اسلام آباد پر چڑھائی

مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ خان صاحب کی ضد اور ہٹ دھرمی نے پاکستان میں جمہوریت کا بستر ایک بار پھر گول کردیا۔

mnoorani08@gmail.com

یہ چند سال پہلے کی بات ہے، جب 3 سے 11 جولائی 2007ء تک اسلام آباد کے ایک مخصوص علاقے میں جب جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے لوگوں نے پرویز مشرف کے حکومت کی رٹ کے لیے ایک بڑا سوال پیدا کر دیا تھا۔

اس وقت ملک میں آٹھ سال سے لگا ہوا مارشل لاء قائم اور جاری تھا۔ کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ پرویز حکومت کے لیے امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ مگر غازی کے ماننے والوں نے اسلام آباد کے کچھ علاقوں میں اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنے کی جنگ شروع کر رکھی تھی۔ چائنا مساج سینٹرز سے اٹھنے والا یہ بحران رفتہ رفتہ بڑھتا چلاگیا۔

ایک طرف سیکیورٹی فورسز تھیں اور دوسری جانب ڈنڈا بردار مدرسے کے طالبِ علم، جن میں خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد شامل تھی۔ اس لڑائی کا متوقع نتیجہ سب کو پہلے سے معلوم تھا۔ کچھ دنوں بعد وہ حکمرانوں کے ہاتھوں گرفتاری دینے پر آمادہ بھی ہو چکے تھے، بشرطیکہ انھیں باعزت کہیں اور منتقل ہونے کی اجازت دے دی جائے۔ مسئلے کا پرامن حل نکالنے کے لیے مذاکرات کیے گئے۔

10 اور 11 جولائی کی درمیانی رات 2 بجے مذاکرات تقریباً کامیاب ہو چکے تھے اور یہ دکھائی دینے لگا تھا کہ مسئلے کا کوئی پرامن انجام اب لمحوں کی بات ہے۔ مگر یہ کوئی سول یا جمہوری حکومت نہ تھی۔ ایک ڈکٹیٹر کی ضد اور انا کا معاملہ تھا۔ وہ اپنے آگے سر اٹھانے والوں کو یوں آرام سے چھوڑنے پر راضی نہ تھا۔ وہ انھیں ایک عبرت ناک اور سبق آموز انجام سے دوچارکر دینے پر مصر تھا۔ اس نے مذاکرات کی کامیابی کو قبول نہیں کیا اور ایک مکمل فوجی ایکشن کے ذریعے اپنی رٹ قائم کردی۔

اسلام آباد کے ایک چھوٹے سے علاقے پر یہ حملہ اس وقت کے حکمرانوں نے برداشت نہیں کیا اور طاقت کے زور پر اپنا حکم منوا لیا۔ اب 9 سال بعد اِسی شہر اسلام آباد میں پھر ایک یلغار ہونے جا رہی ہے۔ اِس بار یہ یلغار ایک مخصوص علاقے تک محدود نہیں ہے، بلکہ سارے اسلام آباد کو بند کر دینے کے لیے حملہ کیا جا رہا ہے۔ مگر چونکہ اب یہاں ایک جمہوری حکومت ہے، فوجی یا کسی ڈکٹیٹر کا راج نہیں ہے۔ اِس لیے حملہ کرنے والوں کو معلوم ہے کہ کوئی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔

اِس حملے کا نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے بدنام حکومت ہی کو ہونا ہے۔ وہ اگر سختی کرتی ہے تو بھی اور نرمی برتتے ہوئے اسلام آباد کی حفاظت کرنے میں ناکام بھی ہوتی ہے دونوں صورتوں میں بدنامی حکمرانوں ہی کے پلڑے میں آئے گی۔ تماشا دیکھنے والے تماشا دیکھتے رہیں گے۔ اس یلغار اور انتشار کے نتیجے میں اگر مارشل لاء لگا دیا جاتا ہے تو بھی اپوزیشن کی جانب سے یہی کہا جائے گا کہ قصور حکومت کا ہی تھا۔ اس نے پی ٹی آئی کی تحریک کو جمہوری انداز میں ٹیکل)(TACKLE نہیں کیا۔


