ایک دلچسپ مماثلت
یہ محض اتفاق ہے کہ ان دنوں امریکا اور پاکستان کی سیاست میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آتا ہے
گزشتہ ایک برس کے دوران ہم نے پاکستان میں جمہوریت کے تحفظ اور لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے نام پر چلنے والی سیاسی مہم اور امریکی صدارتی امید وار مسٹر ٹرمپ کی تقریروں کے درمیان جو لسانی مماثلت دیکھی ہے، وہ حیران کن ہے۔
اب سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ امریکی صدارتی مہم کے دوران کسی امیدوار نے بدکلامی اور فحش گفتاری کی ان بلندیوں کو چھولیا ہو جس پر مسٹر ٹرمپ فائز ہوئے۔ انھوں نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرنے کا فیصلہ ابتدا سے کر لیا تھا۔ وہ اس وقت تک ایسی زبان اور لہجہ اپنائے ہوئے ہیں جس نے عام امریکی کو بھی شرمندہ کردیا ہے۔ خواتین کے بارے میں ان کے خیالات سن کر امریکی سکتے میں آگئے ہیں۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ انھوں نے بعض خواتین سے جو انتہائی نازیبا اور بے ہودہ رویہ اختیار کیا ان کی تفصیلات بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ اسی طرح ٹرمپ نے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ کر ووٹ حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
تمام سنجیدہ امریکیوں کی یہ رائے ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کو ایک مذہب سے جوڑ کر درحقیقت ان دہشت گردوں کو تقویت پہنچائی ہے جو اس مقصد کے لیے اسلام کو استعمال کررہے ہیں اور مسلمانوں کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ امریکا اور مغرب اسلام کے خلاف ہے۔ ان دنوں جس طرح پاکستان میں بعض سیاستدان ملک کے ہر مسئلے کی ذمے داری نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) پر عائد کرتے ہیں بالکل اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے ہر مسئلے کی ذمے داری صدر اوباما اور ہلیری کلنٹن کی جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی پر عائد کرکے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔
صدارتی مہم کے دوران ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ جے ٹرمپ کے دوران تین بڑے مباحثے ہوئے، آخری مباحثہ لاس ویگاس میں بدھ 18 اکتوبر کو منعقد ہوا۔ ان تینوں مباحثوں میں ہلیری کلنٹن کو اپنے حریف پر واضح سبقت حاصل ہوئی ہے۔ آخری مباحثے میں ہلیری کلنٹن قدرے مطمئن اور پُراعتماد نظر آئیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس مباحثے میں زیادہ جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور اپنے تاثر کو بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن اپنے متضاد موقف کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مثلاً ایک مرتبہ انھوں نے زوردار انداز میں یہ کہا کہ خواتین کے حوالے سے ان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے جارہے ہیں اور وہ خواتین کا ازحد احترا م کرتے ہیں لیکن چند ہی لمحوں بعد وہ کسی بات پر غصے میں آگئے اور انھوں نے ہلیری کو A Nasty Woman کہہ کر مخاطب کیا، جس سے ناظرین کو معلوم ہوگیا کہ وہ خواتین کا واقعی کتنا احترام کرتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ غیر قانونی تارکین وطن کو برا بھلا کہہ رہے تھے تو ہلیری کلنٹن نے کہا کہ غیر دستاویزی تارکین وطن تو ٹیکس ادا کرتے ہیں جب کہ ٹرمپ ٹیکس کی ادائیگی سے دامن بچاتے ہیں۔
تیسری دنیا کے جمہوری ملکوں میں وزیراعظم اور صدر بننے کے لیے جس طور ہر حربہ استعمال کرنا درست تصور کیا جاتا ہے بالکل اُسی طرح ان دنوں امریکا کی صدارتی مہم کے دوران دیکھنے میں آرہا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی طرز عمل سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم ہندوستان یا پاکستان کے کسی رہنماکو انتخابات لڑتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
