50برس قبل برطانوی کرکٹ سے طبقاتی تقسیم کیونکرختم ہوئی
اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی کمتر طبقوں کے کھلاڑیوں کوملازم سمجھتے.
برطانوی نظامِ کرکٹ میں طبقاتی تقسیم کی جڑیںاس قدر گہری تھیں کہ بیسویں صدی کا نصف گزرنے پرہی یہ ممکن ہوسکا کہ انگلینڈ کا کپتان وہ کھلاڑی بن سکے، جس کا طبقہ اشرافیہ سے تعلق نہ ہو اور تمام کھلاڑیوں کویکساں طور پر کرکٹرزکہے جانے کا مرحلہ تو مزید دس برس بعد آیا۔برطانوی کرکٹ طویل عرصہ دو طبقات میں بٹی رہی۔
طبقہ اشرافیہ سے متعلق کھلاڑی امیچورز یا جنٹلمین کہلاتے۔ کھیل کا معاوضہ وصول کرناان کے ہاں معیوب سمجھا جاتا۔ کھلاڑیوں کی دوسری قسم جو ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتی ،انھیں پروفیشنلز یا پلئیرزکہا جاتا۔جنٹلمین کرکٹرز، پروفیشنلز کو حقیر جانتے۔ انھیں ملازم سمجھتے۔ان کے واسطے ہوٹل کے کمرے الگ، ان کا کھانا پینا الگ۔پروفیشنلزکے نام کا صرف ابتدائی حصہ جو عام طور سے خاندانی نام پر مشتمل ہوتاہے(surname )جبکہ جنٹلمین کا پورا نام پکارا اور لکھا جاتا ، اور ناموںکے سلسلے میںیہ امتیاز اسکورکارڈ ، اسکور بکس ، اور تو اورکرکٹ کی بائبل'' وزڈن'' تک میں دکھائی دیتاہے۔کائونٹی کی کپتانی کسی نہلے جنٹلمین کو مل سکتی تھی مگرکوئی پروفیشنل خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، کپتان بننا اس کے لیے خواب ہی رہتا ، اس لیے کہ نام نہاد اشراف اپنے سے کمترطبقے کے فرد کا حکم کیونکر مان سکتے تھے۔
کرکٹ میں امیچورزکے شاہانہ مزاج کی عکاسی اس سے بھی ہوتی کہ ان کا بیٹنگ میںہی زیادہ جی لگتااور بولنگ کے سلسلے میں ان کا انحصار زیادہ تر پروفیشنلز پر ہوتا۔ بولنگ کرانے سے ان کی شان میں غالباً کسر آتی ہوگی۔ ڈبلیو جی گریس جن کا بجا طور پر کرکٹ میں بڑا نام اور مقام ہے، وہ موصوف بھی جنٹلمین تھے،اس دور میںان سے کہیں بہترکھلاڑی تھے لیکن پروفیشنل ہونے کی بنا پر وہ لائم لائٹ میں نہ آسکے۔جنٹلمین میچ کا معاوضہ وصول نہیں کرتے تھے مگر انھیں سفری اور رہائشی اخراجات کی مد میںپیسے لینے میں عار نہ تھی، بعض دفعہ ایسے بھی ہوا کہ اخراجات بڑھا چڑھا کر پیش کئے اور انتظامیہ سے خوب رقم وصول کی۔ اس ضمن میں1879ء میںایک تنازع نے جنم لیا تو ایم سی سی کو کمیٹی بنانا پڑی، جس نے اپنی رپورٹ میں یہ بات زور دیکر کہی کہ حقیقی جنٹلمین کرکٹروہی ہے،جو کھیل کا معاوضہ وصول نہ کرے۔
