کیجیے، پھر ان کی تخلیقات کا جائزہ لیں، اگر یہ کہانیاں اردو میں بیان کی گئی ہوتیں، تو کیا اتنا شہرہ ہوتا۔ یہ سوال بھی اہم کہ کیا یہ تخلیق کار کرشن چندر، عصمت اور شوکت صدیقی کے ہم پلہ؟ ان میں سے بیشتر اتنے کھرے اور منکسر المزاج ہیں کہ خود بھی اس سوال کا جواب نفی میں دیں گے۔ تو صاحب اردو ادیبوں میں صلاحت تھی، مگر اردو کی کمزور معیشت اور معروضی حالات نے ان کا کینوس محدود کردیا۔ ان کا آسمان تنگ ہوگیا۔ ان کی تخلیقی پرواز عالمی معیار تک پہنچی، تب بھی عالمی دنیا کے سامنے نہ جاسکی۔ سنتے ہیں، اکادمی ادبیات چند ناولوں کو انگریزی روپ دے رہا ہے۔ شاید ان میں ''بہاؤ'' بھی شامل۔ یہ احسن اقدام ہے، بس خواہش ہے، ان کی تشہیر بھی حقیقی معنوں میں کی جائے۔
بہار کی ہوا ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کی راہداریوں سے گزرتی، توکچھ دیر ٹھہر کر طلبا کی باتیں سنتی، خیالات پڑھتی، اور آگے بڑھ جاتی۔ اس حسین شام۔۔۔ میں نے بھی اس ہوا کو محسوس کیا تھا، سورج کی کرنوں کو جھاڑیوں میں سلگتے دیکھا تھا، اور پنچھیوں کے گیت سنے تھے کہ میں بھی اس منظر کا حصہ تھا۔کراچی یونیورسٹی کے ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ میں اردو اور انگریزی؛ دنوں زبانوں کا نصاب رائج۔ اردو کے طلبا کی اکثریت ہوتی ہے۔ گو پرائیویٹ چینلز کو آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا، مگر دو انگریزی چینلز کے ناکام تجربے ہمارے سامنے تھے، اردو اخبارات کی سرکولیشن اور کالم نگاروں کی اثر پذیری بھی ہمیںمتاثر کرتی۔ سو اردو کا انتخاب فطری ٹھہرا۔ وہاں جو اساتذہ میسر تھے۔
ان میں محترمہ شاہدہ قاضی بھی شامل، جامعہ کراچی سے صحافت میں ماسٹرز کرنے والی پہلی طالبہ، پرنٹ میڈیا کی اولین خاتون رپورٹر، پی ٹی وی کی پہلی خاتون نیوز پروڈیوسر، اور میرے لیے بااختیار پاکستانی عورت کی روشن مثال۔۔۔ تو اس شام کوئی سوال لیے ان تک پہنچے۔ دوران گفتگو اردو اور انگریزی جرنلزم کا موضوع نکل آیا۔ ان کا موقف تھا؛ ہمیں یہ مضمون انگریزی میں پڑھنا چاہیے کہ عالمی میڈیا میں انگریزی رائج، اس زبان پر گرفت روزگار کے امکانات بڑھا دیتی ہے، پھر صحافی کا کینوس بھی وسیع ہوتا ہے۔ عملی صحافت میں قدم رکھنے کے بعد، جس سے پہلے بے روزگاری کے ڈیڑھ برس ہیں، پروفیسر شاہدہ قاضی کے موقف کی اہمیت ہم پر آشکار ہوئی۔ تین انکشافات ہوئے۔
''پہلا انکشاف'': چینلز کی بڑھتی تعداد، نئے نئے اخبارات اور ویب سائٹس کے باوجود اردو صحافت امکانات کے معاملے میں انگریزی صحافت کے روبرو ایک چھوٹا میدان ہے۔''دوسرا انکشاف'': معیاری اردو صحافت کے لیے بھی انگریزی کی شدبد ضروری کہ عالمی دنیا کی خبر یں انگریزی ہی میں صحافی تک پہنچتی ہیں۔''تیسرا انکشاف'': انگریزی تو چھوڑیے، ہمارا صحافی اردو سے بھی نابلد۔ آج میڈیا میں اردو کی جو درگت بن رہی ہے، وہ اس کا منہ بولتا ثبوت۔۔۔ دوستو، اب میں گزشتہ کالم ''عشاق اردو سے معذرت کے ساتھ'' کی بحث کو نکات کی صورت پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔
