تقسیم برصغیر کی تہہ میں کیا تھا
ایوب کابینہ کے وزیر قانون بنگالی نمایندوں کو مشورہ دے رہے تھے کہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہو جائیں .
پاکستان اور بھارت نے نئے ویزہ معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ معاہدہ 15 جنوری2013ء سے نافذ العمل ہوگا۔ بھارتی اور پاکستانی وزیر داخلہ نے ایک تقریب میں بیک وقت ریموٹ بٹن دبا کر نئے ویزا سسٹم کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ نے کہا کہ انھوں نے دنیا بھر میں بھارتی سفارت خانوں کو اس ویزا سسٹم کے اجرا سے متعلق ہدایات جاری کر دی ہیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ نئے ویزا سسٹم کے آغاز سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔
انھوں نے نئے ویزا سسٹم کے اجرا کو خوش آیند قرار دیا۔ اب پاکستانی شہری بھارت کے پانچ شہروں کا ویزا حاصل کر سکیں گے جب کہ سیاحت کے ویزے کی مدت دو سال تک بڑھا دی گئی ہے۔ 12 سال سے چھوٹے اور65 سال سے بڑی عمر کے افراد کو اٹاری اور واہگہ بارڈر پر 45 دن کا ویزا مل جائے گا۔ نئے نظام کے تحت وہ تاجر حضرات جن کی آمدن سالانہ 50 لاکھ روپے ہے، ان کو پولیس رپورٹ سے استثنیٰ دیا گیا ہے، اس طرح گروپ ٹرانزٹ ویزہ جس گروپ میں کم سے کم اور زیادہ سے پچاس افراد ہوں گے، انھیں بھی پولیس رپورٹ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا بھی گروپ ٹرانزٹ ویزے سے استفادہ کر سکیں گے۔ نئے ویزہ معاہدے کے تحت تاجر حضرات بھارت کے دس شہروں میں جا سکیں گے۔ اس سے قبل مسافر بھارت کے لیے لاہور اور کراچی سے ہوائی جہازکے ذریعے جا سکتے تھے لیکن اب اس میں اسلام آباد کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دونوں ملکوں کے شہریوں کی آمدروفت کے حوالے سے بے شک یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ یاد رہے کہ 1965ء کی جنگ سے پہلے دونوں ملکوں کے باشندے ایک دوسرے کے ہاں باآسانی آجا سکتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 65ء کی جنگ تک نہ صرف آمدورفت بلکہ تجارت بھی بحال تھی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ برصغیر کے عوام کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی بلکہ اس خطے کے خلاف سازشوں کا آغاز تھی جس کا فائدہ سامراج نے اٹھایا۔
1960ء کی دہائی میں بنگالی عوام کے جذبات مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ابھر کر سامنے آ چکے تھے اور جنرل ایوب آمریت کے خلاف کھل کر نفرت کا اظہار کیا جا رہا تھا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایوب کابینہ کے وزیر قانون بنگالی نمایندوں کو مشورہ دے رہے تھے کہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہو جائیں جب کہ بنگالیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان تو ہم نے بنایا ہے، ہم کیوں علیحدہ ہوں جس میں پنجاب کی لیڈر شپ کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 65ء کی جنگ نے بنگالیوں میں ایسا عدم تحفظ پیدا کیا کہ ان کے مغربی پاکستان سے فاصلے اور بڑھ گئے۔ اس کیفیت کی شدت اتنی زیادہ بڑھی کہ اس جنگ کے صرف چار سال بعد پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ پاکستان توڑنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اس کے بغیر سوویت یونین کو توڑا نہیں جا سکتا تھا۔
