کڑی دھوپ میں بے سایہ ہونے والے
والدین کی علیحدگی کی صورت میں بچے کو ایک بہت بڑی اور غیر متوقع تبدیلی کا سامنا ہوتا ہے.
خاندان معاشرتی اکائی ہے۔ خاندان کی بنیاد بننے والے میاں بیوی کا رشتہ بہت گہرا اور مضبوط ہونا چاہیے لیکن بعض اوقات یہ رشتہ کچھ اختلافات اور مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے، نتیجہ علیحدگی یا طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔
ایسی صورت میں بچے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے اگر یہ معاملہ بچوں سے پوشیدہ ہے تو انہیں اس سے کس طرح مطلع کیا جائے؟ اگرچہ فطری طور پر بچے معصوم ہوتے ہیں، لیکن ان کے غصیلے مزاج کی وجہ سے اس پر ان کا رد عمل شدید اور غیر متوقع بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے بچوں تک یہ خبر کسی ایسے فرد کے توسط سے پہنچائی جائے جس سے بچے زیادہ مانوس اور قریب ہوں۔ ایسے افراد بچوں کو یہ خبر سنانے کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا یقین بھی دلا سکتے ہیں کہ اس ناخوش گوار واقعے کے باوجود وہ تنہا نہیں ہیں۔
ایسے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں یقین دلائیں کہ الگ ہو جانے کے باوجود ان کا تعلق اب بھی مضبوط ہے۔ اگر والدین کی علیحدگی دائمی ہے اور طلاق پر منتج ہوئی ہو تو انہیں چاہیے بچوں کو اعتماد میں لیں تاکہ ان کے اختلافات کے اثرات بچے کی شخصیت پر نہ پڑیں۔ انہیں انفرادی طور پر بھی بچے کو اپنی اپنی محبت کا یقین دلانا چاہیے تاکہ بچے یہ نہ سمجھیں کہ اب ان کا سائبان اور خاندان ختم ہوگیا ہے۔ والدین بچے کو یہ خبر خود دیں، کسی اور کے توسط سے اس تک نہ پہنچائیں۔
صورت حال خواہ کچھ بھی رہی ہو لیکن والدین اپنے اپنے طور پر بچے کو یہ یقین ضرور دلائیں کہ اس صورت حال میں بچے کا کوئی قصور نہیں اور اس کی کسی قسم کی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ والدین کی علیحدگی کی صورت میں بچے کو ایک بہت بڑی اور غیر متوقع تبدیلی کا سامنا ہوتا ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس تبدیلی سے بچے کو جلد ازجلد آگاہ کر دیا جائے۔ والدین کو بچے سے براہ راست بات کرنی چاہیے اور اس کو اپنے ذہن میں آتے ہوئے سوالات پوچھنے کا موقع دینا چاہیے۔ بچے کو اعتماد دیجیے تاکہ وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کر سکیں اور ان کے ذہن میں کوئی گرہ نہ رہ جائے جو بعد میں ان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرے۔
والدین کو حتی الامکان اس کے سوالوں کے تسلی بخش جواب دینے چاہئیں کیوں کہ آیندہ زندگی میں ان کے اس فیصلے کا اثر بچے پر ہی پڑنے والا ہے اس لیے بچے کی غیر معمولی نگہ داشت ضروری ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بچے کے خراب تیور یا غصے کو بھی سکون سے برداشت کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس بڑے صدمے پر اس کا ردعمل فطری ہے۔ بچے کو پیار سے حقیقت حال اور معاملے کی نزاکت کا احساس دلایئے اور ان کو بتائیے کہ اس واقعے کے باوجود آپ سے ان کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہنے والا ہے۔ ساتھ ہی بچوں کو خود اعتمادی کے احساس سے روشناس کرائیں، کیوں کہ بچوں کو کسی نہ کسی طور گھر کے حالات سے کچھ نہ کچھ واقفیت ضروری ہوتی ہے لیکن اکثر اوقات وہ ان کو سنجیدگی سے محسوس نہیں کر پاتے۔
