سری لنکا نے دہشت گردی کا کیسے خاتمہ کیا

سری لنکن قوم دو چار یا دس سال نہیں پورے ستائیس سال پوری ہمّت اور استقلال سے دہشت گردی کے خلاف لڑتی رہی ہے۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

"آج 19 مئی 2009کا دن میری، میرے ملک اورمیری قوم کے ہر فرد کی تاریخ میں ایک سنہرا ، یادگار اور تاریخی دن ہے کہ آج اس شخص کوجس نے ہمارے ملک کو تباہ و برباد کردیا جس نے لاکھوں ماؤں سے ان کے بیٹے چھین لیے اور لاکھوں بیویوں کو اُن کے شوہروں سے محروم کردیا فوج کے بہادر جوانوں نے ہلاک کردیا ہے"۔

یہ سری لنکا میںدہشت گردوں کے لیڈر ویلوپی لائی پربھاکرن کو ہلاک کرنے والے آرمی کے 53ویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل کمال گنارتنے کے الفاظ تھے جو اُس وقت پوری دنیا میں سنے گئے۔ تین دہائیوں تک اس بدترین عذاب میں مبتلا رہنے والی قوم پربھارکرن کی موت کی خبر سن کر جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئی۔

جب پاکستان میں دہشت گردی زوروں پر تھی، آئے روز خودکش دھماکے ہوتے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ شہری ہلاک ہورہے تھے، بہت سے لوگ خوف کے مارے ملک چھوڑ کر باہر جارہے تھے اُسوقت راقم نے ملک کے کونے کونے میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاکر نوجوان طلباء و طالبات کے حوصلے بڑھانے اور انھیں امید دلانے کا فریضہ انجام دیتا رہا۔

میرے خطاب کے دو حصے ہوتے تھے پہلے حصے میں انھیں روڈ سیفٹی کے بارے میں روشناس کرایا جاتا اور دوسرے حصے میں ملک کے خوشنما پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتا اور ان کی مایوسی اور خدشات دور کرکے اُنکے اندر ملک سے محبّت کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی۔دوسرے حصے میں سب سے پہلے میں سری لنکا کی مثال دیکر کہا کرتا تھا کہ ''پاکستان پہلا ملک نہیں ہے جس پر دہشت گردی کا عذاب نازل ہوا ہے۔

سری لنکا ہم سے دس گنا چھوٹا ملک ہے ان کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں مگر سری لنکن قوم دو چار یا دس سال نہیں پورے ستائیس سال پوری ہمّت اور استقلال سے دہشت گردی کے خلاف لڑتی رہی ہے۔ انھوں نے بھی لاکھوں جانیں قربان کیں اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا۔ مگر کبھی ہمّت نہیں ہاری اور بالآخر دہشت گردی کو شکست دے دی۔ ہم بھی انشاء اﷲ اپنے ملک کو اس ناسور سے پاک کردیں گے''۔

راقم ساؤتھ ایشیا کی اس سب سے خوفناک دہشت گردی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ کیسے پروان چڑھی اور اس پر کیسے قابو پایا گیا ۔ وہ کونسے عوامل تھے اور وہ کونسے افراد تھے جنہوں نے سری لنکا کے تحفظ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ سری لنکا کے حالیہ دورے میں اس کا موقع ملا،کئی متعلقہ افراد سے ملاقاتیں بھی ہوئیں اور کچھ اہم تحریروں تک رسائی بھی ہوگئی۔

بلا شبہ سری لنکا کی دہشت گردی کا Magnitude (حجم)ہمارے ہاں کی دہشت گردی سے کئی گنا زیادہ تھا، وہاں ریاست کے خلاف لڑنے والوں کے پاس وسائل بھی زیادہ تھے اور انکاmotivational level بھی بہت بلند تھا۔

ایل ٹی ٹی ای والوں کے پاس تربیت یافتہ بری، بحری اور ہوائی فوج تھی، بمبار طیارے، ٹینک اوربحری آبدوزیں تھیں۔ انٹیلی جنس کا جدید نظام تھا، انھیں دنیا بھر میں موجود تامل کمیونٹی سے مالی امداد ملتی تھی اور ہمسایہ ملک بھارت ان کی پشت پر تھا۔ ان کے پاس خودکش حملوں کے لیے جان دینے والے سیکڑوں مرد اور عورتیں موجود تھیں۔ اسی لیے انھوں نے لاتعداد خودکش حملے کروائے اور ریاست کو بے پناہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔

آخری چند مہینوں کے سوا ریاست دفاعی جنگ لڑتی رہی اورفوج پر حملے دہشتگردوں کیطرف سے ہوتے رہے۔ جن کے حملوں سے کوئی جگہ، کوئی شہر اور کوئی شخص محفوظ نہیں تھا، ایل ٹی ٹی ای والے جب چاہتے دارلحکومت کولمبو کے بارونق اور مصروف ترین علاقے کو بم دھماکوں سے کھنڈر میں تبدیل کردیتے، ان کے پاس نہ وسائل کی کمی تھی اور نہ صلاحیّت کی، وہ جس شہر کو چاہتے آگ اور خون میں نہلا دیتے۔


سری لنکا میں کئی دھائیوں پر پھیلی ہوئی اس خونی دہشت گردی نے بڑی قیمتی جانیں نگل لیں، خود ملک کے صدر راناسنگھے پریما داسا کو دہشت گردوں نے ہلاک کردیا۔ ان کے علاوہ وزیر دفاع سمیت کئی وزراء کئی جرنیل، بحری فوج کے ایڈمرل ،ہوائی فوج اور پولیس کے اعلیٰ ترین افسران دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

ایل ٹی ٹی ای کو بھارتی وزیرِاعظم اندراگاندھی نے بنایا اور پرورش کی۔ پورے ساؤتھ ایشیا میں خوف اور دہشت کی سب سے بڑی علامت ویلوپی لائی پربھاکرن ضلع جیفنا کے ایک کلرک تھِیروونیڈن کا بیٹا تھا وہ تقریباً نیم خواندہ ہونے کے باوجود پوری تامل کمیونیٹی کو اپنے گرد اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا اس لیے اس کے دشمن بھی اسے ایک وژنری لیڈر ماننے پر مجبور تھے۔ آہستہ آہستہ وہ اتنا بڑا ٹیرر بن گیا کہ اس کے سامنے جے وردھنے، پریماداسا، چندریکا کی راٹنگا سمیت کئی صدور اور وزرائے اعظم گھٹنے ٹیک گئے۔ا گر کوئی اس کے سامنے پورے عزم کے ساتھ کھڑا ہوا تو وہ صدر مہندراجاپکسا تھا جس کی اولولعزم قیادت میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا۔

پربھاکرن نے اپنی تنظیم میں زبردست ڈسپلن اور نظریئے کے ساتھ وفاداری کا زبردست نظام قائم کر رکھا تھا۔ جنرل گنارتنے کے اپنے بقول اس کے پیروکاروں کا اس پر ایمان اور اس کے وفاداری کی بڑی وجہ اس کا کردار تھا۔ وہ نہ عیاش اور بدکار تھا اور نہ ہی پیسوں کی معاملے میں بددیانت۔ دنیا بھر کے تامل اسے کروڑوں روپیہ بھیجتے تھے اگر وہ چاہتا تو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کسی یورپی ملک میں آسائش گی زندگی گزارسکتاتھا مگر وہ آخر دم تک جنگل میں رہا اور مشکل ترین حالات مین بھی خود اپنی فورس کو کمانڈکرتا رہا۔

سری لنکا کے معلومات افزا دورے میں انتہائی مفید ملاقاتوں کے علاوہ جو سب سے قیمتی تحفہ ملا وہ پربھارکرن کو نندی کدال میں ہلاک کرنے والی 53ویں ڈویژن کے کمانڈر میجرجنرل کمال گنارتنے کی کتاب'' Road to Nandi Kodal'' ہے چونکہ مصنف خود تین دھائیوں تک دہشت گردوں سے پنجہ آزمائی کے عمل میں شامل رہے اس لیے اس کتاب کوسری لنکا کی دہشت گردی پر ایک مستند تاریخ کہا جاسکتا ہے۔

ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب اتنی دلچسپ ہے کہ میں نے دو دن میں پڑھ کر ہی دم لیا۔ کتاب کے کچھ اقتباسات قارئین کے ساتھ بھی شیئر کررہا ہوں۔ جنرل رتنے کئی سال پہلے کے واقعات یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ''میں پروموٹ ہوکرمیجر بنا تو مجھے فوری طور پر سلواتھیورا کیمپ پہنچنے کا حکم ملا۔ میں فوجی ایئرپورٹ پر جہاز کا انتظار کررہا تھا کہ معلوم ہو کہ ایک ہیلی کاپٹر میجرجنرل ڈینزل کو بیکادورا کو لے کر منار جارہا ہے مجھے ان کے ساتھ ہی منار تک جانا ہے۔

تھوڑی دیر بعد جنرل ڈینزل پہنچ گئے وہ مجھے بڑی گرمجوشی سے ملے اور ملتے ہی کہنے لگے ''کمال میں بہت خوش ہوں کہ تم سلواتھورا جارہے ہو۔ وہ علاقہ دہشت گردوں کا گڑھ بن گیا ہے اور وہ آرمی کیمپ پر حملے کی تیاری کررہے ہیں'' منار پہنچ کر جنرل صاحب نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ''اگر وہ آئیں تو انھیں اچھی طرح سبق سکھانا" میرے وہاں پہنچنے سے پہلے دو پلاٹونوں پر مشتمل گشت پارٹی پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے انھیں ہلاک کردیا تھا۔ گشت کرنے والے جوان گشت کے بعد ایک بڑے درخت کے نیچے تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے تھے۔۔ دہشت گردوں نے فوجیوں کا یہ روٹین دیکھ کر منصوبہ بندی کی۔ ایک دن جونہی پٹرول پارٹی درخت کے نیچے آکر رکی۔ بچھائی گئی بارودی سرنگیں پھٹ پڑیں اور چاروں طرف سے فائرنگ شروع ہوگئی جس سے دونوں پلاٹونوں کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا''۔

''سلوتھورا میں ہمارے پاس رائفل بردار بھی تھے اور توپچی بھی تھے۔ ان سب کو ان کی ذمے داریاں بتادی گئی تھیں۔ مجھے یقین تھا کہ دہشت گرد کیمپ پر آج حملہ کریں گے۔گمان درست ثابت ہوا، رات سوا آٹھ بجے دہشت گردوں نے فوجی کیمپ پر حملہ کردیا۔ ہمارے کیمپ پر مارٹر گولے بھی برسنے لگے، میں نے آرٹلری کو جوابی فائرنگ کا حکم دیا۔

پندرہ منٹ کے بعد مجھے بتایا گیاکہ کیمپ میں توپ کے 150گولے تھے وہ سب استعمال ہوگئے ہیں۔ اب کیا کریں؟ تھوڑی دیر بعد ایک لیفٹنٹ نے بتایا کہ ایک ٹرک ان کے کیمپ کی جانب بڑھ رہا ہے ہم سمجھ گئے کہ یہ یقیناً بارود سے بھرا ہوگا اور اس کے اندر خودکش بمبار بیٹھے ہوں گے''۔

''وہ پہلے بھی بارود سے بھرے ہوئے ٹرکوں سے نیلیادی اور منکولام کے آرمی کیمپوں کو تباہ کرچکے تھے اس لیے ہم جان گئے تھے کہ 200میٹر کے فاصلے پر کھڑا ٹرک Vehicle of deathہے۔ ٹرک تیزی سے آگے بڑھنے لگامیں نے جوانوں کو فائرنگ کا حکم دیا۔ ٹرک نے رفتار بڑھا دی۔ ٹرک کیمپ سے صرف 75میٹر کے فاصلے پر تھا جب مشین گنوں کی فائرنگ سے ٹرک ایک بہت بڑے دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس کے بعد تین اطراف سے کیمپ پر زور دار حملہ شروع ہوگیا مگر ہمارے جوانوں اور افسروں نے بڑی بہادری اور استقلال سے مقابلہ کیا۔۔ اُس رات کیمپ پر قبضے کے لیے دہشت گردوں نے چھ بار حملہ کیا مگر وہ کیمپ پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ''۔ (جاری ہے)
Load Next Story