پڑھو لکھو لیکن کیا اسکول کے بغیر

کسی میں تعلیمی شعور کوٹ کوٹ کر بھرا ہو لیکن حصول تعلیم کیلئے درسگاہ موجود نہ ہو تو ایسے فرد کا تعلیمی شعور کس کام کا؟

ستم بالائے ستم یہ کہ تعلیم کی ابتر صورتحال ایسے صوبے میں ہے جہاں تعلیمی انقلاب کے بلند و بانگ دعوے کرنے والی حکومت ہر سال سب سے زیادہ بجٹ تعلیم پر خرچ کررہی ہے۔ فوٹو: فائل

NUSA DUA/INDONESIA:
سوات کوہستان میں تعلیم و ترقی کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'ادارہ برائے تعلیم و ترقی' نے حال ہی میں سوات کوہستان میں تعلیمی مسائل پر ایک سروے رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ اتنی تشویشناک اور باعث ندامت ہے کہ میرا قلم بھی تحریر کرتے ہوئے جھرجھری محسوس کرتا ہے۔ سروے کے مطابق سوات کوہستان دیومالائی حسن کا مالک اور رقبے کے لحاظ سے پورے ضلع سوات کے نصف کے برابر ہے، اور 6 بڑی یونین کونسلز پر مشتمل ہے، لیکن اِس کے باوجود ''سوات کوہستان میں بچیوں کی شرح تعلیم صرف 2 فیصد ہے''۔

اِس بدترین صورتحال کو جاننے کے بعد آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور اُٹھ رہا ہوگا کہ آخر یہاں کے لوگوں نے 'کس جرم کی پائی ہے سزا؟' تو میں یہ کہتے ہوئے خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ یہ سب صرف اور صرف یہاں کے باشندوں کے ساتھ حکومتی بدنیتی ہے۔ مذکورہ سروے رپورٹ ہماری حکومتی کارکردگی عیاں کرتے ہوئے بتارہی ہے کہ
'بحرین تا کالام سوات کوہستان میں 15 گاؤں ہیں جن کی کل آبادی 90 ہزار سے زائد بنتی ہے، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہاں بچیوں کے لئے ایک بھی مڈل اسکول موجود نہیں۔ پورے سوات کوہستان میں بچیوں کے لئے صرف ایک ہی ہائی اسکول موجود ہے۔'

اب کوئی ذی شعور انسان خود سوچے کہ اگر یہ بچیاں تعلیم حاصل کرنا چاہیں بھی تو بھلا وہ کیسے حاصل کریں؟

ستم بالائے ستم یہ کہ صوبے میں تعلیمی انقلاب کے بلند و بانگ دعوے کرنے والی حکومت ہر سال سب سے زیادہ بجٹ تعلیم پر خرچ کررہی ہے۔ اسکول بائیومیٹرک سسٹم، مانیٹرنگ سسٹم، آگاہی مہمات اور اشتہارات پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں لیکن پھر بھی صورت حال جوں کی توں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صوبے میں اب بھی 20 لاکھ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ اگر کوئی ان سے جواب طلبی کی گستاخی کرتا ہے تو دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ہم نظام بنارہے ہیں اور تعلیمی شعور کی بیداری کے لئے ایسی مہمات اور اشتہارات کی ضرورت ناگزیر ہے۔

فرض کریں اگر میرے اندر تعلیمی شعور کوٹ کوٹ کر بھرا ہو لیکن تعلیم کے حصول کے لیے کوئی درسگاہ ہی موجود نہ ہو تو میرے اس شعور کو دوبارہ آرام سے سوجانے کے سوا کیا چارہ ہوگا؟ اور پھر نتیجہ ایسا ہی نکلے گا جیسا کہ سروے رپورٹ بیان کررہی ہے۔ حضرت جون ایلیا فرماتے ہیں،
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
آبلے پڑگئے ہیں کیا زبان میں؟

سوات کوہستان کی ان بچیوں کے حق میں بولنے کے لئے 'ادارہ برائے تعلیم و ترقی' نے تعلیمی شعور اجاگر کرنے والی مقامی تنظیم کے تعاون سے صوبے کے ہیڈ کوارٹر میں ایک ''تعلیمی جرگہ'' بلایا۔ جس میں تمام منتخب حکومتی نمائندوں، ماہرین تعلیم، علاقہ عمائدین اور سماجی کارکنوں کو مدعو کیا۔ حکومتی نمائندگی کے لیے سوات کوہستان سے منتخب ہونے والی ایک خاتون ممبر صوبائی اسمبلی سمیت تین رکن صوبائی اسمبلی اور ایک رکن قومی اسمبلی شامل ہوئے، جہاں اُن کو سوات کوہستان کی بچیوں کی فریاد سننے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اِس تقریب میں سوات کوہستان ہی سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی سید جعفرشاہ بھی موجود تھے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ صوبائی وزیر تعلیم بھی شرکت فرماتے تاکہ ان کے سامنے ساری رام کہانی سنائی جاسکتی۔ لیکن خیر اور بھی دکھ ہیں اس صوبے میں'تعلیم' کے سوا۔ وہ کسی اور دُکھ میں مبتلا ہونے کے باعث تشریف نہیں لاسکے۔




جرگہ کا باضابطہ آغاز ہوا تو سب سے پہلے سوات میں تعلیم کے فروغ کے لئے سرگرم نوجوان ڈاکٹر جواد احمد نے جرگے کے مقاصد اور سوات کوہستان میں تعلیمی صورت حال پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد سوات کوہستان سے آئے ہوئے عمائدین نے اپنے اپنے علاقوں کی تعلیمی کتھا ممبران اسمبلی کو سنائی۔



نہیں جانتا کہ عملی طور پر اِس جرگے کا کیا فائدہ ہوگا مگر جرگے کے دوران تو ماہرین تعلیم نے تعلیم کے فروغ کے لئے اپنی تجاویز پیش کی۔ ساتھ ساتھ سماجی کارکنوں نے بھرپور کردار ادا کرنے کا عزم کیا۔ ممبران اسمبلی نے بھی سوات کوہستان کی تشویشناک صورت حال کو اسمبلی فلور پر اٹھانے اور حکومتی توجہ مرکوز کرانے کی بھرپور یقین دہانی کرائی اور حکومتی نمائندوں کی جانب سے سوات کوہستان کے تعلیمی مسائل کے حل کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے کی امید دلائی گئی۔



ادارہ برائے تعلیم و ترقی کے سربراہ زبیر توروالی کا یہ جملہ ذہن میں محوگردش رہا کہ جس دوران وہ پروجیکٹر پر اپنی پریزینٹیشن پیش کررہے تھے تو آخر میں سوات کوہستان کی ایک خوبصورت تصویر بھی دکھائی، جس میں سرسبز بلندوبالا پہاڑوں پر سورج کی کرنیں چھائی ہوئی تھیں۔ انہوں نے منتخب نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کرنیں سورج کی بھی ہوسکتی ہے اور ''امید'' کی بھی!

اب میرے قلم سے لکھے گئے یہ الفاظ صرف فریاد بھی ہوسکتے ہیں اور حکمرانوں سے یہ اُمید بھی کہ سوات کوہستان کو ہارڈ ایریا تسلیم کرکے یہاں جنگی بنیادوں پر تعلیمی ادارے قائم کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story