والدین بچے کو اپنی علیحدگی کی براہ راست خبر دینے سے پہلے ان سے یہ ضرور پوچھیں کہ انہیں گھر کے حالات میں کچھ کشیدگی محسوس تو ہوئی ہوگی، تو ان کے خیال میں اس کا کیا سبب ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ بچوں کو آزادی کے ساتھ خود سوچنے، مشاہدہ کرنے، سوال کرنے اور نتیجہ نکالنے کا موقع دیں۔ اس سے خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جان لیں گے کہ جو کچھ ہوا وہ اس قدر بھی غیر متوقع نہیں تھا۔ مزید یہ کہ بچوں کو اپنے سوچنے اور مشاہدہ کرنے کی صلاحیتوں کا درست ادراک بھی ہوگا جو ان کی آیندہ زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگر والدین کی علیحدگی کی وجوہات کچھ ایسی ہوں کہ جن کا تذکرہ بچے کے سامنے مناسب نہیں تو اس کو بتا دیں کہ کچھ ذاتی وجوہات تھیں جن کے متعلق اس کا سوچنا اور تجسس کرنا مناسب نہیں، لیکن ظاہر ہے بچہ اس بات سے مطمئن نہیں ہوگا۔ اگر وہ اس سے متعلق سوالات کرے تو اسے کرنے دیں اور مناسب جواب بھی دیں، یہ والدین کی حیثیت سے آپ کی ذمے داری ہے۔
اس موقع پر ماں اور باپ کی حیثیت سے سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ بچے کو ہر گز ایک دوسرے کے خلاف نہ کریں، کیوں کہ علیحدگی والدین کے باہمی اختلافات اور کشیدگی کے باعث ہوتی ہے۔ اس میں بچے فریق ہوتے ہیں نہ ہی بچے کا کوئی قصور ہے۔ وہ تو اپنے والدین سے محبت کرتا ہے اور اس کی ان سے کوئی رنجش بھی نہیں۔ لہٰذا اپنے اختلافات میں بچے کو شریک نہ کریں۔ اس کے سامنے ایک دوسرے کے لیے ناپسندیدہ کلمات استعمال کریں اور نہ ہی الزام دیں، اس طرح بچے کے دل میں نفرت کے جذبات جنم لیں گے جو اس کی شخصیت کو توڑ پھوڑ سکتے ہیں۔ بچے کو اس مقام پر مت لائیے کہ جہاں اس کو والدین میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا پڑے۔
یاد رکھیئے، بچے کے لیے ہر عمر میں ماں، باپ دونوں بہت ضروری ہیں اور ان کے دل میں دونوں کا بھرم اور عزت ناگزیر ہے۔ بچے کو اس بات کا یقین دلائیے کہ ان کو جب بھی اپنے والدین کی ضرورت محسوس ہو گی وہ ان کے پاس ہوں گے۔ والدین بچے کے ہر سوال کا جواب دینے اور اس کی ہر شکایت کا ازالہ کرنے کا حوصلہ پیدا کریں کیوں کہ ان سے زیادہ بہتر طریقے سے ان کے بچے کا خیال کوئی اور نہیں رکھ سکتا۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کو اپنے جذبات کے اظہار کا موقع دیں۔ دراصل بچوں میں عام طور پر برداشت کی کمی ہوتی ہے۔ وہ اپنے احساسات و جذبات کا فوری اظہار کر دیتے ہیں۔ غصہ، دکھ، تکلیف اور چڑچڑے پن کو وہ ذرا کم ہی چھپاتے ہیں۔ والدین کی علیحدگی کی صورت میں ان کا ردعمل کبھی کبھی بہت شدید بھی ہو سکتا ہے۔ ان کا جو بھی ردعمل ہو اس کا سامنا کریں۔ وہ اگر رونا چاہیں تو انہیں ایسا کر لینے دیں، ان کے لیے دکھ کا اظہار بہت ضروری ہے، بچے کی ذہنی و نفسیاتی کیفیات کو ابتر ہونے سے بچانے کے لیے بات چیت کے ذریعے ان کی دلی کیفیات کو ان کی زبان پر لے آئیے۔ کہہ سن کر ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا اور وہ بہادری اور اعتماد کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔
بچوں کو تنہا مت چھوڑیں۔ ان کو اپنے ساتھ، محبت اور تعاون کا مسلسل یقین دلاتے رہیں اور مختلف سرگرمیوں اور دل چسپیوں میں انہیں مصروف اور متحرک رکھنے کی کوشش کریں۔ مشکل وقت میں والدین بچوں کو ذہنی و جذباتی سہارا دینے کے لیے موجود رہیں۔
