جہیزیا لڑکیوں کا استحصال
ہمارے معاشرے کو صرف کتابوں میں لکھے ہوئے قانون کی نہیں بلکہ نیک نیتی سے کیے جانے والے عملی اقدام کی ضرورت ہے
قدرت نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کا جوڑ بنایا اور دونوں فریق کے درمیان بہترین توازن قائم رکھا۔
ایک کو طاقت ور بنایا تو دوسرے کو نازک اندام بنا کر اس دنیا میں بھیجا۔ ایک کو ماں کا درجہ دے کر اس کے پیروں تلے جنت رکھ دی، تو دوسرے کو باپ کا رتبہ دے کر اس کے ہاتھ میں رزق کی باگ ڈور تھما دی۔ قدرت کی جانب سے بنائے گئے اس توازن کے قانون کی ایک شکل حقوق و فرائض ہے۔ یک ساں طور پر لاگو ہونے والی یہ ذمہ داریاں معاشرے کی بقا اور استحکام کے لیے بے انتہا ضروری ہیں، مگر جہاں بھی اس میںبے قاعدگی پیدا ہوتی ہے، حالات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
اس توازن کو بگاڑنے میں سب سے زیادہ ہاتھ ہماری فرسودہ رسومات کا ہے۔ جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود انہیں اس کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے۔ جیسے شادی جیسے آسان بندھن کو جہیز جیسی رسم سے جوڑکر پیچیدہ اور دشوار بنا دیا گیا۔
اکثر لڑکیوں کو جہیز کے پلڑے میں رکھ کر تولا اور جانچا جاتا ہے کہ کس کا وزن سب سے زیادہ ہے؟ کون سب سے زیادہ مال و اسباب لا کر سسرال والوں کا گھر بھر سکتی ہے؟ اس کے مقابلے میں اس لڑکی کا پلڑا سب سے ہلکا ہوتا ہے جس کے پاس ساتھ لانے کے لیے صرف سلیقہ، طریقہ، نرم مزاجی، خوش اخلاقی، اور اعلا سیرت جیسی خوبیاں موجود ہوں مگر جہیز کے لیے پیسہ نہ ہو۔
شادی تو ایجاب وقبول کا ایک ایسا بندھن ہے جو نہایت آسانی سے قائم ہو سکتا ہے، مگر لوگوں نے اسے کثرت رسومات کے جال میں گویا بند کر کے رکھ دیا ہے۔ تحائف کے نام پر نہایت قیمتی اشیا کا تبادلہ اور لین دین ایسے خوف ناک حقائق ہیں جسے پورا کرنا ہر ماں باپ کی استطاعت سے باہر ہے۔ اس کا نتیجہ کئی غریب گھرانوں کی لڑکیوں کے گھر بیٹھے رہ جانے کی صورت میں نکلتا ہے، مناسب بر کی آس میں ان کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بیٹے بیاہنے والی کسی خاتون کو اگر جہیز یا دیگر سامان کے لین دین کی بابت ٹوکا جائے تو جھٹ سے مثالیں دینے لگتی ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تو اپنی صاحب زادی کو جہیز دیا۔ اب ان کو یہ بات کیسے سمجھائی جائے کہ بی بی فاطمہ ؓکے جہیز کے ساتھ آج کے دیے جانے والے جہیز کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ رسالت مآب نے ہمیشہ سادگی کا درس دیا اور جو جہیز جناب فاطمہؓ کو دیا اس کا تعلق کسی لازمی شرط سے نہ تھا کہ جس کے بغیر شادی ہی ممکن نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے از خود یہ چیزیں عنایت فرمائی تھیں، جب کہ آج تو جہیز نکاح کی طرح لازم تصور کر لیا گیا ہے کہ گویا اس لین دین کے جھنجٹ کے بغیر شادی ہو ہی نہیں سکتی۔
آج خواتین جب اپنے بیٹے یا بھائی کی شادی کے لیے لڑکی کا انتخاب کرنے چلتی ہیں تو ایسے گھرانوں کو فوقیت دی جاتی ہے جو خوب بھر کے سامان دینے کی سکت رکھتے ہوں۔ کچھ گھرانے تو انسانیت کی ساری حدیں پھلانگ کر فرسودہ اور جاہلانہ رسومات کے نام پر علی الاعلان لوٹ مار کا ایک سلسلہ جاری رکھتے ہیں، جس میں مختلف رسومات کے ذریعے لڑکی والوں کی جیب خالی کرائی جاتی ہے، جب کہ کہیں تو باقاعدہ ایک لمبی چوڑی فہرست لڑکی والوںکو تھما دیتے ہیں، جو پہلے ہی بڑے دکھی دل سے اپنے جگر کا ٹکڑا ان کے حوالے کرنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔
نتیجتاً مجبور والدین بیٹی کو وداع کرنے کے بعد بھی کئی سال تک قرض کا بار اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں، جو انہوں نے بیٹی کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنے کے لیے لیا ہوتا ہے۔ اس رسم کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ایک طرح کی تنزلی کی طرف گام زن ہے۔ ایک طرف مہنگائی نے ایک عام آدمی کی کمر توڑ کرکھ دی ہے دوسری طرف اس مکروہ رواج کی وجہ سے لڑکی کا باپ اس قابل نہیں رہ پاتا کہ جہیز کے مروجہ معیار پورا کر پائے۔ مجبوراً بیٹی کو رخصت کرنے کی خاطر جائز و ناجائز طریقے سے پیسے کمانے کی دوڑ میں شامل ہو کر حلال اور حرام کی تمیز ہی بھول جاتا ہے کہیں بھائی اپنی بہن کو وداع کرنے کی دھن میں بے روزگاری کے باعث جرائم کی دنیا کو اپنا لیتا ہے۔
یہ کیسی ظالمانہ روایت ہے جسے ہم نے خوشی خوشی یوں اپنا لیا ہے، گویا ہمارے گھر میں بچیاں موجود ہی نہیں۔ نکاح کے بندھن میں بندھنے کے بعد جب لڑکا تاعمر ایک لڑکی کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو پھر وقتی آسودگی کے سامان لینے پر کیوں اصرار کیا جاتا ہے۔
جب میاں بیوی لازم و ملزوم اور ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں تو پھر مرد ایک خاتون کو شریک زندگی بناتے ہوئے اس کا شریک غم کیوں نہیں بنتا۔ عرب ممالک میں جہیز کا کوئی رواج نہیں بلکہ یہ روایت قائم ہے کہ لڑکا شریک حیات کو لانے سے پہلے اپنا گھر بناتا ہے۔ سارے انتظامات بھی لڑکے کے گھر والے یا لڑکا خود کرتا ہے۔
جہیز کے خلاف کتنا ہی کچھ بولا اور لکھا جاتا رہے جب تک لڑکے والے خود ایک بار اس کے خلاف میدان عمل میں نہیں آئیں گے یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ ذرا دوسروں کی بہن، بیٹی اپنے گھر لانے والی خواتین سوچیں تو سہی کہ کل انہوں نے بھی اپنے گھر کی لڑکیاں بیاہنی ہیں۔ آج اگر انہوں نے یہ اس روایت کی بیخ کنی نہ کی تو کل ان کے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے۔ بالفرض اگر ان کے گھر کے حالات اچھے بھی ہیں تو تب بھی یہ یاد رکھیں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، لہٰذا اپنی سوچ کو مثبت رخ دے کر معاشرے اور خود اپنے لیے آسانیاں پیدا کیجیے۔ نئی زندگی کی بنیاد رکھتے ہوئے کسی کا دل دُکھانا اچھی روایت نہیں۔
ہونے والی بہو بھی آپ کے گھر کا ایک لازمی فرد بننے آ رہی ہے تو اس کے گھر والوں پر اتنا بار کیوں ڈالا جائے؟ اگر ارد گرد نظر دوڑائی جائے تو کہیں کہیں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ اپنے ساتھ بے تحاشا مال و اسباب لانے والی بیوی، شوہر اور اس کے اہل خانہ کی دل سے عزت نہیں کرتی۔ اسے اپنی دولت کا غرور ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا جہیز بس نمود و نمایش بن کے رہ جاتا ہے۔ تاہم معاشرے میں اب بھی ایسے وضع دار گھرانے موجود ہیں جو جہیز کے لین دین سے دور رہتے ہیں۔ کتنے ہی جوڑے ایسے ہیں جو جہیز کے بغیر بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔
اس کے مقابلے میں کچھ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ ماں باپ نے بیٹی کو اتنا سامان دیا کہ لڑکے والوں کے یہاں رکھنے کی گنجائش نہیں، مگر پھر بھی ان کی بیٹی سسرال والوں کی خوشنودی حاصل نہیں کر پائی۔ اب ضرورت پورے معاشرے کی عملی تبدیلی کی ہے۔ مادی سامان کی جگہ اگر لڑکی حسنِ سیرت و اعلا اخلاق کا جہیز لے کر دوسرے گھر جائے، تو وہ گھر جنت کا نمونہ بن جائے۔