ڈبلیو جی گریس پربھی الزام لگا کہ انھوں نے بہت زیادہ اخراجات کا کلیم کرکے پیسے بٹورے۔اس واقعہ کے 94برس بعد1963 ء میںسرے کائونٹی کے پہلے پروفیشنل کپتان مکی اسٹیورٹ نے امیچورز کے بارے میں اپنے دل کا غبارنکالتے ہوئے کہا کہ یہ عجب ڈھونگ ہے کہ جنٹلمین اسپورٹس کے سازو سامان پراپنا نام دے کراور مضامین کے ذریعے سے پیسے کمائے تب بھی اس کا اسٹیٹس متاثر نہیں ہوتا۔جنٹلمین کو کپتان بنانے کے لیے طرح طرح کی دلیلیں تراشی جاتی تھیں، مثلاً،کبھی یہ کہا جاتاکہ وہ فکرِ روزگار سے آزاد ہوتا ہے، اس لیے زیادہ یکسوئی سے قیادت کا بار اٹھاسکتاہے، کبھی یہ منطق بیان کی جاتی کہ پروفیشنلزمیں سے اگر کسی کو یہ ذمہ داری دی جائے تو اسے ٹیم میں ڈسپلن قائم رکھنے کے سلسلے میں مشکل پڑ سکتی ہے اوراپنی کمزور پوزیشن (سماجی)کی وجہ سے وہ دوران کھیل خطرات مول لینے سے بھی گریز کرے گا۔
کس کھلاڑی کی ٹیم میں جگہ بنتی ہے اور کس کی نہیں، اس بابت بھی پروفیشنل، کمیٹی کو واضح طور اپنی رائے سے دینے میں تذبذب کا شکار رہے گا۔یہ سب نکتے اپنی جگہ لیکن بنیادی بات یہی تھی کہ جنٹلمین کبھی بھی ذہنی اعتبار سے ماتحت حیثیت میں کھیلنے پر راضی نہ ہوتے۔ان کے احساسِ برتری کا عالم تو یہ رہا کہ1928ء میں یارکشائر کے صدر لارڈ ہاک نے امید ظاہر کی کہ انگلینڈ کی کپتانی کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی امیچور موجود رہے گا، اور ساتھ میں اس نے خدا سے دعا بھی مانگی کہ پروفشنلز میں سے کوئی کبھی قومی ٹیم کا کپتان نہ بنے۔
1937ء میں ویلی ہیمنڈنے کائونٹی کرکٹ میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا توانھیں کپتان بنانے کے لیے آواز بلند ہونا شروع ہوئی مگر پروفیشنلز میںسے ہوناان کی راہ میں رکاوٹ بن گیا، مسئلے کا حل یوںنکالا گیاکہ ان کے لیے ملازمت کا انتظام کرکے انھیں پہلے جنٹلمین بنایا گیا، تب کہیں جاکر 1938ء میں کپتانی کا ہماان کے سر پربیٹھا ۔برطانوی کرکٹ کی اسٹیبلشمنٹ سالہا سال مختلف حیلوں سے اس بات کو یقینی بناتی رہی کہ پروفشنلز میں سے کوئی کپتان نہ بنے مگرایک نہ ایک دن تو اس کالے رواج نے ختم ہوناتھا، جس سے انصاف اور میرٹ کا خون ہورہا تھا، لہٰذا 1951ء میں فریڈی برائون کپتانی سے ہٹے توسلیکٹروں کولین ہٹن موزوں ترین امیدوار نظرآئے اور انھوں نے جرات دکھاتے ہوئے انھیں کپتان مقرر کردیا۔
پہلے تو لین ہٹن کو بھی ویلی ہیمنڈ کی طرح اپنی جون بدلنے یعنی پروفیشنل سے جنٹلمین بنانے کے لیے زور لگایا گیا مگر وہ مانے نہیں، ا س پروہ انگلینڈ کی تاریخ کے پہلے ایسے کپتان بن گئے جو اشرافیہ کے بجائے عام طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ 1952ء میں وہ انگلینڈ کے کپتان کی حیثیت سے پہلی بار میدان میں اترے۔کپتانی کی جنگ تو جنٹلمین ہار گئے ،مگرامیچور اسٹیٹس بچانے کی لڑائی وہ مزید دس سال لڑتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعدحالات میںتبدیلی آنے سے زیادہ تر افراد کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ صرف شوق کی خاطر کرکٹ سے جڑے رہیں،ایسے میں طبقوں میں بٹے اس نظام کی بنیاد میں تزلزل تو آیامگر اشرافیہ نام نہاد روایت بچانے میں لگی رہی۔1946ء میںگلمورگن کی طرف سے امیچور اسٹیٹس ختم کرنے کی پیش کردہ تجویز کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔
50ء کی دہائی کے آخرتک کھلاڑیوں کے دونوں طبقوں کے درمیان روا امتیازات دھیرے دھیرے ختم ہوتے گئے اور یہ بات اب ذرا زیادہ بلند آہنگ میں کہی جانے لگی کہ کھلاڑیوں کو دو خانوں میں بانٹے کے بجائے اب تمام کھلاڑیوں کو کرکٹرزہی کہا جائے، لیکن جن کے دماغ میں نام نہاد برتری کا خناس تھا، وہ اس پرابھی تیار نہ تھے۔اس مرحلے پرانھیں شاید اندازہ تو ہوگیاہوگا کہ اب کوئی دن کی بات ہے، ان کی مقتدر حیثیت باقی نہ رہے گی ، پر وہ نوشتہ دیوار پڑھنے سے انکاری تھے۔پروفیشنلز سے کائونٹی میچوں میں جو زیادتی ہوتی، اس کا غصہ وہ امیچورز سے ہونے والی سالانہ آپسی میچوں میں نکالتے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امیچورز میدان سے باہر ہی نہیں، اندر بھی پسپا ہو رہے تھے، دونوں کے درمیان سالانہ بنیادوں پرجو میچ ہوتے، ان میں 1946ء سے1962ء کے درمیان جنٹلمین اپنے مدمقابل سے تیس مقابلوں میں صرف دو بار ہی اپنی جیت سکے۔
دونوں کے درمیان 1806ء سے مقابلے شروع ہوئے اور ہر سال دو یا اس سے زائد بار ان کا مقابلہ ہوتا،1962ء تک مجموعی طور پر274 میچ کھیلے گئے، جن میں پلیئرزنے125بار جیت اپنے نام کی اور جنٹلمین 68 بار جیتے۔ 80میچ ڈرا اور ایک ٹائی ہوا۔ مئی1962 ء میںایڈوائزری کائونٹی کمیٹی نے ایم سی سی کو امیچور اسٹیٹس ختم کرنے کی تجویزبھیجی، جس کو 26 نومبر1962ء کو منظور کرلیا گیا،جس کے بعد تمام کھلاڑیوں کو بغیر کسی سماجی تعصب یا تفریق کے کرکٹرز کہا جانے لگا اور یوں کرکٹ کے گھر انگلینڈ سے سماجی عدم مساوات پر مبنی نظام کا جنازہ آخر نکل ہی گیا۔
طبقہ اشرافیہ سے متعلق کھلاڑی امیچورز یا جنٹلمین کہلاتے۔ کھیل کا معاوضہ وصول کرناان کے ہاں معیوب سمجھا جاتا۔ کھلاڑیوں کی دوسری قسم جو ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتی ،انھیں پروفیشنلز یا پلئیرزکہا جاتا۔جنٹلمین کرکٹرز، پروفیشنلز کو حقیر جانتے۔ انھیں ملازم سمجھتے۔ان کے واسطے ہوٹل کے کمرے الگ، ان کا کھانا پینا الگ۔پروفیشنلزکے نام کا صرف ابتدائی حصہ جو عام طور سے خاندانی نام پر مشتمل ہوتاہے(surname )جبکہ جنٹلمین کا پورا نام پکارا اور لکھا جاتا ، اور ناموںکے سلسلے میںیہ امتیاز اسکورکارڈ ، اسکور بکس ، اور تو اورکرکٹ کی بائبل'' وزڈن'' تک میں دکھائی دیتاہے۔کائونٹی کی کپتانی کسی نہلے جنٹلمین کو مل سکتی تھی مگرکوئی پروفیشنل خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، کپتان بننا اس کے لیے خواب ہی رہتا ، اس لیے کہ نام نہاد اشراف اپنے سے کمترطبقے کے فرد کا حکم کیونکر مان سکتے تھے۔