انہیں چند اہم اور بے حد ضروری باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ مثلاً:
بچے کے احساسات ہر چیز سے زیادہ اہم ہیں اگر بچہ اپنے کسی احساس کا اظہار آپ سے کرنا چاہتا ہے تو اپنے سارے کام ایک طرف کر کے پوری توجہ بچے کی جانب مبذول کر لیں، کسی بھی طرح کی اکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ ظاہر نہ کریں، بچے کو یقین دلائیے کہ آپ اس کی بات پر پوری توجہ دے رہے ہیں۔
بچہ اگر دکھ یا غصے کا اظہار کر رہا ہو تو اس کو دبانے کے بجائے اظہار کا کھل کر موقع دیں کیوں کہ یہ فطری کیفیات ہیں جو فوری طور پر ختم ہونے والی نہیں۔ بلکہ چند ماہ یا چند سال تک بچے پر ان کیفیات کا اثر رہے گا۔ بچے کے احساسات و جذبات پر فوری تنقید ہر گز مت کریں۔ وہ جو کہہ رہا ہے اسے کہنے دیں، اگر کچھ سمجھانا ہوتو پہلے اس کے جذبات اچھی طرح نکلنے دیں پھر اپنی بات سمجھانے کی کوشش کریں۔ اگر بچہ آپ سے بہت مانوس ہے تو آپ اس کو اپنے بھرپور ساتھ کا یقین دلائیے، وہ رونا چاہے تو اپنا کندھا پیش کر دیں، سہارا چاہے تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور اگر وہ آپ کی بھرپور محبت چاہے تو اسے اپنے سینے سے لگا لیں۔
والدین کے لیے بچے کا اعتماد بحال کرنا اور اسے برقرار رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ ممکن ہے ابتدا میں کچھ مشکل ہو مگر جلد ہی صورت حال بہتری کی طرف آنے لگے گی، پھر حالات خواہ کیسے ہی ہوں، بچہ ان کا مقابلہ بہادری اور خود اعتمادی کے ساتھ کر لے گا۔ یہاں سب سے ضروری اور اہم بات بچوں میں اعتماد قائم کرنا ہے۔ خود اعتمادی ایک بڑی دولت ہے جسے بچوں کی شخصیت کا حصہ بنا دیں، تاکہ وہ خود اعتمادی کے ساتھ دنیا کے ہر طرح کے مصائب کا مقابلہ کر سکیں۔
ایسی صورت میں بچے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے اگر یہ معاملہ بچوں سے پوشیدہ ہے تو انہیں اس سے کس طرح مطلع کیا جائے؟ اگرچہ فطری طور پر بچے معصوم ہوتے ہیں، لیکن ان کے غصیلے مزاج کی وجہ سے اس پر ان کا رد عمل شدید اور غیر متوقع بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے بچوں تک یہ خبر کسی ایسے فرد کے توسط سے پہنچائی جائے جس سے بچے زیادہ مانوس اور قریب ہوں۔ ایسے افراد بچوں کو یہ خبر سنانے کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا یقین بھی دلا سکتے ہیں کہ اس ناخوش گوار واقعے کے باوجود وہ تنہا نہیں ہیں۔
ایسے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں یقین دلائیں کہ الگ ہو جانے کے باوجود ان کا تعلق اب بھی مضبوط ہے۔ اگر والدین کی علیحدگی دائمی ہے اور طلاق پر منتج ہوئی ہو تو انہیں چاہیے بچوں کو اعتماد میں لیں تاکہ ان کے اختلافات کے اثرات بچے کی شخصیت پر نہ پڑیں۔ انہیں انفرادی طور پر بھی بچے کو اپنی اپنی محبت کا یقین دلانا چاہیے تاکہ بچے یہ نہ سمجھیں کہ اب ان کا سائبان اور خاندان ختم ہوگیا ہے۔ والدین بچے کو یہ خبر خود دیں، کسی اور کے توسط سے اس تک نہ پہنچائیں۔