خان صاحب کی مجبوری یہ ہے کہ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا جوا شروع کر رکھا ہے۔ اس جوے کے اختتام پر ہی یہ پتہ چلے گا کہ خان صاحب اس سیاسی جنگ میں مرد میداں بن کر نکلتے ہیں یا پھر سیاسی موت ان کا مقدر بنتی ہے۔ انھوں نے اسی لیے اپنا سب کچھ داؤ پرلگا دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں میں کشتیاں جلا کر 2 نومبر کو اسلام آباد کو بند کرنے نکلوں گا۔ یعنی واپسی کا کوئی راستہ انھوں نے باقی نہیں رکھ چھوڑا ہے۔ اور شاید اس مقصد کے لیے انھوں نے سارے آپشن سوچ رکھے ہیں۔ وہ جب یہ دیکھیں گے کہ ان کا مشن ناکام ہونے لگا ہے تو وہ پھر انتشار، انارکی اور خون خرابے کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کریں گے۔ پھر جمہوریت رہے یا نہ رہے اس سے انھیں کوئی سروکار نہیں ، پھر وہ کیوں کسی اور کے لیے جمہوریت کو برقرار رکھنے کی زحمت گوارا کریں۔ غالباً یہی سوچ ہمارے حکمرانوں کی بھی ہے کہ وہ آخر دم تک عمران خان کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔

استعفیٰ دینے کی کوئی تجویز ان کے یہاں زیرِ غور نہیں ہے۔ اسلام آباد پر یلغار کی صورت میں اگر کوئی تیسری قوت مداخلت کرتی ہے یا جنرل وحید کاکڑ والا کوئی آپشن (فارمولہ) تجویز کیا جاتا ہے تو بھی وہ اس بار استعفیٰ نہیں دیں گے۔ مارشل لاء لگنے کی صورت میں وہ ایک بار پھر سیاسی شہید کا رتبہ حاصل کر جائیں گے اور سیاست میں اپنے وجود کو قائم و دائم رکھ پائیں گے لیکن یہ ضرور ہے کہ مارشل لاء کی صورت میں خان صاحب کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ انھیں ہی موردِ الزام ٹھہرائے گی۔ مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ خان صاحب کی ضد اور ہٹ دھرمی نے پاکستان میں جمہوریت کا بستر ایک بار پھر گول کردیا۔ پانامہ لیکس کا معاملہ جب سپریم کورٹ میںسماعت کے لیے قبول کرلیا گیا تھا تو پھر یلغار اور انتشار کا کوئی جواز باقی نہیں رہا تھا۔

جمہوریت بچانے کے لیے خان صاحب کے پاس اسلام آباد بند کرنے سے بہتر پرامن آپشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دینے کا تھا لیکن انھوں نے یہ آپشن نجانے کیوں ابھی تک استعمال نہیں کیا۔ اسی طرح میاں صاحب کے پاس بھی یہ آپشن ضرور باقی ہے کہ جب وہ یہ دیکھیں کہ حکومت ان کے ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے تو کسی تیسری قوت کی مداخلت سے پہلے وہ اسمبلیوں کو توڑ کر اور نئے انتخابات کا ڈول ڈال کر مارشل لاء کا راستہ روک سکتے ہیں۔ مگر ہمیں نہیں معلوم کے آنے والے حالات ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھتے رہنا دینا چاہتے ہیں یا پھر ایک غیر جمہوری دورِ حکومت کا طویل دور اس قوم کامقدر بنتا ہے۔

یہ سب کچھ اگلے چند دنوں میں نہیں تو کم از کم نئے آرمی چیف کے تعین ہونے تک طے ہوجائے گا۔ دیکھا جائے تو معاملہ اعلیٰ عدلیہ کے روبرو چلے جانے کے بعد بھی اس ساری معرکہ آرائی کا اس نومبر کے مہینے میں کیا جانا بھی ہمارے ان ہی خدشات کی غمازی کرتا ہے کہ کچھ لوگ اس نازک وقت کو اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی وقت ایک مناسب اور درست وقت ہے جب موجودہ آرمی چیف جاتے جاتے کوئی انتہائی قدم اٹھا لیں۔

وہ حالات کو اس ڈگر تک لے جانا چاہتے ہیں کہ جہاں سول حکومت مکمل ناکام اور فریزڈ ہوجائے اور ملک کے اندر مارشل لاء کے سوا کوئی راستہ باقی نہ بچے۔ اسلام آباد کو بند کردینے کے پیچھے بھی ایسے ہی عزائم اور مقاصد کارفرما ہیں۔ عمران خان ہوسکتا ہے خود یہ نہ چاہتے ہوں لیکن وہ آج کل جن لوگوں کے نرغے میں گھرے ہوئے ہیں ان کی دلی آرزو اور تمنا ہی یہی ہے کہ کسی طرح میاں نواز شریف کو زیر کرکے اپنے ذاتی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرسکیں۔
Load Next Story