کرکٹ میں امیچورزکے شاہانہ مزاج کی عکاسی اس سے بھی ہوتی کہ ان کا بیٹنگ میںہی زیادہ جی لگتااور بولنگ کے سلسلے میں ان کا انحصار زیادہ تر پروفیشنلز پر ہوتا۔ بولنگ کرانے سے ان کی شان میں غالباً کسر آتی ہوگی۔ ڈبلیو جی گریس جن کا بجا طور پر کرکٹ میں بڑا نام اور مقام ہے، وہ موصوف بھی جنٹلمین تھے،اس دور میںان سے کہیں بہترکھلاڑی تھے لیکن پروفیشنل ہونے کی بنا پر وہ لائم لائٹ میں نہ آسکے۔جنٹلمین میچ کا معاوضہ وصول نہیں کرتے تھے مگر انھیں سفری اور رہائشی اخراجات کی مد میںپیسے لینے میں عار نہ تھی، بعض دفعہ ایسے بھی ہوا کہ اخراجات بڑھا چڑھا کر پیش کئے اور انتظامیہ سے خوب رقم وصول کی۔ اس ضمن میں1879ء میںایک تنازع نے جنم لیا تو ایم سی سی کو کمیٹی بنانا پڑی، جس نے اپنی رپورٹ میں یہ بات زور دیکر کہی کہ حقیقی جنٹلمین کرکٹروہی ہے،جو کھیل کا معاوضہ وصول نہ کرے۔
ڈبلیو جی گریس پربھی الزام لگا کہ انھوں نے بہت زیادہ اخراجات کا کلیم کرکے پیسے بٹورے۔اس واقعہ کے 94برس بعد1963 ء میںسرے کائونٹی کے پہلے پروفیشنل کپتان مکی اسٹیورٹ نے امیچورز کے بارے میں اپنے دل کا غبارنکالتے ہوئے کہا کہ یہ عجب ڈھونگ ہے کہ جنٹلمین اسپورٹس کے سازو سامان پراپنا نام دے کراور مضامین کے ذریعے سے پیسے کمائے تب بھی اس کا اسٹیٹس متاثر نہیں ہوتا۔جنٹلمین کو کپتان بنانے کے لیے طرح طرح کی دلیلیں تراشی جاتی تھیں، مثلاً،کبھی یہ کہا جاتاکہ وہ فکرِ روزگار سے آزاد ہوتا ہے، اس لیے زیادہ یکسوئی سے قیادت کا بار اٹھاسکتاہے، کبھی یہ منطق بیان کی جاتی کہ پروفیشنلزمیں سے اگر کسی کو یہ ذمہ داری دی جائے تو اسے ٹیم میں ڈسپلن قائم رکھنے کے سلسلے میں مشکل پڑ سکتی ہے اوراپنی کمزور پوزیشن (سماجی)کی وجہ سے وہ دوران کھیل خطرات مول لینے سے بھی گریز کرے گا۔
کس کھلاڑی کی ٹیم میں جگہ بنتی ہے اور کس کی نہیں، اس بابت بھی پروفیشنل، کمیٹی کو واضح طور اپنی رائے سے دینے میں تذبذب کا شکار رہے گا۔یہ سب نکتے اپنی جگہ لیکن بنیادی بات یہی تھی کہ جنٹلمین کبھی بھی ذہنی اعتبار سے ماتحت حیثیت میں کھیلنے پر راضی نہ ہوتے۔ان کے احساسِ برتری کا عالم تو یہ رہا کہ1928ء میں یارکشائر کے صدر لارڈ ہاک نے امید ظاہر کی کہ انگلینڈ کی کپتانی کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی امیچور موجود رہے گا، اور ساتھ میں اس نے خدا سے دعا بھی مانگی کہ پروفشنلز میں سے کوئی کبھی قومی ٹیم کا کپتان نہ بنے۔
1937ء میں ویلی ہیمنڈنے کائونٹی کرکٹ میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا توانھیں کپتان بنانے کے لیے آواز بلند ہونا شروع ہوئی مگر پروفیشنلز میںسے ہوناان کی راہ میں رکاوٹ بن گیا، مسئلے کا حل یوںنکالا گیاکہ ان کے لیے ملازمت کا انتظام کرکے انھیں پہلے جنٹلمین بنایا گیا، تب کہیں جاکر 1938ء میں کپتانی کا ہماان کے سر پربیٹھا ۔برطانوی کرکٹ کی اسٹیبلشمنٹ سالہا سال مختلف حیلوں سے اس بات کو یقینی بناتی رہی کہ پروفشنلز میں سے کوئی کپتان نہ بنے مگرایک نہ ایک دن تو اس کالے رواج نے ختم ہوناتھا، جس سے انصاف اور میرٹ کا خون ہورہا تھا، لہٰذا 1951ء میں فریڈی برائون کپتانی سے ہٹے توسلیکٹروں کولین ہٹن موزوں ترین امیدوار نظرآئے اور انھوں نے جرات دکھاتے ہوئے انھیں کپتان مقرر کردیا۔