پہلا نکتہ: اردو کی معیشت کمزور ہے۔ ذرایع روزگار میں اس کی حیثیت ثانوی۔ یہاں تک کہ اردو صحافت، جو کلی طور پر اردو کے ستون پر کھڑی نظر آتی ہے، اسے بھی ہمہ وقت انگریزی سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔ ''دوسرا نکتہ'': ترقی اور تبدیلی میں کلید کی حیثیت رکھنے والے پاکستان کے متوسط طبقے کو انگریزی سے متعلق عملی زندگی میں احساس کمتری کا سامنا رہتا ہے۔
اس کا ایک سبب تو ہماری تاریخ۔ ہم عشروں تک انگریزوں کے غلام رہے، آزدی کے بعد بھی ان ہی کے نظام اور فکر کی ترویج کی۔ پھر ایک بڑی وجہ ہمارے سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی اور نجی تعلیم کا بیوپار بننا بھی ہے۔ ''تیسرا نکتہ'': انگریزی رابطے کے ساتھ علوم کی بھی زبان۔ اس کی وسعت، قوت اور اثر پذیری سے انکار دراصل اسی احساس کمتری کی توسیع ہے، جس میں ہم مبتلا۔ ''چوتھا نکتہ'': اردو اور انگریزی؛ دونوں زبانوں کو بوسیدہ نصابی کتابوں سے نکل کر، جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے عملی انداز میں پڑھایا جائے۔ ان مضامین کو، ان کے اساتذہ اور طلبا کو سماج میں اہمیت دی جائے۔ اشرافیہ کی فکر تبدیل ہو۔۔۔ اس کالم کے آخر میں ہم نے تین سوال اٹھائے تھے۔ کیا اردو ادب عالمی دنیا سے پیچھے رہ گیا؟ کیا ہمارا ادیب حقیقی عالمی شہ پارہ تخلیق نہیں کرسکا؟ کیا اس میں صلاحیت کی کمی ہے؟ پہلے دو سوالوں کا جواب تو ہاں میں ہے۔
عالمی منظر میں اردو ادب حاشیہ پر بھی نہیں کہ ہمارے ادیبوں کے فن پارے عالمی ادبی فہرستوں میں جگہ نہیں پاسکے۔ البتہ یہ جو تیسرا سوال ہے؛ کیا ہمارے ادیبوں میں صلاحیت کی کمی ہے، اس کا جواب نہ میں ہے۔ جی، اگر ان میں لگن اور صلاحیت کا فقدان ہوتا، تو کیا نامساعد حالات، اس بے قیمتی اور گرانی میں ادب تخلیق کرپاتے۔ دراصل ایک بڑی دیوار ان کی صلاحیتوں کے آڑتے آگئی۔شاید آپ نے نامور لائف کوچ، ٹونی رابنز کی کتابیں پڑھی ہوں۔ ان میں بار بار ماڈلنگ کا تذکرہ آتا ہے۔ یعنی اگرکسی ادارے یا شخص نے کسی شعبے میں ایک خاص فکر اور مخصوص اقدامات کے ساتھ ترقی کی ہے، تو اس کے طریقۂ کار کو اپنا کر، اس کے ماڈل کو سامنے رکھ کر دوسرا شخص بھی اس شعبے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
Neuro-linguistic programming میں ماڈلنگ کا استعمال سائنسی بنیادوں پر تسلیم شدہ، اور دنیا بھر میں رائج۔۔۔ اب اس تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا غور کیجیے۔ ہمارے ادیبوں نے جم کر وکٹر ہیوگو، ڈکنز، مارک ٹوئن، ٹالسٹائی، دوستو فسکی، جین آسٹن اور او ہنری کو پڑھا۔ ان کے اسلوب کو سمجھا، حالات زیست اور افکار سے واقفیت حاصل کی، اور ان کا ترجمہ کرکے ان زمینوں تک رسائی حاصل کرلی، جہاں عظیم فن پاروں کے بیج گرے تھے۔۔۔ ہمارے یہ ادیب خود بھی نابغۂ روزگار تھے، اور انھیں جنگ، غلامی، سیاسی تحاریک، ہجرت اور غربت سمیت ادب کے تمام اہم موضوعات میسر تھے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ منٹو، بیدی، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، انور سجاد، عبداللہ حسین، اسد محمد خاں، نیر مسعود، حسن منظر، مستنصر حسین تارڑ، محمد حمید شاہد، مرزا اطہر بیگ حقیقی فن پارہ تخلیق نہ کرسکے ہوں؟بے شک انھوں نے اچھا ادب تخلیق کیا، مگر اردو کی کمزور معیشت آڑے آگئی۔ ناخواندگی اور غربت سے جوجھتے عوام، اشرافیہ کی اردو سے شعوری دوری، حکومتی غفلت، ادیب کبھی رائے عامہ کے نمایندے نہیں بن سکے۔ وہ اہمیت حاصل نہ کرسکے۔
جو باقی دنیا میں ادیبوں کو حاصل ہوئی (اقبال اور فیض جیسی مثالیں قلیل) پھر ایک سبب اور رہا۔ ہمارے ادیبوں کی تخلیقات کا عالمی زبان، یعنی انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوا۔ ہوا بھی، تو شاید وہ اتنا معیاری نہیں تھا۔ اور معیاری تھا بھی، تو بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر نہیں ہوئی۔ ہمیں انٹرویو دیتے ہوئے''باؤ وارث کی گمشدگی'' جیسے متاثر کن افسانے کے خالق، اخلاق احمد نے اس خواہش کا شدت سے اظہار کیا تھا کہ ہماری تخلیقات کا بھی دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو، تاکہ ہم اپنی حیثیت کا تعین کرسکیں۔ ہمارے خیال میں اگر کبھی ایسا ہوا تو ہم ''جنگ اور امن''، ''اے ٹیل آف ٹو سٹیز''، ''لیس مزربلز''، ''موبی ڈک'' اور ''تنہائی کے سو سال'' تک نہ بھی پہنچ پائیں، مگر خود کو شناخت ضرور کروالیں گے۔ جی ہاں، ہمارا ادب اتنا بودا نہیں، جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ ماڈلنگ کا کلیہ، ہماری لاعلمی کے باوجود اردو ادب کی تخلیق میں کارفرما رہا۔ یقین رکھیں، اردو ادب میں وہ قوت ہے، جو انگریزی میں ڈھلنے کے بعد قارئین کو متوجہ کرسکتی ہے۔ اپنی بات ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس ایک مضبوط دلیل ہے۔
دلیل: ذرا بپسی سدھوا، محسن حامد، محمد حنیف، کاملہ شمسی اور فاطمہ بھٹو کو ملنے والی عالمی شہرت اور اعزازت پر نظر کیجیے، پھر ان کی تخلیقات کا جائزہ لیں، اگر یہ کہانیاں اردو میں بیان کی گئی ہوتیں، تو کیا اتنا شہرہ ہوتا۔ یہ سوال بھی اہم کہ کیا یہ تخلیق کار کرشن چندر، عصمت اور شوکت صدیقی کے ہم پلہ؟ ان میں سے بیشتر اتنے کھرے اور منکسر المزاج ہیں کہ خود بھی اس سوال کا جواب نفی میں دیں گے۔ تو صاحب اردو ادیبوں میں صلاحت تھی، مگر اردو کی کمزور معیشت اور معروضی حالات نے ان کا کینوس محدود کردیا۔ ان کا آسمان تنگ ہوگیا۔ ان کی تخلیقی پرواز عالمی معیار تک پہنچی، تب بھی عالمی دنیا کے سامنے نہ جاسکی۔ سنتے ہیں، اکادمی ادبیات چند ناولوں کو انگریزی روپ دے رہا ہے۔ شاید ان میں ''بہاؤ'' بھی شامل۔ یہ احسن اقدام ہے، بس خواہش ہے، ان کی تشہیر بھی حقیقی معنوں میں کی جائے۔