آخر کب تک

کب تک ہمارے بچے ان مفاد پرستوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے، آنسو گیس کے سبب جان بحق نومولود کے قاتل کون ہیں؟

ماضی قریب یعنی 10 ستمبر 2007ء کا ذکر ہے کہ جب اس وقت تک دو بار وزیراعلیٰ پنجاب و دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رہنے والے میاں محمد نواز شریف سات سال کی جلاوطنی ختم کرکے پاکستان تشریف لا رہے تھے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ جلاوطن کیوں ہوئے اس پر بہت بات ہوچکی، البتہ 10 ستمبر0 200 کو جب میاں صاحب کا طیارہ لینڈ کرنے والا تھا تو اس وقت کی آمرانہ مشرف حکومت نے جہاز کی آمد سے قبل وہ تمام حربے استعمال کیے کہ جن کے باعث میاں صاحب کے استقبال کے لیے آنے والے کسی بھی صورت میں اسلام آباد ایئرپورٹ نہ آ سکیں۔

اس سلسلے میں راولپنڈی و اسلام آباد میں میاں صاحب کے استقبال کے لیے والوں و پولیس اہلکاروں کے درمیان خوب دھینگا مشتی جاری رہی، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس روز پولیس اہلکاروں نے اپنی قوت بازو خوب آزمائی اور مسلم لیگی کارکنوں پر خوب لاٹھیاں برسائیں۔ ریاستی جبر کا یہ سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا۔

بہرکیف میاں صاحب جس طیارے میں سوار تھے، اس طیارے نے اسلام آباد لینڈ کیا۔ میاں صاحب کو یہ موقع بھی ملا کہ وہ میڈیا کے لوگوں سے گفتگو کرسکیں۔ چنانچہ میاں صاحب نے نہایت دردمندی سے اس روز ہونے والے جبر پر گفتگو کی اور بار بار فرماتے رہے کہ یہ کیسا قانون ہے ہمارے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مجھے واپس بھیجا جا رہا ہے۔

مختصر یہ کہ میاں صاحب نے اس روز ہونے والے ریاستی جبر کا خوب تذکرہ کیا، البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ تھوڑی دیر بعد میاں صاحب کو واپس بھیج دیا گیا اور پاکستان میں ان کو قیام کی اجازت نہ دی گئی، باوجود اس کے کہ ہمیں ذاتی حیثیت میں میاں صاحب کے طرز سیاست سے اختلاف ہے کہ یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔ ہم کسی سے بھی اس کے نظریات کے باعث اختلاف کرسکتے ہیں، بہرکیف ہمیں اس روز ہونے والے ریاستی جبر پر جو اس نے لیگی کارکنوں پر کیا تھا دلی رنج ہوا تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ جب اگلے روز یعنی 11 ستمبر 2007ء کا اخبار ہمارے سامنے آیا تو اس روز کے اخبار میں چھپی ایک تصویر ایسی بھی تھی جسے دیکھ کر ہماری آنکھیں نم ہو گئیں یہ تصویر ایک سفید ریش بزرگ کی تھی جنھیں دو پولیس اہلکار اپنے حصار میں لے کر جا رہے تھے۔ وہ تصویر تھی نواز دور میں منصب صدارت پر فائز ہونے والے صدر پاکستان رفیق احمد تارڑ صاحب کی، جنھیں شریف دور حکومت میں برطرف کر دیا گیا تھا۔ البتہ 10 ستمبر 2007ء کو میاں صاحب کی پاکستان آمد کے موقع پر ریاستی جبر ایک قابل مذمت عمل تھا جس کی حمایت نہیں کی جا سکتی تھی، مگر اب یہ سب ماضی کا حصہ ہے۔

اب ہم آتے ہیں حال میں، تاریخ ہے 27 اکتوبر 2016ء اس روز پاکستان تحریک انصاف کے نوجوانوں نے ایک پروگرام کا اہتمام کر رکھا ہے کہ اسلام آباد میں ایک بند کمرہ اجلاس کریں گے۔ ظاہر ہے اس قسم کے اجلاس سے روزمرہ معمولات زندگی پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ گویا اس قسم کے اجلاس بے ضرر ہی ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ 10 ستمبر 2007ء کو جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی البتہ اب اس روز جبر کا شکار ہونے والی جماعت مسلم لیگ کی حکومت ہے۔


اب ہوتا یہ ہے کہ 27 اکتوبر 2016ء کو پی ٹی آئی کے اجلاس جوکہ مسلم لیگی حکومت کی نظروں میں ایک غیر قانونی عمل ہے اور مسلم لیگی حکومت نے اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ کر رکھا ہے چنانچہ مسلم لیگی حکومت کی نظر میں یہ بند کمرہ اجلاس بھی غیر قانونی ہے، چنانچہ حکومتی اہلکار مسلح ہو کر آتے ہیں اور اس بند کمرہ اجلاس جو کہ ابھی شروع بھی نہیں ہوا پر دھاوا بول دیتی ہے۔

