ابرا ہیم جلیس شہید صحافت

یہ وقت ان کی زندگی کے سب سے بڑے مصائب اور آمریت کی آزمائش کا دور تھا

آج جب ہم سب فن صحافت کی اخلاقی تنزلی اس کے معیار و گراوٹ یا اس کی اچھائی برائی کے پیمانے پر سیر حاصل بحث میں مبتلا ہیں تو ایسے میں ہمیں اپنے ان صحافتی ستونوں کے کردار پر نظر ڈالنے کی اشد ضرورت ہے جنھوں نے اپنے خون جگر سے صحافت کے روشن چراغ جلائے انھی روشن چراغوں میں سے ایک چمکتا مینارہ ابراہیم جلیس کا نا م ہے جنھیں ہم اس مہینے یوں بھی یاد کرتے ہیں کہ ہم سے جدا ہوئے ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ایسے کتنے لوگ ہیں جو ان کی زندگی کے نشیب و فراز ، ذہانت و بلا غت اور ان کی لیاقت و جرأت کو جانتے ہیں، پاکستانی صحافت کا وہ درخشاں باب جو نئے آنے والوں کے لیے قابل تقلید ہے ہمیں اپنے ان ہیروز کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔

ہمارے پیشۂ صحافت کے یہ شہسوار ابراہیم حسین 22اگست1924ء کو برٹش ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہو ئے ابتدا ئی تعلیم مدرسہ میں حا صل کی ان کے چھوٹے بھا ئی مجتبیٰ حسین اپنی بچپن کی یادوں کو ٹٹو لتے ہو ئے لکھتے ہیں کہ ''بڑے بھائی کا محبوب مشغلہ ہم بچوں کو بھوتوں کی کہانیاں سنا کر ڈرانا تھا وہ اپنے زرخیز ذہن سے ایسی ایسی کہانیاں گھڑتے جو پھر میں نے کبھی نہیں پڑھی یہ ان کی فطری افسانہ نگاری کا آغاز تھا ،، بچوں کے ایک رسالے'' سب رس،، میں کہانیاں ابراہیم جلیس کے دوران اسکول شا یع ہونے لگی تھی انھوں نے انٹر کالج حیدرآباد سے کیا، وہ مزید تعلیم حا صل کر نے کی خاطر علی گڑھ یونیوسٹی گئے، 1942ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔

والد کی خواہش تھی کہ سول سروس کا امتحان دیں اور کسی بڑی پوسٹ پر تعینات ہو جائیں لیکن جلیس صاحب کا رحجان ادب و صحافت کی جانب راغب تھا وہ با قاعدگی سے اس دور کے دو ادبی رسالے ساقی اور نگار میں افسانہ لکھنے لگے تھے 1942ء میں ان کا افسانوی مجموعہ'' زرد چہرے،، کے عنوان سے شایع ہو ا پورے ہندوستان میں ان کی افسانہ نگا ری کے چرچے ہونے لگے۔ وہ ایک صحت مند اور روشن دماغ رکھتے تھے انھیں بہت کم عمری یعنی بیس سال میں ایسی شہرت حا صل ہو ئی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہو تی ہے بقول ان کے بھائی '' جب ابرہیم جلیس نے اپنے افسا نوی مجموعہ کی ایک کا پی والد صاحب کی خدمت میں پیش کر رہے تھے تو ان کی نظریں جھکی ہو ئی تھیں جیسے انھیں سول سروس کا امتحان نہ کرپانے کا ملال ہو اور والد نے بھی اپنی خواہش چپ چاپ وا پس لے لی ،،ابراہیم حسین نے ابرہیم جلیس کے نام سے لکھنے کا آغاز کیا ۔