دنیا میں اس وقت سرد جنگ عروج پر تھی جو کسی بھی وقت گرم جنگ میں بدل سکتی تھی۔ افغانستان میں بادشاہ ظاہر شاہ کے خلاف عوامی تحریک چل رہی تھی۔ پاکستانی حکمران طبقات اس کھیل میں پوری طرح ملوث تھے جو امریکی سامراج اپنے حریف سوویت یونین کے خلاف کر رہا تھا کہ ہر قیمت پر سوویت یونین کو افغانستان میں ٹریپ کیا جائے اور یہی وہ وقت تھا جب افغانستان کے مذہبی عناصر کی سرپرستی کا ''آغاز'' کیا گیا۔ عین اس وقت جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ایک ''سنگین غلطی'' سرزد ہو گئی کہ اس نے ''شفاف انتخابات'' کرا دیے جس کے نتیجے میں موجودہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت قائم ہو گئی لیکن اس کو نظام مصطفیٰ کے نام پر احتجاجی تحریک چلا کر ختم کر دیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ اس لیے ضروری تھا کہ وہ امریکی سامراج کی اس سازش کا حصہ نہیں بن سکتی تھی جس کے ذریعے سوویت یونین کا خاتمہ مقصود تھا۔ 1977ء میں پاکستانی اپوزیشن نے نظام مصطفیٰ تحریک کے ذریعے جسے امریکا اور برطانیہ کی تائید حاصل تھی۔ بھٹو حکومت کا خاتمہ کردیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد افغانستان کے عوام نے بادشاہت کا خاتمہ کر کے سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیا۔ اس کے فوراً بعد ایرانی انقلاب نے اس خطے میں سامراجی مفادات کی محافظ ایرانی شہنشاہیت کا خاتمہ کر کے سامراجی دنیا میں قیامت برپا کر دی اور یہ سب کچھ 1965ء سے 1979ء کے درمیان 14 سال کے مختصر عرصے میں ہوا۔ 14 کے ہندسے کی بڑی اہمیت ہے جس نے ہمارے خطے میں اتنی بڑی تبدیلیاں پیدا کیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے لیے پہلے 65ء کی پاک بھارت جنگ کرائی گئی، اس کے آخری نتیجے میں پاکستان کو دو ٹکڑے کیا گیا۔
کیونکہ باشعور باخبر بنگالی کبھی بھی متحدہ پاکستان میں رہتے ہوئے افغانستان میں امریکی جہاد کا حصہ نہیں بن سکتے تھے نہ اس کی اجازت دے سکتے تھے۔ یہ مغربی پاکستانی عوام کی قبائلی اور جاگیرداری پر مبنی سوچ تھی جسے پاکستانی حکمران طبقات نے استعمال کرکے افغانستان میں امریکی جہاد کا حصہ بنا دیا۔ عوامی انقلاب کے نتیجے میں روسی شہنشاہیت کا خاتمہ کرتے ہوئے سوویت یونین وجود میں آیا جس کے خاتمے کے لیے سازشیں سامراج نے ابتدا سے ہی شروع کر دی تھیں، برصغیر کی تقسیم پاکستان اور بھارت کی شکل میں اس لیے ہوئی کہ کہیں برصغیر اس عوامی انقلاب کی لپیٹ میں نہ آ جائے جس میں سرمایہ دارانہ نظام اور ان استحصالی طبقات کا خاتمہ ہو جاتا جنہوں نے ہزاروں سال سے مظلوم عوام کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔
برصغیر کی تقسیم پرامن بھی ہو سکتی تھی لیکن اس کو خونیں بنانا اس لیے ضروری تھا تاکہ بہت بڑے پیمانے پر پاکستانی پنجاب سے ہندوئوں اور سکھوں کا انخلا عمل میں لایا جا سکے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہندوئوں سکھوں کی موجودگی میں بھی افغانستان میں امریکی جہاد نہیں ہو سکتا تھا۔ اس طرح پاکستانی پنجاب سے سکھوں اور ہندوئوں کا انخلا ممکن بنا کر امریکی سامراج نے اس مذہبیت اور مذہبی جنونیت کو ہوا دی جس کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان قتل اور ایک بھی امریکی فوجی ہلاک ہوئے بغیر امریکا اس جنگ میں دنیا کا بادشاہ بن گیا۔ وہ برصغیر جہاں سیکڑوں برسوں سے مسلمان ہندوئوں اور سکھوں کی برداشت رواداری مثالی تھی اور وہ ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات میں کھلے دل سے شرکت کرتے تھے۔ لاہور جیسا شہر جہاں ہندوئوں سکھوں اور مسلمانوں کا تناسب 49 اور 51 فیصد تھا۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے اور صرف یہی نہیں مسلمانوں کی عددی اکثریت جو اس وقت برصغیر میں 60 کروڑ ہے کو تین حصوں بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش میں تقسیم کر کے بھارت سمیت برصغیر پر ظالمانہ ہندو اکثریت مسلط کر دی گئی... رہے نام اللہ کا...
