کاش کوئی اس جانب بھی توجہ دے
علم نے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی اوراسے تحقیق پر آمادہ کیا۔
بہت عرصہ قبل کیمبرج یونیورسٹی کی ایک دستاویزی فلمTriumph of the Westدیکھی تھی۔کئی کیسٹوں پر مشتمل اس فلم کا مرکزی خیال گو مختلف حوالوں سے مغرب کی دیگر اقوام پر برتری ثابت کرناتھا مگراس فلم سے ایک اہم سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ اقوام جوحصولِ علم کی جستجو میں رہتی ہیں اورتحقیق و تخلیق کی سرپرستی کرتے ہوئے انسانی وسائل کا صحیح استعمال کرتی ہیں،وہ دنیا پرضرورغالب آتی ہیں۔اس سلسلے میںسابق صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹرذاکر حسین کا ایک مضمون بھی فکر انگیزہے۔وہ لکھتے ہیں کہ'' میں جب بھی غیر ملکی دور پر جاتاہوں،تواس ملک کے نظام تعلیم کاضرور مطالعہ کرتا ہوں۔
اگر کسی ملک کے بازاروں میں بہت چہل پہل نظر آئے، دکانوں کے شوکیسوں میں اعلیٰ درجے کی مصنوعات بھی سجی ہوں،مگر اس کا نظام تعلیم کمزور ہو،تو سمجھ لیتاہوں کہ یہ معاشرہ زوال پذیر ہے اور جلد فنا کے دہانے تک پہنچنے والا ہے۔اس کے برعکس کسی ملک کے بازاروں میں بھیڑ کم ہو، دکانوں میں بکنے والامال بھی معمولی ہولیکن اس کا تعلیمی نظام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو،تویہ دعویٰ کرنے سے گریز نہیں کرتا کہ اس ملک کا مستقبل درخشاں ہے۔'' معرف عرب شاعر خلیل جبران کا کہناہے کہ'' علم تمہارے اندر کوئی نئی صلاحیت پیدانھیں کرتا،بلکہ تمہاری خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرکے تمہاری وسعت نظری میں اضافہ کرتاہے۔''
آج دنیا جس بلند ترین مقام تک پہنچی ہے اور انسان نے جو ارتقائی منازل طے کی ہیں،ان میں علم کا بہت بڑاکردارہے۔علم نے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کوجلابخشی اوراسے تحقیق پر آمادہ کیا۔ یہ علم ہی ہے، جو انسان کو نت نئے تجربات اور تخلیقات پر اکساتاہے ،جس کے نتیجے میںنئی نئی ایجادات سامنے آتی ہیں،جن سے پورا عالم ِانسانیت فیضیاب ہوتاہے۔دھاتوں کی دریافت سے پہیے کی ایجاد تک انسان نے سیکڑوں برس جاننے کی جستجو میں گزاردیے۔لیکن جب ایجادات کا سلسلہ شروع ہواتواب اس کے رکنا ممکن نہیں۔یہ عمل اس وقت تک جاری رکے گا جب تک یہ کرہ ارض اپنے مدارپر گردش کررہاہے۔انسان مسلسل جو ایجادات کررہاہے، ان کے اثرات اس کی سماجی زندگی پرمرتب ہورہے ہیں۔ یوںسائنس پیداواری ذرایع میں تبدیلی لارہی ہے۔ پیدارواری ذرایع میں ہونے والی تبدیلی انسانی معاشروں کی فکری،سیاسی اور سماجی زندگی پر اثرانداز ہورہی ہے۔یوں پرانی اور فرسودہ معاشرتوں کی جگہ نئی معاشرتیں لے رہی ہیں۔
معروف تاریخ دان پروفیسرٹوئن بی کے مطابق دنیاکی معلوم تاریخ میں28تہذیبوں نے جنم لیا،جن میں سے20 وقت کی گرد تلے دب کر تاریخ کا حصہ بن گئیں۔لیکن جو 8تہذیبیں اس وقت دنیامیں موجود ہیں،ان میں سب سے طاقتورتہذیب صنعتی انقلاب کے نتیجے میںپیداہوئی ہے۔اس تہذیب کی وسعت اور ہمہ گیری دیگرتمام تہذیبوں سے کہیں زیادہ ہے،اس لیے اس میں تادیر قائم رہنے کا پوٹینشیل موجودہے۔یہی سبب ہے کہ تمامتر چیلنجوںکے باوجود یہ تہذیب مزید مستحکم ہورہی ہے۔