کچھ عرصے ریڈیو حیدرآباد میں اسکرپٹ بھی لکھا اسی دوران1946 ء میں وہ اپنے دوست سا حر لد ھیانوی اور حمید اختر کے کہنے پر بمبئی کی فلمی دنیا میں قسمت آزما ئی کے لیے گئے جہاں سا حر لدھیانوی کے ساتھ بمبئی کی خاک چھا نی مگر ناکام ہو کر جلد واپس آگئے اورمقامی رسالوں اور اخباروں میں لکھتے رہے۔ 1948ء میں ہندوستانی فوج نے پو لیس ایکشن کے نام پر حیدرآباد میںآپریشن شروع کیا اور محب وطن لو گوں کی گر فتا ریا ں ہو نے لگیں تو ابراہیم جلیس پاکستان روانہ ہو گئے ۔ ان کی شہرت پاکستان میں پہنچ چکی تھی ۔

نوزائیدہ پا کستان میں صحافت وادب کا حال کچھ اچھا نہ تھا اس لیے وہ بھی مالی پریشانیوں میں گھرے رہے ۔ ابراہیم جلیس نے ابتداء میں لا ہور میں قیام کیا ، روز نامہ امروز میں ادارتی عملے میں شامل رہے یہیں ان کی انقلابی سوچ پروان چڑھی ، لاہور سے پھر ڈھائی برس بعد کر اچی آگئے اور ''امروز'' کو فعال بنانے کی تگ ودو میں لگ گئے ، اپنے سنیئرز کا احترام کس قدر عزیز تھا اس کی مثال ان کی تحریر سے لگا یا جا سکتا ہے جو انھوں نے اپنی کتاب'' اوپر شیروانی اندر پریشانی،، میں لکھی ہے ۔


کہتے ہیں کہ '' روزنامہ ا مروز میںسب ایڈیٹر ملازم ہو ئے تو ایک دن ہمارے مدیر اعلیٰ اور فکا ہی کالم نو یسوں کے شہنشاہ مو لانا چراغ حسن حسرت نے ہماری ایک تحریر سے خوش ہو کر اپنا وہ فا ؤٹین پین جس سے وہ ''حرف شکا یت،، کا مشہورفکا ہی کالم لکھا کرتے تھے ہمیں انعام میں دیا ۔ مولانا حسرت کی موجودگی میں ہمارا فکا ہی کالم لکھنا سوئے ادب کے مترادف تھا اس لیے ہم نے اس تحفے کو مدتوں سچ مچ سینے سے لگا ئے رکھا ۔ پھر جب فلک کج رفتار نے مولانا حسرت کا سایہ ہمارے سر سے چھین لیا اورجا ئے استاد خالی ہو گئی تو ہم بھی فکا ہی کالم کے میدان میں کود پڑے ۔ ہم نے بھی مولانا حسرت کی کالم نو یسی کے ما ہتاب کے آگے اپنی کالم نو یسی کی ایک ننھی سی شمع جلا رکھی ہے۔ '' با ادب با نصیب ابرہیم جلیس صاحب دنیاوی قا بلیت اور مر تبے کے لحاظ سے کامیاب نہ بھی سمجھے جائیں لیکن ایک ر وشن خیال ، ذہین اور خرد افروز اخبار نویس کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھیں جا ئیں گے۔

ان کی پہلی کتاب ''چا لیس کروڑ بھکاری ''تھی جس کے بعد دیگر کتابوں کا سلسلہ جن کے نام '' کچھ غم جاناں کچھ غم دوراں، تکونا دیس ، نئی دیوار چین ، دو ملک ایک کہانی ، میں مر نہیں سکتا ، ترنگے کی چھا ؤں ، پا کستان کب بنے گا، اجالے سے پہلے ، اوپر شیروانی اندر پر یشانی ، پبلک سیفٹی ریزر، نیکی کر تھانے جا، شگفہ شگفتہ، رشتہ، ہنسے اور پھنسے، جیل کے دن جیل کی راتیں اور الٹی قبر ہیں ۔ اپنی کتاب شگفتہ شگفتہ میں اپنی خوا ہش کا اظہار کرتے لکھتے ہیں کہ'' میں ایسی کتابیں لکھنا چاہتا ہوں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ سے لے کر کم پڑھے لکھے سب پڑھ سمجھ سکیں جنھیں پڑھ کر اداس دلوں پر چھا ئی اداسی پر مسکراہٹ کے پھول کھل سکیں اس کے لیئے مجھے اس با ت کی کو ئی پروا نہیں کہ میری تحریریں ادب عا لیہ میں او نچا مقام حا صل نہ کر سکیں اس دنیا میں روتی ہو ئی آنکھوں سے آ نسو ؤں کے جگہ مسکرا ہٹ بکھیرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔''