مصری صدر محمد مرسی اور ''امریکی بہار عرب'' کا مصر اور مشرق وسطی میں کیا مستقبل ہے اس کا پتہ فروری اور مارچ 2013ء میں چلے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997
انھوں نے نئے ویزا سسٹم کے اجرا کو خوش آیند قرار دیا۔ اب پاکستانی شہری بھارت کے پانچ شہروں کا ویزا حاصل کر سکیں گے جب کہ سیاحت کے ویزے کی مدت دو سال تک بڑھا دی گئی ہے۔ 12 سال سے چھوٹے اور65 سال سے بڑی عمر کے افراد کو اٹاری اور واہگہ بارڈر پر 45 دن کا ویزا مل جائے گا۔ نئے نظام کے تحت وہ تاجر حضرات جن کی آمدن سالانہ 50 لاکھ روپے ہے، ان کو پولیس رپورٹ سے استثنیٰ دیا گیا ہے، اس طرح گروپ ٹرانزٹ ویزہ جس گروپ میں کم سے کم اور زیادہ سے پچاس افراد ہوں گے، انھیں بھی پولیس رپورٹ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا بھی گروپ ٹرانزٹ ویزے سے استفادہ کر سکیں گے۔ نئے ویزہ معاہدے کے تحت تاجر حضرات بھارت کے دس شہروں میں جا سکیں گے۔ اس سے قبل مسافر بھارت کے لیے لاہور اور کراچی سے ہوائی جہازکے ذریعے جا سکتے تھے لیکن اب اس میں اسلام آباد کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دونوں ملکوں کے شہریوں کی آمدروفت کے حوالے سے بے شک یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ یاد رہے کہ 1965ء کی جنگ سے پہلے دونوں ملکوں کے باشندے ایک دوسرے کے ہاں باآسانی آجا سکتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 65ء کی جنگ تک نہ صرف آمدورفت بلکہ تجارت بھی بحال تھی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ برصغیر کے عوام کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی بلکہ اس خطے کے خلاف سازشوں کا آغاز تھی جس کا فائدہ سامراج نے اٹھایا۔
1960ء کی دہائی میں بنگالی عوام کے جذبات مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ابھر کر سامنے آ چکے تھے اور جنرل ایوب آمریت کے خلاف کھل کر نفرت کا اظہار کیا جا رہا تھا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایوب کابینہ کے وزیر قانون بنگالی نمایندوں کو مشورہ دے رہے تھے کہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہو جائیں جب کہ بنگالیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان تو ہم نے بنایا ہے، ہم کیوں علیحدہ ہوں جس میں پنجاب کی لیڈر شپ کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 65ء کی جنگ نے بنگالیوں میں ایسا عدم تحفظ پیدا کیا کہ ان کے مغربی پاکستان سے فاصلے اور بڑھ گئے۔ اس کیفیت کی شدت اتنی زیادہ بڑھی کہ اس جنگ کے صرف چار سال بعد پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ پاکستان توڑنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اس کے بغیر سوویت یونین کو توڑا نہیں جا سکتا تھا۔
دنیا میں اس وقت سرد جنگ عروج پر تھی جو کسی بھی وقت گرم جنگ میں بدل سکتی تھی۔ افغانستان میں بادشاہ ظاہر شاہ کے خلاف عوامی تحریک چل رہی تھی۔ پاکستانی حکمران طبقات اس کھیل میں پوری طرح ملوث تھے جو امریکی سامراج اپنے حریف سوویت یونین کے خلاف کر رہا تھا کہ ہر قیمت پر سوویت یونین کو افغانستان میں ٹریپ کیا جائے اور یہی وہ وقت تھا جب افغانستان کے مذہبی عناصر کی سرپرستی کا ''آغاز'' کیا گیا۔ عین اس وقت جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ایک ''سنگین غلطی'' سرزد ہو گئی کہ اس نے ''شفاف انتخابات'' کرا دیے جس کے نتیجے میں موجودہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت قائم ہو گئی لیکن اس کو نظام مصطفیٰ کے نام پر احتجاجی تحریک چلا کر ختم کر دیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ اس لیے ضروری تھا کہ وہ امریکی سامراج کی اس سازش کا حصہ نہیں بن سکتی تھی جس کے ذریعے سوویت یونین کا خاتمہ مقصود تھا۔ 1977ء میں پاکستانی اپوزیشن نے نظام مصطفیٰ تحریک کے ذریعے جسے امریکا اور برطانیہ کی تائید حاصل تھی۔ بھٹو حکومت کا خاتمہ کردیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد افغانستان کے عوام نے بادشاہت کا خاتمہ کر کے سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیا۔ اس کے فوراً بعد ایرانی انقلاب نے اس خطے میں سامراجی مفادات کی محافظ ایرانی شہنشاہیت کا خاتمہ کر کے سامراجی دنیا میں قیامت برپا کر دی اور یہ سب کچھ 1965ء سے 1979ء کے درمیان 14 سال کے مختصر عرصے میں ہوا۔ 14 کے ہندسے کی بڑی اہمیت ہے جس نے ہمارے خطے میں اتنی بڑی تبدیلیاں پیدا کیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے لیے پہلے 65ء کی پاک بھارت جنگ کرائی گئی، اس کے آخری نتیجے میں پاکستان کو دو ٹکڑے کیا گیا۔
کیونکہ باشعور باخبر بنگالی کبھی بھی متحدہ پاکستان میں رہتے ہوئے افغانستان میں امریکی جہاد کا حصہ نہیں بن سکتے تھے نہ اس کی اجازت دے سکتے تھے۔ یہ مغربی پاکستانی عوام کی قبائلی اور جاگیرداری پر مبنی سوچ تھی جسے پاکستانی حکمران طبقات نے استعمال کرکے افغانستان میں امریکی جہاد کا حصہ بنا دیا۔ عوامی انقلاب کے نتیجے میں روسی شہنشاہیت کا خاتمہ کرتے ہوئے سوویت یونین وجود میں آیا جس کے خاتمے کے لیے سازشیں سامراج نے ابتدا سے ہی شروع کر دی تھیں، برصغیر کی تقسیم پاکستان اور بھارت کی شکل میں اس لیے ہوئی کہ کہیں برصغیر اس عوامی انقلاب کی لپیٹ میں نہ آ جائے جس میں سرمایہ دارانہ نظام اور ان استحصالی طبقات کا خاتمہ ہو جاتا جنہوں نے ہزاروں سال سے مظلوم عوام کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔
برصغیر کی تقسیم پرامن بھی ہو سکتی تھی لیکن اس کو خونیں بنانا اس لیے ضروری تھا تاکہ بہت بڑے پیمانے پر پاکستانی پنجاب سے ہندوئوں اور سکھوں کا انخلا عمل میں لایا جا سکے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہندوئوں سکھوں کی موجودگی میں بھی افغانستان میں امریکی جہاد نہیں ہو سکتا تھا۔ اس طرح پاکستانی پنجاب سے سکھوں اور ہندوئوں کا انخلا ممکن بنا کر امریکی سامراج نے اس مذہبیت اور مذہبی جنونیت کو ہوا دی جس کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان قتل اور ایک بھی امریکی فوجی ہلاک ہوئے بغیر امریکا اس جنگ میں دنیا کا بادشاہ بن گیا۔ وہ برصغیر جہاں سیکڑوں برسوں سے مسلمان ہندوئوں اور سکھوں کی برداشت رواداری مثالی تھی اور وہ ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات میں کھلے دل سے شرکت کرتے تھے۔ لاہور جیسا شہر جہاں ہندوئوں سکھوں اور مسلمانوں کا تناسب 49 اور 51 فیصد تھا۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے اور صرف یہی نہیں مسلمانوں کی عددی اکثریت جو اس وقت برصغیر میں 60 کروڑ ہے کو تین حصوں بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش میں تقسیم کر کے بھارت سمیت برصغیر پر ظالمانہ ہندو اکثریت مسلط کر دی گئی... رہے نام اللہ کا...
مصری صدر محمد مرسی اور ''امریکی بہار عرب'' کا مصر اور مشرق وسطی میں کیا مستقبل ہے اس کا پتہ فروری اور مارچ 2013ء میں چلے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997