سیاست میں سیاسی دشمنی کیوں
عمران خان آج کل خود کو ملک کی بہت بڑی عدالت کے چیف جسٹس سمجھ کر فیصلہ دے چکے ہیں
پیپلز پارٹی کے ایک سینئر اور صوبائی مشیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اور عمران خان میں قوت برداشت نہیں ہے جب کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو حکومت چلانا آتی ہے اور نہ عمران خان کو سیاست جب کہ وزیر اعظم کو حکومت کرنا آصف زرداری سے سیکھنی چاہیے۔ عمران خان نے آصف زرداری کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو خود کرپٹ ہو وہ حکمرانوں کی مبینہ کرپشن کی مخالفت کیسے کرے گا۔
عمران خان آج کل خود کو ملک کی بہت بڑی عدالت کے چیف جسٹس سمجھ کر فیصلہ دے چکے ہیں کہ حکمران مجرم ہیں اور وہ استعفیٰ دیں یا تلاشی دیں۔ عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری بھی متعدد بارحکمرانوں اور ان کے ساتھیوں کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا اصل ملزم قرار دے چکے ہیں اور حکومت کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں تھے اور نہ اب ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد نے تو مسلم لیگ ن کی سیاسی مخالفت کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کر رکھا ہے اور انھیں ہر چیز میں حکومت کی نااہلی نظر آتی ہے اور شیخ رشید تو وزیر اعظم کے جانی دشمن بنے ہوئے اوراس دشمنی میں یہ دونوں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور قومی مفاد کو ذاتی مفاد کے لیے نظرانداز کردیتے ہیں اور اپنے انتہائی اقدام کا انجام نہیں سوچتے کہ کیا ہوسکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ سیاست میں آج کے دوست کل کے مخالف ہوسکتے ہیں اور ان کی سیاست ذاتی دشمنی میں بدل جاتی ہے جو نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہمارے ملک میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرلینا معمول بنا ہوا ہے اور ذاتی مفاد پر نظریہ اور قومی مفاد اب ترجیح نہیں رہا۔ دیرینہ سیاستدانوں میں بہت کم ایسے سیاستدان ملیں گے جو گزشتہ چار پانچ عشروں سے اپنی دیرینہ پارٹی ہی میں موجود ہیں ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کسی نظریے اور اصول پر نہیں بلکہ آیندہ حاصل ہونے والے سیاسی مفاد کے باعث اپنی پارٹی میں رہنے پر مجبور ہیں اور انھیں دوسری پارٹی میں جاکر مفاد کا حصول نظر نہیں آتا وگرنہ وہ وہاں جانے میں دیر نہ لگائیں۔
پیپلز پارٹی کے قیام تک ملک میں زیادہ تر مسلم لیگ کی مختلف گروپوں کے نام سے حکومت رہی اور اب تک آمروں نے بھی اقتدار میں آکر مسلم لیگ ہی کو گھر کی لونڈی سمجھا جب کہ مسلم لیگ کی حیثیت ایک ماں کی سی ہے جس نے بابائے قوم قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان حاصل کیا تھا مگر قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم کو زندگی نے مہلت نہ دی اور مسلم لیگ کیا بیوہ ہوئی پاکستان یتیم ہوگیا۔ سب سے پہلے جنرل ایوب نے مسلم لیگ کنونشن قائم کرائی جس کے لیے بھٹو مرحوم کے لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایوب خان کو مشورہ دیا تھا کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو کنونشن مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری بنادیا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے علیحدگی کے بعد پیپلزپارٹی بنالی تھی جو اب تک چار بار اقتدار میں رہی اور مسلم لیگ بھی آمروں کی ضرورت تھی اور طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والے آمروں ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف نے مسلم لیگ فعال کرائی اور حکومت کی۔ گزشتہ پانچ عشروں سے سیاستدانوں نے اپنے گھروں میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے پرچم بنوا کر رکھے ہوئے تھے اور جب چاہا سیاسی وفاداری بدلی اور اپنے بنگلے پر لگا کر پرچم تبدیل کرلیا۔