پروفیسر ہنٹنگٹن نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف The Clash of Civilizationمیں تقریباًاسی نوعیت کی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ان کا یہ موقف کسی حد تک درست ہے کہ بعض انسانی گروہ شناخت کے بحران کا شکار ہیںاور وہ صنعتی تہذیب کوعقائد کے تناظرمیں دیکھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے ٹکرائو کی سی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔چنانچہ بعض شدت پسندقوتیں آج کل جس اندازمیں ردعمل ظاہر کررہی ہیں اس سے پروفیسر ہنٹنگٹن کا موقف درست ہوتا نظر آرہاہے۔
علم کے تہذیب وتمدن پر اثرات کامطالعہ کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی دیکھناہوگا کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں بعض اقوام اورانسانی گروہ تیزی کے ساتھ ابھرے،مگر علم کی دولت سے بے بہرہ ہونے کے سبب جلد ہی تاریخ کی گرد تلے دب گئے۔ ان گروہوں کی مثال ان بگولوںجیسی ہے،جو صحرامیں طوفانی اندازمیں اٹھتے ہیں ، مگر جلد ہی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔اس سلسلے میںتیرھویں صدی میں تاتاریوں کے عروج وزوال کا مطالعہ خاصا اہم ہے۔چنگیزخان کی قیات میںتاتاری صحرا گوبی سے ایک بڑے طوفان کی مانند اٹھے، انھوں نے راستے میں آنے والی ہر ریاست کو تاراج کیا اورکشتوں کے پشتے لگاتے بغداد تک جاپہنچے۔
بغداد جو اس وقت علم وحکمت اورتہذیب وتمدن کا ایک بڑا مرکز،نحیف وناتواں حکومت کے سبب زوال آمادہ تھا،تاتاریوں کی جھولی میں پکے ہوئے آم کی طرح گرگیا۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ تاتاریوں نے بغداد کی سیاسی طورپر کمزور ریاست کو تو تہس نہس کردیا، مگروہ اس تہذیب کو نقصان نہیں پہنچاسکے،جو عربوں نے ایرانیوں کی مدد سے کئی سوبرس میں پروان چڑھائی تھی۔اس کے برعکس طوفان کی طرح یکے بعد دیگرے کئی ریاستوںکو تاراج کرنے والے تاتاری علم وحکمت سے دور ہونے کے سبب بہت جلد تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے۔
دوسری جانب عرب آٹھویں صدی میں تیزی کے ساتھ جزیرہ نما عرب حجازسے ابھرے،مگر جلد ہی انھوں نے نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغرایک وسیع سلطنت قائم کرلی۔اس سلطنت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے علم وآگہی کو فروغ دیتے ہوئے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔نویں سے بارھویں صدی کے تین سوسالہ دور کے مسلم علماء اور حکماء نے یونانی اور ہندی علوم سے اکتساب کیا اور ان کے تراجم کرکے سائنس، فلسفہ اور ادب وموسیقی کی مبادات سے دنیا کوازسرنو آگہی دی۔ ڈاکٹر اقبال احمد مرحوم لکھتے ہیں کہ اگر اس وقت مذہبی اکابرین سائنسی تحقیق اور تخلیقات سے خوفزدہ ہوکر مزاحمت نہ کرتے اور حکمران ان کا راستہ نہ روکتے تو ہوسکتا تھا کہ صنعتی انقلاب یورپ سے بہت پہلے مسلم دنیا میں طلوع ہوچکاہوتا۔