صدر اوباما نے چونکہ موسمیاتی تبدیلی کو دنیا کا ایک بڑا مسئلہ قرار دیا ہے لہٰذا ٹرمپ نے اتنے بڑے اور حساس مسئلے کو بھی سیاسی بنادیا ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ ایک ڈرامہ ہے جسے چین نے رچایا ہے۔ ان کے لیے امریکا کا صدر بننا اس قدر اہم ہوگیا ہے کہ وہ اس سنگین عالمی مسئلے کو ایک ڈراما اور جھوٹ قرار دے رہے ہیں۔
معاملے کی حساسیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہلیری کلنٹن اور الگور نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ یہ ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے، امریکا کو اس حوالے سے ایک کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔
الگور نے 2000ء میں صدارتی انتخاب لڑا تھا اور فلوریڈا میں 500 سے کم ووٹوں سے بش کے مقابلے میں یہ مقابلہ ہارا تھا۔ وہ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر بہت متحرک اور فعال ہیں۔ انھوں نے پیرس کلائمیٹ چینج معاہدے کو اس ضمن میں ایک ٹھوس پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو کام صدر اوباما نے کیا ہے اسے صرف ہلیری کلنٹن جاری رکھ سکتی ہیں۔ ہلیری کلنٹن نے اعلان کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آگئیں تو اپنے دور صدارت میں وہ 500 ملین سولر پینل لگوائیں گی تاکہ امریکا میں کافی مقدار میں صاف توانائی پیدا کی جاسکے۔ اس مسئلے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے موقف نے اُن کی سیاسی مقبولیت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ ان دنوں امریکا اور پاکستان کی سیاست میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کو ہر برائی صدر اوباما اور ہلیری کلنٹن میں نظر آتی ہے۔ صدر اوباما اگر کہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا عالمی مسئلہ ہے تو ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
صدر اوباما تارکین وطن کو امریکا کا ایک اہم حصہ قرار دیتے ہیں تو اس کے جواب میں ٹرمپ تارکین وطن کو امریکا کے لیے نقصان دہ کہہ کر انھیں نکالنے کی بات کرتے ہیں۔ صدر اوباما اور ہلیری کلنٹن کا موقف یہ ہے کہ دہشت گردی کو کسی مذہب بالخصوص اسلام کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس کے برعکس موقف اختیار کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ، صدر اوباما اور ہلیری کلنٹن کی ہر پالیسی کی مخالفت کر تے ہیں لیکن اس حوالے سے وہ کوئی متبادل پالیسی بھی پیش نہیں کرتے۔
تیسری دنیا کے سیاستدانوں کی طرح وہ نسلی سیاست کی راہ اختیار کرتے ہیں اور مسائل کو اجاگر کرکے اس کی ذمے داری حکومت پر عائد کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ وہ انتہا پسندانہ سیاسی رویے میں ہر حد کو عبور کرگئے ہیں۔ انھوں نے آزادی، برابری، مساوی حقوق، آئین اور جمہوریت جیسے اصولوں کو نظر انداز کرکے امریکا کی بنیاد پر ضرب لگانے کی کوشش کی ہے۔
اب آئیے ہم ذرا پاکستان کی صورتحال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ہمارے بعض سیاستدان منفی سیاست کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے استاد لگتے ہیں۔ پاکستان میں حزب اختلاف کے کچھ انقلابی سیاستدان ہر خرابی اور برائی کی ذمے داری وزیراعظم پر عائد کرتے ہیں، انھیں ذاتی طور پر تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری ادارے ابھی پوری طرح مستحکم نہیں ہوئے ہیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تسلسل سے ایک دوسری منتخب حکومت برسر اقتدار ہے اور اپنی آئینی میعاد پوری کرنے کے لیے تگ و دو کررہی ہے۔ اس مشکل صورتحال سے بہت سے ناکام سیاستدان اور عناصر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ اگر جمہوری تسلسل کے نتیجے میں 2018 میں ایک تیسری منتخب حکومت آگئی تو چور دروازے سے اقتدار میں آنے کی راہیں تقریباً مسدود ہوجائیں گی لہٰذا جو کرنا ہے وہ آج اور ابھی کرلیا جائے۔