پہلے تو لین ہٹن کو بھی ویلی ہیمنڈ کی طرح اپنی جون بدلنے یعنی پروفیشنل سے جنٹلمین بنانے کے لیے زور لگایا گیا مگر وہ مانے نہیں، ا س پروہ انگلینڈ کی تاریخ کے پہلے ایسے کپتان بن گئے جو اشرافیہ کے بجائے عام طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ 1952ء میں وہ انگلینڈ کے کپتان کی حیثیت سے پہلی بار میدان میں اترے۔کپتانی کی جنگ تو جنٹلمین ہار گئے ،مگرامیچور اسٹیٹس بچانے کی لڑائی وہ مزید دس سال لڑتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعدحالات میںتبدیلی آنے سے زیادہ تر افراد کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ صرف شوق کی خاطر کرکٹ سے جڑے رہیں،ایسے میں طبقوں میں بٹے اس نظام کی بنیاد میں تزلزل تو آیامگر اشرافیہ نام نہاد روایت بچانے میں لگی رہی۔1946ء میںگلمورگن کی طرف سے امیچور اسٹیٹس ختم کرنے کی پیش کردہ تجویز کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔
50ء کی دہائی کے آخرتک کھلاڑیوں کے دونوں طبقوں کے درمیان روا امتیازات دھیرے دھیرے ختم ہوتے گئے اور یہ بات اب ذرا زیادہ بلند آہنگ میں کہی جانے لگی کہ کھلاڑیوں کو دو خانوں میں بانٹے کے بجائے اب تمام کھلاڑیوں کو کرکٹرزہی کہا جائے، لیکن جن کے دماغ میں نام نہاد برتری کا خناس تھا، وہ اس پرابھی تیار نہ تھے۔اس مرحلے پرانھیں شاید اندازہ تو ہوگیاہوگا کہ اب کوئی دن کی بات ہے، ان کی مقتدر حیثیت باقی نہ رہے گی ، پر وہ نوشتہ دیوار پڑھنے سے انکاری تھے۔پروفیشنلز سے کائونٹی میچوں میں جو زیادتی ہوتی، اس کا غصہ وہ امیچورز سے ہونے والی سالانہ آپسی میچوں میں نکالتے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امیچورز میدان سے باہر ہی نہیں، اندر بھی پسپا ہو رہے تھے، دونوں کے درمیان سالانہ بنیادوں پرجو میچ ہوتے، ان میں 1946ء سے1962ء کے درمیان جنٹلمین اپنے مدمقابل سے تیس مقابلوں میں صرف دو بار ہی اپنی جیت سکے۔
دونوں کے درمیان 1806ء سے مقابلے شروع ہوئے اور ہر سال دو یا اس سے زائد بار ان کا مقابلہ ہوتا،1962ء تک مجموعی طور پر274 میچ کھیلے گئے، جن میں پلیئرزنے125بار جیت اپنے نام کی اور جنٹلمین 68 بار جیتے۔ 80میچ ڈرا اور ایک ٹائی ہوا۔ مئی1962 ء میںایڈوائزری کائونٹی کمیٹی نے ایم سی سی کو امیچور اسٹیٹس ختم کرنے کی تجویزبھیجی، جس کو 26 نومبر1962ء کو منظور کرلیا گیا،جس کے بعد تمام کھلاڑیوں کو بغیر کسی سماجی تعصب یا تفریق کے کرکٹرز کہا جانے لگا اور یوں کرکٹ کے گھر انگلینڈ سے سماجی عدم مساوات پر مبنی نظام کا جنازہ آخر نکل ہی گیا۔