اس عہد کو تادم مرگ نبھا تے رہے ۔ ان کی تحریریں غیر معمولی بصیرت و مزاح کا ایک حسین سنگم ہے ۔ کچھ عرصہ انھوں نے امروز میں بھی ادارت کے فرائض انجام دیے جہاں ان کے سا تھیوں میں احمد ندیم قاسمی اور ابن انشاء جیسے جید لکھنے والے شا مل تھے ۔ روزنامہ ''انجام'' اور''عوامی عدالت'' سے وا بستہ رہے ، عوامی عدالت ان کا اپنا معیاری رسالہ تھا، ایک بار خوشگوار موڈ میں تھے ، اپنے ساتھی صحافی سے کہنے لگے میرے اس جریدہ کی پیشانی پر جو سلوگن ہے وہ سب سے زیادہچھپنے والاہ نہین بلکہ سب سے زیادہ ُچھپنے والا جریدہ ہے۔

جلیس مرحوم ایک بڑے اردو روزنامے میں ''وغیرہ وغیرہ،، کے نام سے بھی کالم لکھتے رہے ان کے لاجواب کالم مزاح اور ہلکے پھلکے طنز کی کاٹ کے ساتھ قاری کو محظوظ کرتے تھے ۔

آخر وقت میں وہ روزنامہ مساوات کے مدیر تھے ، یہ وقت ان کی زندگی کے سب سے بڑے مصائب اور آمریت کی آزمائش کا دور تھا ، زخموں کی کو ئی ایسی شکل نہ تھی جو انھوں نے نہ سہی ہو ، ان دنوں سخت دبا ؤ کا شکار تھے اور پھر ایک دن جب وہ مساوات کے دفتر میں تھے ان پر فالج کا حملہ ہوا جناح اسپتال لا ئے گئے مگر جانبر نہ ہو سکے اور 26 اکتوبر 1977ء کو ان کا انتقال ہو گیا ان کے انتقال پر پورے ملک کی صحافی برادری سوگوار ہو گئی سوگ کے طور پر ایک دن اخبارات کی اشاعت بند رہی صحافیوں نے انھیںشہید صحا فت کا خطاب دیا ۔ 1989ء میں حکومت پاکستان نے ان کی ادبی و صحافی خدمات کو سراہتے ہو ئے تمغہ حسن کا رکردگی کے ایوارڈ سے نوازا ۔ ابرہیم جلیس ایک ترقی پسندادیب تھے ۔

ہمیشہ اپنے نظریئے اور سچائی پر ڈٹے رہنے وا لے بہادر انسان جنھوںنے کبھی باطل قوتوںکے سامنے ہار نہیں مانی ۔ پیسے کی طا قت یہ ہے کہ وہ لبھا سکتا ہے اور انسان کی خوبی یہ ہے کہ وہ ٹھکرا سکتا ہے ۔ جو ادیب آزمائش کی گھڑی میںکوئی وا ضح موقف اختیار نہیں کرتا اور صرف اپنے آقاؤں کے سامنے دم ہلانے کو کا فی سمجھتا ہے وہ ادیب نہیں کچھ اور ہے ۔ ابراہیم جلیس کونظریاتی ، ثقافتی اور سیاسی کسی قسم کا جبر قبول نہ تھا ، ہر طرح کی نمود و نما ئش سے دور صحافتی اخلاق و شائستگی سے اپنے کام میں مگن رہے ۔آئیے ہم بھی اس شہید صحافت کی زندگی کو نصب العین بنا لیں ۔
Load Next Story