لڑکے کے والدین کو بھی چاہیے کہ وہ لاکھوں روپیہ غیر ضروری رسومات پر ضایع کرنے اور کروانے کے بجائے سادگی کو فروغ دیں تاکہ لڑکی کے والدین بیٹی کو رحمت سمجھ کر اس کی تعلیم و تربیت پر پیسہ خرچ کریں جوکہ آنے والی نسل کی بھلائی کے لیے ضروری ہے۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ مستحق جوڑوں کی شادی کرانے والے فلاحی ادارے تک لفظ جہیز کے بغیر آگے نہیں بڑھتے اور صاحب ثروت لوگوں کی جانب سے دی گئی مختلف اشیا دُلہن کو جہیز کے نام پر دیا جانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کی عَلم بردار تنظیموں کو چاہیے کہ وہ لڑکیوں کی شادیوں میں مسائل کی کمی کی خاطر جہیز کو قطعی نظر انداز نہ کریں بلکہ اس کے خلاف باقاعدہ مہم چلائیں۔
ہمارے معاشرے کو صرف کتابوں میں لکھے ہوئے قانون کی نہیں بلکہ نیک نیتی سے کیے جانے والے عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ عورتوں کے معاملے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیچھے کچھ عوامل جہیز نہ ملنے کی صورت میں ہونے والا تشدد بھی ہے۔ بعض جگہ تو حالات اور بھی سنگین ہیں جہاں جہیز کم دینے کی صورت میں لڑکیاں جھلس کر جاں بحق ہو جاتی ہیں اور واقعے کو ''چولہا پھٹنے'' کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے وسیع قانون سازی کی ضرورت ہے۔ خصوصاً خواتین پولیس اور طبی اداروں کو اس معاملے سے نمٹنے کے لیے مکمل تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ کیسے ان خواتین کی داد رسی کریں جو جہیز کی لعنت کے سبب ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہو کر نفسیاتی وجسمانی عوارض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔
ایک کو طاقت ور بنایا تو دوسرے کو نازک اندام بنا کر اس دنیا میں بھیجا۔ ایک کو ماں کا درجہ دے کر اس کے پیروں تلے جنت رکھ دی، تو دوسرے کو باپ کا رتبہ دے کر اس کے ہاتھ میں رزق کی باگ ڈور تھما دی۔ قدرت کی جانب سے بنائے گئے اس توازن کے قانون کی ایک شکل حقوق و فرائض ہے۔ یک ساں طور پر لاگو ہونے والی یہ ذمہ داریاں معاشرے کی بقا اور استحکام کے لیے بے انتہا ضروری ہیں، مگر جہاں بھی اس میںبے قاعدگی پیدا ہوتی ہے، حالات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
اس توازن کو بگاڑنے میں سب سے زیادہ ہاتھ ہماری فرسودہ رسومات کا ہے۔ جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود انہیں اس کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے۔ جیسے شادی جیسے آسان بندھن کو جہیز جیسی رسم سے جوڑکر پیچیدہ اور دشوار بنا دیا گیا۔
اکثر لڑکیوں کو جہیز کے پلڑے میں رکھ کر تولا اور جانچا جاتا ہے کہ کس کا وزن سب سے زیادہ ہے؟ کون سب سے زیادہ مال و اسباب لا کر سسرال والوں کا گھر بھر سکتی ہے؟ اس کے مقابلے میں اس لڑکی کا پلڑا سب سے ہلکا ہوتا ہے جس کے پاس ساتھ لانے کے لیے صرف سلیقہ، طریقہ، نرم مزاجی، خوش اخلاقی، اور اعلا سیرت جیسی خوبیاں موجود ہوں مگر جہیز کے لیے پیسہ نہ ہو۔