صورت حال خواہ کچھ بھی رہی ہو لیکن والدین اپنے اپنے طور پر بچے کو یہ یقین ضرور دلائیں کہ اس صورت حال میں بچے کا کوئی قصور نہیں اور اس کی کسی قسم کی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ والدین کی علیحدگی کی صورت میں بچے کو ایک بہت بڑی اور غیر متوقع تبدیلی کا سامنا ہوتا ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس تبدیلی سے بچے کو جلد ازجلد آگاہ کر دیا جائے۔ والدین کو بچے سے براہ راست بات کرنی چاہیے اور اس کو اپنے ذہن میں آتے ہوئے سوالات پوچھنے کا موقع دینا چاہیے۔ بچے کو اعتماد دیجیے تاکہ وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کر سکیں اور ان کے ذہن میں کوئی گرہ نہ رہ جائے جو بعد میں ان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرے۔
والدین کو حتی الامکان اس کے سوالوں کے تسلی بخش جواب دینے چاہئیں کیوں کہ آیندہ زندگی میں ان کے اس فیصلے کا اثر بچے پر ہی پڑنے والا ہے اس لیے بچے کی غیر معمولی نگہ داشت ضروری ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بچے کے خراب تیور یا غصے کو بھی سکون سے برداشت کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس بڑے صدمے پر اس کا ردعمل فطری ہے۔ بچے کو پیار سے حقیقت حال اور معاملے کی نزاکت کا احساس دلایئے اور ان کو بتائیے کہ اس واقعے کے باوجود آپ سے ان کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہنے والا ہے۔ ساتھ ہی بچوں کو خود اعتمادی کے احساس سے روشناس کرائیں، کیوں کہ بچوں کو کسی نہ کسی طور گھر کے حالات سے کچھ نہ کچھ واقفیت ضروری ہوتی ہے لیکن اکثر اوقات وہ ان کو سنجیدگی سے محسوس نہیں کر پاتے۔
والدین بچے کو اپنی علیحدگی کی براہ راست خبر دینے سے پہلے ان سے یہ ضرور پوچھیں کہ انہیں گھر کے حالات میں کچھ کشیدگی محسوس تو ہوئی ہوگی، تو ان کے خیال میں اس کا کیا سبب ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ بچوں کو آزادی کے ساتھ خود سوچنے، مشاہدہ کرنے، سوال کرنے اور نتیجہ نکالنے کا موقع دیں۔ اس سے خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جان لیں گے کہ جو کچھ ہوا وہ اس قدر بھی غیر متوقع نہیں تھا۔ مزید یہ کہ بچوں کو اپنے سوچنے اور مشاہدہ کرنے کی صلاحیتوں کا درست ادراک بھی ہوگا جو ان کی آیندہ زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگر والدین کی علیحدگی کی وجوہات کچھ ایسی ہوں کہ جن کا تذکرہ بچے کے سامنے مناسب نہیں تو اس کو بتا دیں کہ کچھ ذاتی وجوہات تھیں جن کے متعلق اس کا سوچنا اور تجسس کرنا مناسب نہیں، لیکن ظاہر ہے بچہ اس بات سے مطمئن نہیں ہوگا۔ اگر وہ اس سے متعلق سوالات کرے تو اسے کرنے دیں اور مناسب جواب بھی دیں، یہ والدین کی حیثیت سے آپ کی ذمے داری ہے۔
اس موقع پر ماں اور باپ کی حیثیت سے سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ بچے کو ہر گز ایک دوسرے کے خلاف نہ کریں، کیوں کہ علیحدگی والدین کے باہمی اختلافات اور کشیدگی کے باعث ہوتی ہے۔ اس میں بچے فریق ہوتے ہیں نہ ہی بچے کا کوئی قصور ہے۔ وہ تو اپنے والدین سے محبت کرتا ہے اور اس کی ان سے کوئی رنجش بھی نہیں۔ لہٰذا اپنے اختلافات میں بچے کو شریک نہ کریں۔ اس کے سامنے ایک دوسرے کے لیے ناپسندیدہ کلمات استعمال کریں اور نہ ہی الزام دیں، اس طرح بچے کے دل میں نفرت کے جذبات جنم لیں گے جو اس کی شخصیت کو توڑ پھوڑ سکتے ہیں۔ بچے کو اس مقام پر مت لائیے کہ جہاں اس کو والدین میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا پڑے۔