یہ پرانی ریت رہی ہے کہ ہم امریکا سے سیکھتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ ٹرمپ صاحب نے پاکستان کے بعض خود ساختہ سیاستدانوں سے سیکھا ہے اور انتخابات سے پہلے ہی یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ نتائج میں دھاندلی کی جائے گی۔ ان کے اس رویے سے امریکی بہت پریشان ہیں۔ اس حوالے سے شطرنج کے مشہور کھلاڑی گیری کیسپرو نے لکھا ہے کہ اگر مسٹر ٹرمپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جعلی جمہوریت کیا ہوتی ہے تو انھیں اپنے دوست ولادیمیر پیوٹن کی سلطنت روس کا دورہ کرنا چاہیے۔
گیری کا کہنا ہے کہ روسی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے شخص کے طور پر وہ جانتا ہے کہ جعلی جمہوریت کیسی ہوتی ہے۔ سچ کو کچلنے کے لیے سنسرشپ کو کس طور استعمال کیا جاتا ہے، مخالفین کیسے قتل کردیے جاتے ہیں۔ گیری جب 2005ء میں شطرنج کے کھیل سے ریٹائر ہوا اور اس نے روس میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور تنظیموں کو یکجا کرکے 'دوسرا روس' نامی تنظیم قائم کی تو زار پیوٹن نے اس کا اور اس کے ساتھیوں کا جو حشر کیا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ہلیری کلنٹن کے خلاف چلائی جانے والی زہریلی مہم کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ایک قدامت پرست اخبار کے مدیر نے اپنے پڑھنے والوں سے اپیل کی کہ وہ ہلیری کلنٹن کو ووٹ نہ دیں کیونکہ وہ کالا علم جانتی ہیں اور جادوگرنی ہیں۔ ٹرمپ کے بہت سے حامی انھیں شیطان کی چیلی قرار دیتے ہیں۔ ایک انتہائی رجعت پرست تجزیہ کار نے ٹیلی وژن پر کہا کہ 'ہلیری جہنم کے ساتویں طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور اگر وہ اقتدار میں آگئیں تو صرف امریکا کو ہی نہیں ہمارے کرۂ ارض کو تباہ کردیں گی'۔
ان تمام الزامات کا جائزہ لیجیے تو یقین نہیں آتا کہ یہ سب کچھ 2016ء کے امریکا میں ہورہا ہے۔ میاں صاحب کو اپنے مخالفین کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ابھی تک انھوں نے یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ میاں صاحب سفلی علم جانتے ہیں اور کالے علم کے کسی ماہر سے رائے ونڈ میں چلہ کھنچواتے ہیں اور اپنے مخالفین کے خلاف ہانڈیاں اڑاتے ہیں۔
اب سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ امریکی صدارتی مہم کے دوران کسی امیدوار نے بدکلامی اور فحش گفتاری کی ان بلندیوں کو چھولیا ہو جس پر مسٹر ٹرمپ فائز ہوئے۔ انھوں نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرنے کا فیصلہ ابتدا سے کر لیا تھا۔ وہ اس وقت تک ایسی زبان اور لہجہ اپنائے ہوئے ہیں جس نے عام امریکی کو بھی شرمندہ کردیا ہے۔ خواتین کے بارے میں ان کے خیالات سن کر امریکی سکتے میں آگئے ہیں۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ انھوں نے بعض خواتین سے جو انتہائی نازیبا اور بے ہودہ رویہ اختیار کیا ان کی تفصیلات بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ اسی طرح ٹرمپ نے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ کر ووٹ حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
تمام سنجیدہ امریکیوں کی یہ رائے ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کو ایک مذہب سے جوڑ کر درحقیقت ان دہشت گردوں کو تقویت پہنچائی ہے جو اس مقصد کے لیے اسلام کو استعمال کررہے ہیں اور مسلمانوں کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ امریکا اور مغرب اسلام کے خلاف ہے۔ ان دنوں جس طرح پاکستان میں بعض سیاستدان ملک کے ہر مسئلے کی ذمے داری نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) پر عائد کرتے ہیں بالکل اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے ہر مسئلے کی ذمے داری صدر اوباما اور ہلیری کلنٹن کی جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی پر عائد کرکے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔
صدارتی مہم کے دوران ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ جے ٹرمپ کے دوران تین بڑے مباحثے ہوئے، آخری مباحثہ لاس ویگاس میں بدھ 18 اکتوبر کو منعقد ہوا۔ ان تینوں مباحثوں میں ہلیری کلنٹن کو اپنے حریف پر واضح سبقت حاصل ہوئی ہے۔ آخری مباحثے میں ہلیری کلنٹن قدرے مطمئن اور پُراعتماد نظر آئیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس مباحثے میں زیادہ جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور اپنے تاثر کو بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن اپنے متضاد موقف کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مثلاً ایک مرتبہ انھوں نے زوردار انداز میں یہ کہا کہ خواتین کے حوالے سے ان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے جارہے ہیں اور وہ خواتین کا ازحد احترا م کرتے ہیں لیکن چند ہی لمحوں بعد وہ کسی بات پر غصے میں آگئے اور انھوں نے ہلیری کو A Nasty Woman کہہ کر مخاطب کیا، جس سے ناظرین کو معلوم ہوگیا کہ وہ خواتین کا واقعی کتنا احترام کرتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ غیر قانونی تارکین وطن کو برا بھلا کہہ رہے تھے تو ہلیری کلنٹن نے کہا کہ غیر دستاویزی تارکین وطن تو ٹیکس ادا کرتے ہیں جب کہ ٹرمپ ٹیکس کی ادائیگی سے دامن بچاتے ہیں۔
تیسری دنیا کے جمہوری ملکوں میں وزیراعظم اور صدر بننے کے لیے جس طور ہر حربہ استعمال کرنا درست تصور کیا جاتا ہے بالکل اُسی طرح ان دنوں امریکا کی صدارتی مہم کے دوران دیکھنے میں آرہا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی طرز عمل سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم ہندوستان یا پاکستان کے کسی رہنماکو انتخابات لڑتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
صدر اوباما نے چونکہ موسمیاتی تبدیلی کو دنیا کا ایک بڑا مسئلہ قرار دیا ہے لہٰذا ٹرمپ نے اتنے بڑے اور حساس مسئلے کو بھی سیاسی بنادیا ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ ایک ڈرامہ ہے جسے چین نے رچایا ہے۔ ان کے لیے امریکا کا صدر بننا اس قدر اہم ہوگیا ہے کہ وہ اس سنگین عالمی مسئلے کو ایک ڈراما اور جھوٹ قرار دے رہے ہیں۔
معاملے کی حساسیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہلیری کلنٹن اور الگور نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ یہ ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے، امریکا کو اس حوالے سے ایک کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔
الگور نے 2000ء میں صدارتی انتخاب لڑا تھا اور فلوریڈا میں 500 سے کم ووٹوں سے بش کے مقابلے میں یہ مقابلہ ہارا تھا۔ وہ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر بہت متحرک اور فعال ہیں۔ انھوں نے پیرس کلائمیٹ چینج معاہدے کو اس ضمن میں ایک ٹھوس پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو کام صدر اوباما نے کیا ہے اسے صرف ہلیری کلنٹن جاری رکھ سکتی ہیں۔ ہلیری کلنٹن نے اعلان کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آگئیں تو اپنے دور صدارت میں وہ 500 ملین سولر پینل لگوائیں گی تاکہ امریکا میں کافی مقدار میں صاف توانائی پیدا کی جاسکے۔ اس مسئلے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے موقف نے اُن کی سیاسی مقبولیت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ ان دنوں امریکا اور پاکستان کی سیاست میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کو ہر برائی صدر اوباما اور ہلیری کلنٹن میں نظر آتی ہے۔ صدر اوباما اگر کہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا عالمی مسئلہ ہے تو ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
صدر اوباما تارکین وطن کو امریکا کا ایک اہم حصہ قرار دیتے ہیں تو اس کے جواب میں ٹرمپ تارکین وطن کو امریکا کے لیے نقصان دہ کہہ کر انھیں نکالنے کی بات کرتے ہیں۔ صدر اوباما اور ہلیری کلنٹن کا موقف یہ ہے کہ دہشت گردی کو کسی مذہب بالخصوص اسلام کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس کے برعکس موقف اختیار کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ، صدر اوباما اور ہلیری کلنٹن کی ہر پالیسی کی مخالفت کر تے ہیں لیکن اس حوالے سے وہ کوئی متبادل پالیسی بھی پیش نہیں کرتے۔