شادی تو ایجاب وقبول کا ایک ایسا بندھن ہے جو نہایت آسانی سے قائم ہو سکتا ہے، مگر لوگوں نے اسے کثرت رسومات کے جال میں گویا بند کر کے رکھ دیا ہے۔ تحائف کے نام پر نہایت قیمتی اشیا کا تبادلہ اور لین دین ایسے خوف ناک حقائق ہیں جسے پورا کرنا ہر ماں باپ کی استطاعت سے باہر ہے۔ اس کا نتیجہ کئی غریب گھرانوں کی لڑکیوں کے گھر بیٹھے رہ جانے کی صورت میں نکلتا ہے، مناسب بر کی آس میں ان کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بیٹے بیاہنے والی کسی خاتون کو اگر جہیز یا دیگر سامان کے لین دین کی بابت ٹوکا جائے تو جھٹ سے مثالیں دینے لگتی ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تو اپنی صاحب زادی کو جہیز دیا۔ اب ان کو یہ بات کیسے سمجھائی جائے کہ بی بی فاطمہ ؓکے جہیز کے ساتھ آج کے دیے جانے والے جہیز کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ رسالت مآب نے ہمیشہ سادگی کا درس دیا اور جو جہیز جناب فاطمہؓ کو دیا اس کا تعلق کسی لازمی شرط سے نہ تھا کہ جس کے بغیر شادی ہی ممکن نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے از خود یہ چیزیں عنایت فرمائی تھیں، جب کہ آج تو جہیز نکاح کی طرح لازم تصور کر لیا گیا ہے کہ گویا اس لین دین کے جھنجٹ کے بغیر شادی ہو ہی نہیں سکتی۔
آج خواتین جب اپنے بیٹے یا بھائی کی شادی کے لیے لڑکی کا انتخاب کرنے چلتی ہیں تو ایسے گھرانوں کو فوقیت دی جاتی ہے جو خوب بھر کے سامان دینے کی سکت رکھتے ہوں۔ کچھ گھرانے تو انسانیت کی ساری حدیں پھلانگ کر فرسودہ اور جاہلانہ رسومات کے نام پر علی الاعلان لوٹ مار کا ایک سلسلہ جاری رکھتے ہیں، جس میں مختلف رسومات کے ذریعے لڑکی والوں کی جیب خالی کرائی جاتی ہے، جب کہ کہیں تو باقاعدہ ایک لمبی چوڑی فہرست لڑکی والوںکو تھما دیتے ہیں، جو پہلے ہی بڑے دکھی دل سے اپنے جگر کا ٹکڑا ان کے حوالے کرنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔
نتیجتاً مجبور والدین بیٹی کو وداع کرنے کے بعد بھی کئی سال تک قرض کا بار اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں، جو انہوں نے بیٹی کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنے کے لیے لیا ہوتا ہے۔ اس رسم کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ایک طرح کی تنزلی کی طرف گام زن ہے۔ ایک طرف مہنگائی نے ایک عام آدمی کی کمر توڑ کرکھ دی ہے دوسری طرف اس مکروہ رواج کی وجہ سے لڑکی کا باپ اس قابل نہیں رہ پاتا کہ جہیز کے مروجہ معیار پورا کر پائے۔ مجبوراً بیٹی کو رخصت کرنے کی خاطر جائز و ناجائز طریقے سے پیسے کمانے کی دوڑ میں شامل ہو کر حلال اور حرام کی تمیز ہی بھول جاتا ہے کہیں بھائی اپنی بہن کو وداع کرنے کی دھن میں بے روزگاری کے باعث جرائم کی دنیا کو اپنا لیتا ہے۔
یہ کیسی ظالمانہ روایت ہے جسے ہم نے خوشی خوشی یوں اپنا لیا ہے، گویا ہمارے گھر میں بچیاں موجود ہی نہیں۔ نکاح کے بندھن میں بندھنے کے بعد جب لڑکا تاعمر ایک لڑکی کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو پھر وقتی آسودگی کے سامان لینے پر کیوں اصرار کیا جاتا ہے۔
جب میاں بیوی لازم و ملزوم اور ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں تو پھر مرد ایک خاتون کو شریک زندگی بناتے ہوئے اس کا شریک غم کیوں نہیں بنتا۔ عرب ممالک میں جہیز کا کوئی رواج نہیں بلکہ یہ روایت قائم ہے کہ لڑکا شریک حیات کو لانے سے پہلے اپنا گھر بناتا ہے۔ سارے انتظامات بھی لڑکے کے گھر والے یا لڑکا خود کرتا ہے۔