یاد رکھیئے، بچے کے لیے ہر عمر میں ماں، باپ دونوں بہت ضروری ہیں اور ان کے دل میں دونوں کا بھرم اور عزت ناگزیر ہے۔ بچے کو اس بات کا یقین دلائیے کہ ان کو جب بھی اپنے والدین کی ضرورت محسوس ہو گی وہ ان کے پاس ہوں گے۔ والدین بچے کے ہر سوال کا جواب دینے اور اس کی ہر شکایت کا ازالہ کرنے کا حوصلہ پیدا کریں کیوں کہ ان سے زیادہ بہتر طریقے سے ان کے بچے کا خیال کوئی اور نہیں رکھ سکتا۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کو اپنے جذبات کے اظہار کا موقع دیں۔ دراصل بچوں میں عام طور پر برداشت کی کمی ہوتی ہے۔ وہ اپنے احساسات و جذبات کا فوری اظہار کر دیتے ہیں۔ غصہ، دکھ، تکلیف اور چڑچڑے پن کو وہ ذرا کم ہی چھپاتے ہیں۔ والدین کی علیحدگی کی صورت میں ان کا ردعمل کبھی کبھی بہت شدید بھی ہو سکتا ہے۔ ان کا جو بھی ردعمل ہو اس کا سامنا کریں۔ وہ اگر رونا چاہیں تو انہیں ایسا کر لینے دیں، ان کے لیے دکھ کا اظہار بہت ضروری ہے، بچے کی ذہنی و نفسیاتی کیفیات کو ابتر ہونے سے بچانے کے لیے بات چیت کے ذریعے ان کی دلی کیفیات کو ان کی زبان پر لے آئیے۔ کہہ سن کر ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا اور وہ بہادری اور اعتماد کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔
بچوں کو تنہا مت چھوڑیں۔ ان کو اپنے ساتھ، محبت اور تعاون کا مسلسل یقین دلاتے رہیں اور مختلف سرگرمیوں اور دل چسپیوں میں انہیں مصروف اور متحرک رکھنے کی کوشش کریں۔ مشکل وقت میں والدین بچوں کو ذہنی و جذباتی سہارا دینے کے لیے موجود رہیں۔
انہیں چند اہم اور بے حد ضروری باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ مثلاً:
بچے کے احساسات ہر چیز سے زیادہ اہم ہیں اگر بچہ اپنے کسی احساس کا اظہار آپ سے کرنا چاہتا ہے تو اپنے سارے کام ایک طرف کر کے پوری توجہ بچے کی جانب مبذول کر لیں، کسی بھی طرح کی اکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ ظاہر نہ کریں، بچے کو یقین دلائیے کہ آپ اس کی بات پر پوری توجہ دے رہے ہیں۔
بچہ اگر دکھ یا غصے کا اظہار کر رہا ہو تو اس کو دبانے کے بجائے اظہار کا کھل کر موقع دیں کیوں کہ یہ فطری کیفیات ہیں جو فوری طور پر ختم ہونے والی نہیں۔ بلکہ چند ماہ یا چند سال تک بچے پر ان کیفیات کا اثر رہے گا۔ بچے کے احساسات و جذبات پر فوری تنقید ہر گز مت کریں۔ وہ جو کہہ رہا ہے اسے کہنے دیں، اگر کچھ سمجھانا ہوتو پہلے اس کے جذبات اچھی طرح نکلنے دیں پھر اپنی بات سمجھانے کی کوشش کریں۔ اگر بچہ آپ سے بہت مانوس ہے تو آپ اس کو اپنے بھرپور ساتھ کا یقین دلائیے، وہ رونا چاہے تو اپنا کندھا پیش کر دیں، سہارا چاہے تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور اگر وہ آپ کی بھرپور محبت چاہے تو اسے اپنے سینے سے لگا لیں۔
والدین کے لیے بچے کا اعتماد بحال کرنا اور اسے برقرار رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ ممکن ہے ابتدا میں کچھ مشکل ہو مگر جلد ہی صورت حال بہتری کی طرف آنے لگے گی، پھر حالات خواہ کیسے ہی ہوں، بچہ ان کا مقابلہ بہادری اور خود اعتمادی کے ساتھ کر لے گا۔ یہاں سب سے ضروری اور اہم بات بچوں میں اعتماد قائم کرنا ہے۔ خود اعتمادی ایک بڑی دولت ہے جسے بچوں کی شخصیت کا حصہ بنا دیں، تاکہ وہ خود اعتمادی کے ساتھ دنیا کے ہر طرح کے مصائب کا مقابلہ کر سکیں۔