تیسری دنیا کے سیاستدانوں کی طرح وہ نسلی سیاست کی راہ اختیار کرتے ہیں اور مسائل کو اجاگر کرکے اس کی ذمے داری حکومت پر عائد کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ وہ انتہا پسندانہ سیاسی رویے میں ہر حد کو عبور کرگئے ہیں۔ انھوں نے آزادی، برابری، مساوی حقوق، آئین اور جمہوریت جیسے اصولوں کو نظر انداز کرکے امریکا کی بنیاد پر ضرب لگانے کی کوشش کی ہے۔
اب آئیے ہم ذرا پاکستان کی صورتحال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ہمارے بعض سیاستدان منفی سیاست کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے استاد لگتے ہیں۔ پاکستان میں حزب اختلاف کے کچھ انقلابی سیاستدان ہر خرابی اور برائی کی ذمے داری وزیراعظم پر عائد کرتے ہیں، انھیں ذاتی طور پر تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری ادارے ابھی پوری طرح مستحکم نہیں ہوئے ہیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تسلسل سے ایک دوسری منتخب حکومت برسر اقتدار ہے اور اپنی آئینی میعاد پوری کرنے کے لیے تگ و دو کررہی ہے۔ اس مشکل صورتحال سے بہت سے ناکام سیاستدان اور عناصر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ اگر جمہوری تسلسل کے نتیجے میں 2018 میں ایک تیسری منتخب حکومت آگئی تو چور دروازے سے اقتدار میں آنے کی راہیں تقریباً مسدود ہوجائیں گی لہٰذا جو کرنا ہے وہ آج اور ابھی کرلیا جائے۔
یہ پرانی ریت رہی ہے کہ ہم امریکا سے سیکھتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ ٹرمپ صاحب نے پاکستان کے بعض خود ساختہ سیاستدانوں سے سیکھا ہے اور انتخابات سے پہلے ہی یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ نتائج میں دھاندلی کی جائے گی۔ ان کے اس رویے سے امریکی بہت پریشان ہیں۔ اس حوالے سے شطرنج کے مشہور کھلاڑی گیری کیسپرو نے لکھا ہے کہ اگر مسٹر ٹرمپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جعلی جمہوریت کیا ہوتی ہے تو انھیں اپنے دوست ولادیمیر پیوٹن کی سلطنت روس کا دورہ کرنا چاہیے۔
گیری کا کہنا ہے کہ روسی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے شخص کے طور پر وہ جانتا ہے کہ جعلی جمہوریت کیسی ہوتی ہے۔ سچ کو کچلنے کے لیے سنسرشپ کو کس طور استعمال کیا جاتا ہے، مخالفین کیسے قتل کردیے جاتے ہیں۔ گیری جب 2005ء میں شطرنج کے کھیل سے ریٹائر ہوا اور اس نے روس میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور تنظیموں کو یکجا کرکے 'دوسرا روس' نامی تنظیم قائم کی تو زار پیوٹن نے اس کا اور اس کے ساتھیوں کا جو حشر کیا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ہلیری کلنٹن کے خلاف چلائی جانے والی زہریلی مہم کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ایک قدامت پرست اخبار کے مدیر نے اپنے پڑھنے والوں سے اپیل کی کہ وہ ہلیری کلنٹن کو ووٹ نہ دیں کیونکہ وہ کالا علم جانتی ہیں اور جادوگرنی ہیں۔ ٹرمپ کے بہت سے حامی انھیں شیطان کی چیلی قرار دیتے ہیں۔ ایک انتہائی رجعت پرست تجزیہ کار نے ٹیلی وژن پر کہا کہ 'ہلیری جہنم کے ساتویں طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور اگر وہ اقتدار میں آگئیں تو صرف امریکا کو ہی نہیں ہمارے کرۂ ارض کو تباہ کردیں گی'۔
ان تمام الزامات کا جائزہ لیجیے تو یقین نہیں آتا کہ یہ سب کچھ 2016ء کے امریکا میں ہورہا ہے۔ میاں صاحب کو اپنے مخالفین کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ابھی تک انھوں نے یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ میاں صاحب سفلی علم جانتے ہیں اور کالے علم کے کسی ماہر سے رائے ونڈ میں چلہ کھنچواتے ہیں اور اپنے مخالفین کے خلاف ہانڈیاں اڑاتے ہیں۔