پولیس اہلکار خوب لاٹھیاں برساتے ہیں، پولیس اہلکار لاٹھیاں برساتے وقت یہ تفریق کرنے کی بھی زحمت نہیں کرتے کہ ان کی لاٹھیوں کی زد میں خواتین آرہی ہیں یا مرد۔ جب پولیس اہلکار لاٹھیاں برساتے ہوئے تھکن کا شکار ہو جاتے ہیں تو پھر اہلکار خواتین و مردوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ پھر کیا ہے پولیس اہلکاروں کے ہاتھ ہیں اور لوگوں کے گریبان۔ یہ گریبان مردوں کے بھی تھے اور خواتین کے بھی۔

خیر 27 اکتوبر کی شب تمام ہوتی ہے اور 28 اکتوبر کا دن شروع ہوتا ہے مگر یہ کیا پورا راولپنڈی و اسلام آباد کا علاقہ کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں محصور ہیں۔ معمولات زندگی دونوں شہروں میں معطل ہیں مسلم لیگی حکومت نے کنٹینرز اس لیے لگا رکھے ہیں کہ نقص امن کا خطرہ ہے کیونکہ شیخ رشید نے لال حویلی کے مقام پر ایک جلسہ عام کا اہتمام کر رکھا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ اس جلسہ عام میں شیخ رشید اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے خطاب کرنا ہے۔

ظاہر ہے یہ ان لوگوں کا جمہوری حق ہے مگر یہ کیا لال حویلی کے راستے تو رات ہی کو بند کر دیے گئے تھے البتہ کمیٹی چوک آنے والوں پر قوت کا خوب مظاہرہ ہو رہا ہے، خوب لاٹھیاں و پتھروں کا استعمال ہو رہا ہے یہ سب کر رہی ہے پولیس اور جلسے میں شرکت کرنے والے ادھر ادھر چھپ رہے ہیں۔ منتخب رکن پنجاب اسمبلی اعجاز خان آتے ہیں جلسے کے مقام پر ان کو بھی گرفتار کر کے پولیس گاڑی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ البتہ پولیس اہلکار پورا دن تمام تر کوششوں کے باوجود شیخ رشید صاحب کو گرفتار نہیں کر پاتے۔ اگرچہ وہ اعلان کردہ وقت کے مطابق کمیٹی چوک آتے ہیں اور مختصر خطاب کرنے کے بعد اسی طرح ڈرامائی انداز میں چلے جاتے ہیں۔

دوسری جانب بنی گالہ جو خان صاحب کی ذاتی رہائش گاہ ہے پر پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے، چنانچہ وہاں آنے والے کارکنان کی بھی لاٹھیوں سے خوب تواضح ہو رہی ہے، کارکنان کی گرفتاریاں بھی جاری ہیں، یہ سلسلہ رات تک جاری رہتا ہے۔ ان حالات میں خان صاحب اپنی رہائش گاہ سے باہر آنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اب چلتے ہیں کمیٹی چوک، جہاں جلسہ منسوخ ہونے کے باوجود پولیس اہلکار پرتشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اب لاٹھیوں کے ساتھ ساتھ آنسو گیس کے شیل بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ کمیٹی چوک و آس پاس کے مکینوں کی حالت غیر ہو رہی ہے، متاثرین میں ایک 4 یوم کا نومولود بھی ہے، جس کا ابھی نام بھی تجویز نہیں ہوا۔ بچے کو فوری اسپتال منتقل کیا جاتا ہے، جہاں تصدیق ہوجاتی ہے کہ نومولود دم گھٹنے کے باعث زندگی کی بازی ہار چکا ہے۔ اولاد کی موت کا صدمہ کیا ہوتا ہے یہ تمام صاحب اولاد جانتے ہیں۔

ان تمام تر حالات میں میرے اپنے ہم وطنوں سے چند سوالات ہیں کب تک ہمارے بچے ان مفاد پرستوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے، آنسو گیس کے سبب جان بحق نومولود کے قاتل کون ہیں؟ ہمارے ملک میں آمریت و جمہوریت میں فرق کیا؟ ہم کب تک ان آزمائے ہوئے تاجر نما سیاستدانوں کو حکومتی ایوانوں میں بھیجتے رہیں گے کب تک ہم اپنی صفوں میں سے ایک حقیقی قیادت پیدا کر سکیں گے؟
Load Next Story