پیپلز پارٹی کی آئینی اور قانونی جدوجہد کے فیصلے کی جیت
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں اور وہ مسلسل عوامی رابطہ مہم میں مصروف ہیں
پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے اعلان کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس گذشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں بلاول ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاکستان کی مجموعی سیاسی صورت حال پر طویل غور وخوض کیا گیا اور اس حوالے سے بعض اہم فیصلے کیے گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے جو فیصلے کیے، وہ اس کی آئندہ کی سیاسی حکمت عملی کا اظہار تھے اور اب حالات اسی طرف جا رہے ہیں، جن کا اشارہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے کیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے تصادم کی سیاست میں حصہ دار نہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اعتزاز احسن، سید خور شید احمد شاہ ، قمر الزمان کائرہ، شیری رحمان، سینیٹر سعید غنی اور فتح محمد حسنی نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کیا اور یہ واضح کیا کہ پیپلز پارٹی کسی خون خرابے کی سیاست کا حصہ نہیں بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے تحریک انصاف سے بہت سے اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا موقف ایک ہے لیکن پیپلز پارٹی ان تحقیقات کے لیے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نواز شریف حکومت کے پاؤں پھسل گئے ہیں اور پیپلز پارٹی اسے سنبھلنے کا موقع دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس طرح پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے دھرنے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت دونوں کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ موجودہ صورت حال میں بعض حلقوں کا کہنا یہ تھا کہ اگر پیپلز پارٹی تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک سے الگ رہتی ہے تو وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہو جائے گی اور اسے سیاسی طور پر نقصان ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا گیا اور اس نتیجے پر اتفاق ہوا کہ تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا مرحلہ گزر جائے گا اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو احتساب کے لیے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اب حالات اسی طرف جا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے درخواست دہندگان سے پوچھ کر عدالتی کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے اور سیاسی جماعتوں کو کہا ہے کہ وہ عدالتی کمیشن کے دائرہ ہائے اختیار اور طریقہ کار کے بارے میں اپنی تجاویز دیں۔ اپنی تجاویز ( ٹی او آرز ) جمع کرائیں۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کے ٹی او آرز پر اتفاق نہیں ہو سکا تو عدالت خود اپنے ٹی او آرز بنائے گی۔ عدالتی کمیشن کے قیام کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج اور دھرنے کا جواز کمزور ہو گیا ہے۔
دوسری طرف حکومت نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد آنے سے روکنے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی تھی، اس میں وہ ابھی تک کامیاب نظر آتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کا احتجاج آہستہ آہستہ دم توڑ دے گا اور تحریک انصاف کو بھی پھر اسی راستے پر آنا پڑے گا، جس راستے پر پیپلز پارٹی گامزن ہے۔ اس وقت حالات اگرچہ پوری طرح پرامن نہیں ہیں اور ملک میں سیاسی بحران موجود ہے۔ خدشات اور خطرات بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں لیکن تصادم کی سیاست زیادہ دیر نہیں چلے گی بشرطیکہ کوئی خون خرابہ نہ ہو۔ سندھ سے بہت کم لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میں شرکت کی۔ کچھ قافلے کراچی سے اسلام آباد روانہ ہوئے تھے لیکن وہ اسلام آباد نہیں پہنچ سکے۔
کراچی سے روانہ ہونے والا قافلہ کوئی بڑا نہیں تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو درست ہو گا کہ سندھ نے پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک اور دھرنے میں حصہ نہیں لیا۔ تحریک انصاف کی قیادت سندھ میں لوگوں کو متحرک نہیں کر سکی ہے۔ کراچی میں تحریک انصاف دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی لیکن کراچی سے بھی کوئی زیادہ لوگ دھرنے میں شریک ہونے کے لیے نہیں گئے۔ اس طرح پورا سندھ تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک سے بہت حد تک لاتعلق رہا۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف سندھ میں سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے آئندہ کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں اور وہ مسلسل عوامی رابطہ مہم میں مصروف ہیں۔ گذشتہ ہفتے بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے اسیر رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کی عیادت کرنے جناح اسپتال پہنچے اور انہوں نے وہاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عاصم حسین میاں نواز شریف کے سیاسی قیدی ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین کو بے گناہ قید میں رکھا گیا ہے اور ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ بلاول بھٹو کے وہاں آنے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اب پیپلز پارٹی کھل کر ڈاکٹر عاصم حسین کا ساتھ دے گی۔
اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اب ان لوگوں کے دفاع کے لیے بھی سامنے آئے گی، جنہیں نیب، ایف آئی اے اور دیگر وفاقی اداروں نے گرفتار کیا ہے یا جن کی گرفتاری کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں ۔ پیپلز پارٹی بہت عرصے تک خاموش رہی۔ اب وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف کھل کر مہم چلائے گی۔ بلاول بھٹو زرداری جمعہ 4 نومبر کو ڈہرکی ضلع گھوٹکی میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے بھی خطاب کریں گے اور یہ زیریں سندھ میں سیاسی مہم کا آغاز ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے تصادم کی سیاست میں حصہ دار نہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اعتزاز احسن، سید خور شید احمد شاہ ، قمر الزمان کائرہ، شیری رحمان، سینیٹر سعید غنی اور فتح محمد حسنی نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کیا اور یہ واضح کیا کہ پیپلز پارٹی کسی خون خرابے کی سیاست کا حصہ نہیں بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے تحریک انصاف سے بہت سے اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا موقف ایک ہے لیکن پیپلز پارٹی ان تحقیقات کے لیے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نواز شریف حکومت کے پاؤں پھسل گئے ہیں اور پیپلز پارٹی اسے سنبھلنے کا موقع دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس طرح پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے دھرنے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت دونوں کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ موجودہ صورت حال میں بعض حلقوں کا کہنا یہ تھا کہ اگر پیپلز پارٹی تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک سے الگ رہتی ہے تو وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہو جائے گی اور اسے سیاسی طور پر نقصان ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا گیا اور اس نتیجے پر اتفاق ہوا کہ تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا مرحلہ گزر جائے گا اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو احتساب کے لیے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اب حالات اسی طرف جا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے درخواست دہندگان سے پوچھ کر عدالتی کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے اور سیاسی جماعتوں کو کہا ہے کہ وہ عدالتی کمیشن کے دائرہ ہائے اختیار اور طریقہ کار کے بارے میں اپنی تجاویز دیں۔ اپنی تجاویز ( ٹی او آرز ) جمع کرائیں۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کے ٹی او آرز پر اتفاق نہیں ہو سکا تو عدالت خود اپنے ٹی او آرز بنائے گی۔ عدالتی کمیشن کے قیام کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج اور دھرنے کا جواز کمزور ہو گیا ہے۔
دوسری طرف حکومت نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد آنے سے روکنے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی تھی، اس میں وہ ابھی تک کامیاب نظر آتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کا احتجاج آہستہ آہستہ دم توڑ دے گا اور تحریک انصاف کو بھی پھر اسی راستے پر آنا پڑے گا، جس راستے پر پیپلز پارٹی گامزن ہے۔ اس وقت حالات اگرچہ پوری طرح پرامن نہیں ہیں اور ملک میں سیاسی بحران موجود ہے۔ خدشات اور خطرات بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں لیکن تصادم کی سیاست زیادہ دیر نہیں چلے گی بشرطیکہ کوئی خون خرابہ نہ ہو۔ سندھ سے بہت کم لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میں شرکت کی۔ کچھ قافلے کراچی سے اسلام آباد روانہ ہوئے تھے لیکن وہ اسلام آباد نہیں پہنچ سکے۔
کراچی سے روانہ ہونے والا قافلہ کوئی بڑا نہیں تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو درست ہو گا کہ سندھ نے پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک اور دھرنے میں حصہ نہیں لیا۔ تحریک انصاف کی قیادت سندھ میں لوگوں کو متحرک نہیں کر سکی ہے۔ کراچی میں تحریک انصاف دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی لیکن کراچی سے بھی کوئی زیادہ لوگ دھرنے میں شریک ہونے کے لیے نہیں گئے۔ اس طرح پورا سندھ تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک سے بہت حد تک لاتعلق رہا۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف سندھ میں سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے آئندہ کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں اور وہ مسلسل عوامی رابطہ مہم میں مصروف ہیں۔ گذشتہ ہفتے بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے اسیر رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کی عیادت کرنے جناح اسپتال پہنچے اور انہوں نے وہاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عاصم حسین میاں نواز شریف کے سیاسی قیدی ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین کو بے گناہ قید میں رکھا گیا ہے اور ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ بلاول بھٹو کے وہاں آنے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اب پیپلز پارٹی کھل کر ڈاکٹر عاصم حسین کا ساتھ دے گی۔
اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اب ان لوگوں کے دفاع کے لیے بھی سامنے آئے گی، جنہیں نیب، ایف آئی اے اور دیگر وفاقی اداروں نے گرفتار کیا ہے یا جن کی گرفتاری کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں ۔ پیپلز پارٹی بہت عرصے تک خاموش رہی۔ اب وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف کھل کر مہم چلائے گی۔ بلاول بھٹو زرداری جمعہ 4 نومبر کو ڈہرکی ضلع گھوٹکی میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے بھی خطاب کریں گے اور یہ زیریں سندھ میں سیاسی مہم کا آغاز ہوگا۔