لیکن اس پہلو پر تعصب سے بلند ہوکر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پوری مسلم دنیا میںبارھویں صدی تک کوئی معروف جامعہ نہیں تھی جس میں عصری علوم کی باضابطہ تعلیم کا سلسلہ جاری ہو۔ قاہرہ میں ایک جامعہ الازہرتھی، مگر انیسویں صدی تک وہاں صرف دینی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔اس کے برعکس انگلستان میں آکسفرڈیونیورسٹی1096ء میں قائم ہوئی اور 1213ء میںکیمبرج مکمل جامعہ بن چکی تھی۔یہ درست ہے کہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں کئی برس تک بوعلی سینا، جابر بن حیان، ابن الہیثم،ابن رشد، الکندی ،فارابی اور دیگر حکماء کو پڑھایاجاتا رہا۔ لیکن خود ان فلسفیوں پر اپنی مملکتوں میں کیا گذری ، یہ ایک دردناک کہانی ہے۔
سیکیولر ریاست کا اولین تصور دینے والے ابن رشد کی تحاریرکو خلیفہ منصور ثانی کے حکم پر قرطبہ کے چوک میں نذر آتش کیا جاتا ہے۔الکندی پرارتدادکا الزام لگتاہے۔ فارابی کومعتزلہ قرار دے کر اس کی تکفیر کی جاتی ہے۔معروف ریاضی دان اور شاعرعمر خیام پر ایران میں حلقہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔وہ ملک چھوڑکر مصر فرار ہونے پر مجبورہوتاہے۔ایک ایسے ماحول میں علماء، حکماء اور فلسفیوں سے تحقیق وتخلیق کی کس طرح توقع کی جاسکتی ہے۔
مسلم دنیا کے فلاسفر اور سائنسدان تو حکمرانوں اور مذہبی رہنمائوں کی چیرہ دستیوں کے نتیجے میں پسپائی کا شکار ہوگئے۔مگر یورپ کے اہل دانش نے ریاست اورکلیساکے جبر واستبداد کے خلاف اپنی جنگ تسلسل کے ساتھ جاری رکھی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا سورج طلوع ہوااورعلم کے پھیلائو کے راستے کی دیواریں آہستہ آہستہ ڈھنے لگیں۔انگلستان میں یہ لڑائی قانونی جنگ کی شکل میں لڑی گئی۔ فرانس میں مقتدر اشرافیہ کی مزاحمت کے ردعمل میں خونی انقلاب آیا، جب کہ جرمنی اور دیگر ممالک میں اشرافیہ نے اپنا قبلہ از خود درست کرنا شروع کردیا۔جیسا کہ ابتداء میں کہا گیاہے کہ یورپ نے اپنے علم، تحقیقی وتجربے سے صرف ایک نئی تہذیب کی بنیاد نہیں رکھی، بلکہ اپنے آلات حرب کو بھی وقت کے ساتھ جدید بنایا،تاکہ اس تہذیب کی حفاظت کی جاسکے جواس نے طویل محنت کے بعد پروان چڑھائی ہے۔
مسلم دنیاکاا لمیہ یہ ہے کہ تیرھویں صدی کے بعد اس پر قدامت پرستی کا غلبہ ہے ،جس کی وجہ سے خرد افروزی اور عقلیت پسندی کے تمام دروازے بند کردیے گئے ہیں۔گماشتہ حکمرانوںکو اپنے اقتدار اورعیش وعشرت سے فرصت نہیں کہ وہ عوام کی فکر کرسکیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کے56ممالک میں عالمی معیار کی کوئی جامعہ اور کوئی تحقیقی ادارہ نہیں ہے۔ کسی ملک کی حکومت سائنسی وسماجی علوم کی تحقیق کے لیے بجٹ مختص کرنے اور تخلیق کاروں کی سرپرستی کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔تیل کی دولت سے مالامال ملکوں کے دولت مند شیوخ اپنی ایک رات کی عیاشی پر لاکھوں ڈالر صرف کردیتے ہیں، مگر تعلیمی نظام میں بہتری لانے کی فکر نہیں کرتے۔