جہیز کے خلاف کتنا ہی کچھ بولا اور لکھا جاتا رہے جب تک لڑکے والے خود ایک بار اس کے خلاف میدان عمل میں نہیں آئیں گے یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ ذرا دوسروں کی بہن، بیٹی اپنے گھر لانے والی خواتین سوچیں تو سہی کہ کل انہوں نے بھی اپنے گھر کی لڑکیاں بیاہنی ہیں۔ آج اگر انہوں نے یہ اس روایت کی بیخ کنی نہ کی تو کل ان کے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے۔ بالفرض اگر ان کے گھر کے حالات اچھے بھی ہیں تو تب بھی یہ یاد رکھیں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، لہٰذا اپنی سوچ کو مثبت رخ دے کر معاشرے اور خود اپنے لیے آسانیاں پیدا کیجیے۔ نئی زندگی کی بنیاد رکھتے ہوئے کسی کا دل دُکھانا اچھی روایت نہیں۔
ہونے والی بہو بھی آپ کے گھر کا ایک لازمی فرد بننے آ رہی ہے تو اس کے گھر والوں پر اتنا بار کیوں ڈالا جائے؟ اگر ارد گرد نظر دوڑائی جائے تو کہیں کہیں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ اپنے ساتھ بے تحاشا مال و اسباب لانے والی بیوی، شوہر اور اس کے اہل خانہ کی دل سے عزت نہیں کرتی۔ اسے اپنی دولت کا غرور ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا جہیز بس نمود و نمایش بن کے رہ جاتا ہے۔ تاہم معاشرے میں اب بھی ایسے وضع دار گھرانے موجود ہیں جو جہیز کے لین دین سے دور رہتے ہیں۔ کتنے ہی جوڑے ایسے ہیں جو جہیز کے بغیر بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔
اس کے مقابلے میں کچھ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ ماں باپ نے بیٹی کو اتنا سامان دیا کہ لڑکے والوں کے یہاں رکھنے کی گنجائش نہیں، مگر پھر بھی ان کی بیٹی سسرال والوں کی خوشنودی حاصل نہیں کر پائی۔ اب ضرورت پورے معاشرے کی عملی تبدیلی کی ہے۔ مادی سامان کی جگہ اگر لڑکی حسنِ سیرت و اعلا اخلاق کا جہیز لے کر دوسرے گھر جائے، تو وہ گھر جنت کا نمونہ بن جائے۔
لڑکے کے والدین کو بھی چاہیے کہ وہ لاکھوں روپیہ غیر ضروری رسومات پر ضایع کرنے اور کروانے کے بجائے سادگی کو فروغ دیں تاکہ لڑکی کے والدین بیٹی کو رحمت سمجھ کر اس کی تعلیم و تربیت پر پیسہ خرچ کریں جوکہ آنے والی نسل کی بھلائی کے لیے ضروری ہے۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ مستحق جوڑوں کی شادی کرانے والے فلاحی ادارے تک لفظ جہیز کے بغیر آگے نہیں بڑھتے اور صاحب ثروت لوگوں کی جانب سے دی گئی مختلف اشیا دُلہن کو جہیز کے نام پر دیا جانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کی عَلم بردار تنظیموں کو چاہیے کہ وہ لڑکیوں کی شادیوں میں مسائل کی کمی کی خاطر جہیز کو قطعی نظر انداز نہ کریں بلکہ اس کے خلاف باقاعدہ مہم چلائیں۔
ہمارے معاشرے کو صرف کتابوں میں لکھے ہوئے قانون کی نہیں بلکہ نیک نیتی سے کیے جانے والے عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ عورتوں کے معاملے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیچھے کچھ عوامل جہیز نہ ملنے کی صورت میں ہونے والا تشدد بھی ہے۔ بعض جگہ تو حالات اور بھی سنگین ہیں جہاں جہیز کم دینے کی صورت میں لڑکیاں جھلس کر جاں بحق ہو جاتی ہیں اور واقعے کو ''چولہا پھٹنے'' کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے وسیع قانون سازی کی ضرورت ہے۔ خصوصاً خواتین پولیس اور طبی اداروں کو اس معاملے سے نمٹنے کے لیے مکمل تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ کیسے ان خواتین کی داد رسی کریں جو جہیز کی لعنت کے سبب ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہو کر نفسیاتی وجسمانی عوارض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