پچاس سالوں میں مسلم لیگ مختلف ناموں سے اور پیپلز پارٹی بھٹو کے نام پر اقتدار میں آتی رہی اور دونوں پارٹیوں میں اکثریت ان کی ہے جو دونوں پارٹیوں میں رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو خود مسلم لیگی تھے نواز شریف تحریک استقلال سے سیاست میں آئے جب کہ عمران خان جو اب تیسری سیاسی قوت ہیں بیس سالوں سے سیاست کرتے رہے اور چند سال قبل تحریک انصاف کو مقبول بنا سکے جس میں آج بھی اکثریت مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی چھوڑ کر آنے والوں کی ہے اور عمران خان ان ہی لوگوں کی بدولت نئے پاکستان کا خواب دیکھ رہے ہیں جو اپنے اصلی پاکستان میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور قائد اعظم کا پاکستان دولخت ہوکر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں فائدہ اٹھا کر اب تحریک انصاف کے موجودہ رہنماؤں کی سیاسی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے خود کو بڑا اصول پرست قرار دیتے ہوئے مشرف دور میں ججز کی بحالی کی تحریک میں بڑی مقبولیت حاصل کی اور افتخار محمد چوہدری کی گاڑی بھی ڈرائیو کرتے تھے اور ان کے قائد آصف علی زرداری نے اقتدار ملنے پر ججوں کی بحالی کا اعلان کیا تھا مگر صدر منتخب ہونے کے بعد اپنا تحریری معاہدہ تک بھول گئے بلکہ منحرف ہوگئے جس پر نواز شریف نے پی پی حکومت سے الحاق ختم کردیا مگر نواز شریف کے سابق وکیل چوہدری اعتزاز بھی اپنی تحریک کا مقصد بھول گئے اور نواز شریف کے لانگ مارچ کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے ججز بحال ہوئے اور اعتزاز چوہدری کو آصف زرداری سے سینیٹر بننے کا آسرا تھا اس لیے وہ سپریم کورٹ میں پی پی حکومت کے وکیل بن گئے اور اپنے اعلان کے برعکس چیف جسٹس افتخار چوہدری کے سامنے بھی پیش ہوئے اور اب نہ جانے پی پی پالیسی کے برعکس نواز شریف کے شدید مخالف بن کر عمران خان کی حمایت کرکے ان کے قریب جانے کے لیے کوشاں ہیں۔
عمران خان ماضی میں نواز شریف کو غیر مہذب انداز میں مخاطب کرتے رہے اور متعدد سرکاری اداروں کے سربراہوں کے جلسوں میں یہی رویہ رکھتے اور اپنے مخالفین کو دھمکیاں دیتے رہے اور اب انھوں نے پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ کو بنیاد بناکر وزیر اعظم کے خلاف نیا محاذ کھول لیا ہے جب کہ جس جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی عمران خان نے حمایت کی تھی جنھوں نے نواز شریف کو ہٹا کر حکومت سنبھالی تھی وہی پرویز مشرف بیرون ملک بیٹھ کر قرار دے چکے ہیں کہ وہ نواز شریف کے مخالف ضرور ہیں مگر ملک کے لیے نوازشریف کو سکیورٹی رسک نہیں سمجھتے۔
عمران خان نے سیاسی مخالفت میں پہلے متحدہ اور اس کے قائد کی شدید مخالفت کی اور لندن تک گئے مگر کراچی میں جلسے کرنے کے لیے متحدہ کو راضی کیا اور جلسوں میں متحدہ اور الطاف حسین کے خلاف لب نہیں کھول سکے۔ پانامہ لیکس کی حمایت کے حصول کے لیے عمران خان نے کرپشن کے خلاف پی ٹی آئی کی ریلی میں شرکت نہیں کی مگر آصف زرداری کا ساتھ نہ دینے پر اب آصف زرداری کو کرپٹ قرار دے رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی پر شدید تنقید کے بعد ذاتی حملہ کرنے لگے ہیں۔ پی پی رہنما بلاول زرداری نے کشمیر الیکشن میں نواز شریف کو نریندر مودی کا یار اور غدار بنایا اور اب کہہ رہے ہیں کہ میں نے وزیر اعظم نواز شریف کو غدار نہیں کہا اور انکل الطاف سیاسی حقیقت ہیں۔
سیاست کو سیاسی دشمنی بنانے کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بھٹو مرحوم نے اپنے مخالف سیاستدانوں کے نام بگاڑے تھے مگر عمران خان نے سیاست میں اخلاق کا جنازہ ہی نکال کر رکھ دیا ہے جس پر ان کے حامی تالیاں بجاتے اور مخالف شدید تنقید کرتے کرتے عمران خان کے ماضی کو اچھال رہے ہیں اور دونوں طرف سے سیاست ذاتیات پر آگئی ہے جو کسی بھی طرح ملک کی سیاست کے مفاد میں نہیں۔ سیاست میں اتنا گند تو غیر جمہوری حکومتوں میں بھی نہیں تھا جو سیاسی دور میں سیاستدانوں نے پھیلا دیا ہے جو نقصان دہ ثابت ہوگا۔