ان کے وسیع حرموں میں موجود دوشیزائوںپر کروڑوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں،مگر عالمی معیار کی جامعہ قائم کرنے کے لیے ان کے پاس رقم اور وقت نہیں ہے۔پاکستان جیساملک جہاں قدرتی اور انسانی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے،پان اسلام ازم کے ایڈونچر نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑاہے۔ پاکستان جس میں جدید دنیا سے قدم ملاکرچلنے کا بھرپور پوٹینشیل ہے، اپنے اندرونی تضادات میں الجھ کر اپنی توانائی ضایع کررہاہے،مگرحکمران اشرافیہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔کاش اس جانب بھی کوئی توجہ دے سکے اور پاکستان میںنظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرکے اسے ترقی دوست سمت دے سکے۔
اگر کسی ملک کے بازاروں میں بہت چہل پہل نظر آئے، دکانوں کے شوکیسوں میں اعلیٰ درجے کی مصنوعات بھی سجی ہوں،مگر اس کا نظام تعلیم کمزور ہو،تو سمجھ لیتاہوں کہ یہ معاشرہ زوال پذیر ہے اور جلد فنا کے دہانے تک پہنچنے والا ہے۔اس کے برعکس کسی ملک کے بازاروں میں بھیڑ کم ہو، دکانوں میں بکنے والامال بھی معمولی ہولیکن اس کا تعلیمی نظام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو،تویہ دعویٰ کرنے سے گریز نہیں کرتا کہ اس ملک کا مستقبل درخشاں ہے۔'' معرف عرب شاعر خلیل جبران کا کہناہے کہ'' علم تمہارے اندر کوئی نئی صلاحیت پیدانھیں کرتا،بلکہ تمہاری خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرکے تمہاری وسعت نظری میں اضافہ کرتاہے۔''
آج دنیا جس بلند ترین مقام تک پہنچی ہے اور انسان نے جو ارتقائی منازل طے کی ہیں،ان میں علم کا بہت بڑاکردارہے۔علم نے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کوجلابخشی اوراسے تحقیق پر آمادہ کیا۔ یہ علم ہی ہے، جو انسان کو نت نئے تجربات اور تخلیقات پر اکساتاہے ،جس کے نتیجے میںنئی نئی ایجادات سامنے آتی ہیں،جن سے پورا عالم ِانسانیت فیضیاب ہوتاہے۔دھاتوں کی دریافت سے پہیے کی ایجاد تک انسان نے سیکڑوں برس جاننے کی جستجو میں گزاردیے۔لیکن جب ایجادات کا سلسلہ شروع ہواتواب اس کے رکنا ممکن نہیں۔یہ عمل اس وقت تک جاری رکے گا جب تک یہ کرہ ارض اپنے مدارپر گردش کررہاہے۔انسان مسلسل جو ایجادات کررہاہے، ان کے اثرات اس کی سماجی زندگی پرمرتب ہورہے ہیں۔ یوںسائنس پیداواری ذرایع میں تبدیلی لارہی ہے۔ پیدارواری ذرایع میں ہونے والی تبدیلی انسانی معاشروں کی فکری،سیاسی اور سماجی زندگی پر اثرانداز ہورہی ہے۔یوں پرانی اور فرسودہ معاشرتوں کی جگہ نئی معاشرتیں لے رہی ہیں۔
معروف تاریخ دان پروفیسرٹوئن بی کے مطابق دنیاکی معلوم تاریخ میں28تہذیبوں نے جنم لیا،جن میں سے20 وقت کی گرد تلے دب کر تاریخ کا حصہ بن گئیں۔لیکن جو 8تہذیبیں اس وقت دنیامیں موجود ہیں،ان میں سب سے طاقتورتہذیب صنعتی انقلاب کے نتیجے میںپیداہوئی ہے۔اس تہذیب کی وسعت اور ہمہ گیری دیگرتمام تہذیبوں سے کہیں زیادہ ہے،اس لیے اس میں تادیر قائم رہنے کا پوٹینشیل موجودہے۔یہی سبب ہے کہ تمامتر چیلنجوںکے باوجود یہ تہذیب مزید مستحکم ہورہی ہے۔
پروفیسر ہنٹنگٹن نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف The Clash of Civilizationمیں تقریباًاسی نوعیت کی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ان کا یہ موقف کسی حد تک درست ہے کہ بعض انسانی گروہ شناخت کے بحران کا شکار ہیںاور وہ صنعتی تہذیب کوعقائد کے تناظرمیں دیکھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے ٹکرائو کی سی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔چنانچہ بعض شدت پسندقوتیں آج کل جس اندازمیں ردعمل ظاہر کررہی ہیں اس سے پروفیسر ہنٹنگٹن کا موقف درست ہوتا نظر آرہاہے۔
علم کے تہذیب وتمدن پر اثرات کامطالعہ کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی دیکھناہوگا کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں بعض اقوام اورانسانی گروہ تیزی کے ساتھ ابھرے،مگر علم کی دولت سے بے بہرہ ہونے کے سبب جلد ہی تاریخ کی گرد تلے دب گئے۔ ان گروہوں کی مثال ان بگولوںجیسی ہے،جو صحرامیں طوفانی اندازمیں اٹھتے ہیں ، مگر جلد ہی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔اس سلسلے میںتیرھویں صدی میں تاتاریوں کے عروج وزوال کا مطالعہ خاصا اہم ہے۔چنگیزخان کی قیات میںتاتاری صحرا گوبی سے ایک بڑے طوفان کی مانند اٹھے، انھوں نے راستے میں آنے والی ہر ریاست کو تاراج کیا اورکشتوں کے پشتے لگاتے بغداد تک جاپہنچے۔
بغداد جو اس وقت علم وحکمت اورتہذیب وتمدن کا ایک بڑا مرکز،نحیف وناتواں حکومت کے سبب زوال آمادہ تھا،تاتاریوں کی جھولی میں پکے ہوئے آم کی طرح گرگیا۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ تاتاریوں نے بغداد کی سیاسی طورپر کمزور ریاست کو تو تہس نہس کردیا، مگروہ اس تہذیب کو نقصان نہیں پہنچاسکے،جو عربوں نے ایرانیوں کی مدد سے کئی سوبرس میں پروان چڑھائی تھی۔اس کے برعکس طوفان کی طرح یکے بعد دیگرے کئی ریاستوںکو تاراج کرنے والے تاتاری علم وحکمت سے دور ہونے کے سبب بہت جلد تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے۔
دوسری جانب عرب آٹھویں صدی میں تیزی کے ساتھ جزیرہ نما عرب حجازسے ابھرے،مگر جلد ہی انھوں نے نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغرایک وسیع سلطنت قائم کرلی۔اس سلطنت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے علم وآگہی کو فروغ دیتے ہوئے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔نویں سے بارھویں صدی کے تین سوسالہ دور کے مسلم علماء اور حکماء نے یونانی اور ہندی علوم سے اکتساب کیا اور ان کے تراجم کرکے سائنس، فلسفہ اور ادب وموسیقی کی مبادات سے دنیا کوازسرنو آگہی دی۔ ڈاکٹر اقبال احمد مرحوم لکھتے ہیں کہ اگر اس وقت مذہبی اکابرین سائنسی تحقیق اور تخلیقات سے خوفزدہ ہوکر مزاحمت نہ کرتے اور حکمران ان کا راستہ نہ روکتے تو ہوسکتا تھا کہ صنعتی انقلاب یورپ سے بہت پہلے مسلم دنیا میں طلوع ہوچکاہوتا۔
لیکن اس پہلو پر تعصب سے بلند ہوکر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پوری مسلم دنیا میںبارھویں صدی تک کوئی معروف جامعہ نہیں تھی جس میں عصری علوم کی باضابطہ تعلیم کا سلسلہ جاری ہو۔ قاہرہ میں ایک جامعہ الازہرتھی، مگر انیسویں صدی تک وہاں صرف دینی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔اس کے برعکس انگلستان میں آکسفرڈیونیورسٹی1096ء میں قائم ہوئی اور 1213ء میںکیمبرج مکمل جامعہ بن چکی تھی۔یہ درست ہے کہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں کئی برس تک بوعلی سینا، جابر بن حیان، ابن الہیثم،ابن رشد، الکندی ،فارابی اور دیگر حکماء کو پڑھایاجاتا رہا۔ لیکن خود ان فلسفیوں پر اپنی مملکتوں میں کیا گذری ، یہ ایک دردناک کہانی ہے۔
سیکیولر ریاست کا اولین تصور دینے والے ابن رشد کی تحاریرکو خلیفہ منصور ثانی کے حکم پر قرطبہ کے چوک میں نذر آتش کیا جاتا ہے۔الکندی پرارتدادکا الزام لگتاہے۔ فارابی کومعتزلہ قرار دے کر اس کی تکفیر کی جاتی ہے۔معروف ریاضی دان اور شاعرعمر خیام پر ایران میں حلقہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔وہ ملک چھوڑکر مصر فرار ہونے پر مجبورہوتاہے۔ایک ایسے ماحول میں علماء، حکماء اور فلسفیوں سے تحقیق وتخلیق کی کس طرح توقع کی جاسکتی ہے۔
مسلم دنیا کے فلاسفر اور سائنسدان تو حکمرانوں اور مذہبی رہنمائوں کی چیرہ دستیوں کے نتیجے میں پسپائی کا شکار ہوگئے۔مگر یورپ کے اہل دانش نے ریاست اورکلیساکے جبر واستبداد کے خلاف اپنی جنگ تسلسل کے ساتھ جاری رکھی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا سورج طلوع ہوااورعلم کے پھیلائو کے راستے کی دیواریں آہستہ آہستہ ڈھنے لگیں۔انگلستان میں یہ لڑائی قانونی جنگ کی شکل میں لڑی گئی۔ فرانس میں مقتدر اشرافیہ کی مزاحمت کے ردعمل میں خونی انقلاب آیا، جب کہ جرمنی اور دیگر ممالک میں اشرافیہ نے اپنا قبلہ از خود درست کرنا شروع کردیا۔جیسا کہ ابتداء میں کہا گیاہے کہ یورپ نے اپنے علم، تحقیقی وتجربے سے صرف ایک نئی تہذیب کی بنیاد نہیں رکھی، بلکہ اپنے آلات حرب کو بھی وقت کے ساتھ جدید بنایا،تاکہ اس تہذیب کی حفاظت کی جاسکے جواس نے طویل محنت کے بعد پروان چڑھائی ہے۔
مسلم دنیاکاا لمیہ یہ ہے کہ تیرھویں صدی کے بعد اس پر قدامت پرستی کا غلبہ ہے ،جس کی وجہ سے خرد افروزی اور عقلیت پسندی کے تمام دروازے بند کردیے گئے ہیں۔گماشتہ حکمرانوںکو اپنے اقتدار اورعیش وعشرت سے فرصت نہیں کہ وہ عوام کی فکر کرسکیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کے56ممالک میں عالمی معیار کی کوئی جامعہ اور کوئی تحقیقی ادارہ نہیں ہے۔ کسی ملک کی حکومت سائنسی وسماجی علوم کی تحقیق کے لیے بجٹ مختص کرنے اور تخلیق کاروں کی سرپرستی کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔تیل کی دولت سے مالامال ملکوں کے دولت مند شیوخ اپنی ایک رات کی عیاشی پر لاکھوں ڈالر صرف کردیتے ہیں، مگر تعلیمی نظام میں بہتری لانے کی فکر نہیں کرتے۔
ان کے وسیع حرموں میں موجود دوشیزائوںپر کروڑوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں،مگر عالمی معیار کی جامعہ قائم کرنے کے لیے ان کے پاس رقم اور وقت نہیں ہے۔پاکستان جیساملک جہاں قدرتی اور انسانی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے،پان اسلام ازم کے ایڈونچر نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑاہے۔ پاکستان جس میں جدید دنیا سے قدم ملاکرچلنے کا بھرپور پوٹینشیل ہے، اپنے اندرونی تضادات میں الجھ کر اپنی توانائی ضایع کررہاہے،مگرحکمران اشرافیہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔کاش اس جانب بھی کوئی توجہ دے سکے اور پاکستان میںنظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرکے اسے ترقی دوست سمت دے سکے۔