عمران خان کی انتخابی حکمت عملی
عمران خان تو شریف برادران کو اپنا ہدف سمجھتے ہی ہیں، مگرپنجاب حکومت نے بھی یہ تاثر دیا کہ ن لیگ بھی گبھرائی ہوئی ہے۔
TEHRAN:
عمران خان کی تحریک انصاف کا قیام اگرچہ 16سال پہلے 1996ء میں عمل میں آیا تھا ، تاہم ایک سال پہلے 30 اکتوبر2011ء کو لاہورمیں تاریخی جلسے میں اس نے دوبارہ جنم لیا ہے ۔ اس جلسے کی اہمیت یہ تھی کہ یہ پنجاب میں برسراقتدار شریف برادران کے سیاسی گڑھ میں ہو رہا تھا۔
30 اکتوبر کی شام تک تحریک انصاف کو برائے نام سمجھا جا رہا تھالیکن مینار پاکستان کے سایے تلے جیسے جیسے یہ جلسہ رنگ پکڑتا گیا ، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ یہ بہت گہرے سیاسی مضمرات لیے ہوئے ہے ۔شہر لاہور میں 16 اپریل 1986ء کے بے نظیر بھٹو کے استقبالی جلسے کے بعد یہ سب سے بڑا جلسہ تھا۔ میں نے دورطالب علمی میں بے نظیر بھٹو کا جلسہ اور عمران خان کا جلسہ ، جلسہ گاہ کے اندر بیٹھ کر دیکھے ہیں۔ لاہور میں شریف برادران ، طاہر القادری ، اور حافظ سعید کے جلسے بھی ہوتے رہے ہیں ، مگر سچی بات ہے ، ان میں سے کوئی جلسہ بھی بے نظیر بھٹو اورعمران خان کے جلسوں کا ثانی نظر نہیں آیا۔
عمران خان کا یہی جلسہ ہے ، جس نے تحریک انصاف کو راتوں رات قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کی صف میں شامل کردیا ۔ ، وہ تمام سیاسی پرندے ، جو مسلم لیگ ق اورپیپلزپارٹی سے اڑ کر مسلم لیگ ن کی طرف محو پرواز تھے ، دوران پرواز ہی انھوں نے اپنا رخ بدل کر تحریک انصاف کی طرف کر لیا ۔شاہ محمود قریشی ، خورشید محمود قصوری ،میاں محمد اظہر ، جہانگیر ترین ، اورسکندربوسن،اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔30اکتوبر 2012 کو تحریک انصاف اس طرح دوبارہ ظہورپذیر نہ ہوتی ، تو یقینی طور پر ان سب کی منزل مسلم لیگ ن تھی ۔ مسلم لیگ ن نے اس'' نقصان '' کو تو'' منافع '' میں سے نقصان سمجھ کر قبول کر لیا ، لیکن جلد ہی تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کے اصل زرکو چھیننا شروع کر دیا۔ مشرف دور میں، جب شریف خاندان جدہ چلا گیا، تو پاکستان میں دس سال تک جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن کا دوسرا نام تھے ۔
مسلم لیگ ن کے احتجاجی جلسوں میں نعرہ گونجا کرتا تھا : اک بہادرآدمی ، ہاشمی ہاشمی ۔ مسلم لیگ ن سے وابستگی رکھنے کے جُرم میں جاوید ہاشمی نے طویل عرصہ جیل میں گزارا ۔ 24 دسمبر 2011ء کو جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف میں شمولیت سے مسلم لیگ ن کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ پنجاب کی حد تک تحریک انصاف کا براہ راست ہدف کوئی اور نہیں ، مسلم لیگ ن اورشریف برادران ہیں ۔ یہ بات بظاہر منطقی معلوم ہوتی ہے ۔کیونکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن بلاشرکت غیرے حکومت کررہی ہے ، اور پیپلزپارٹی کا کم از کم پنجاب میں کوئی عمل دخل ہی نہیں۔ ایسے میں ، کوئی سیاسی جماعت ، اگر ن لیگ کی تقلید میں پیپلزپارٹی کو نشانہ بناتی ہے ، تو اس کا سیاسی اور انتخابی فائدہ، صرف ن لیگ کو ہوگا۔پنجاب میں پیپلزپارٹی کی مخالفت کامطلب ہوگا، اپوزیشن کی اپوزیشن ۔ پنجاب میں یہ بات بہت پہلے چوہدری پرویزالٰہی نے سمجھ لی تھی ۔ ظاہر ہے ، عمران خان بھی یہ بات سمجھتے ہیں ۔
عمران خان تو شریف برادران کو اپنا ہدف سمجھتے ہی ہیں، مگر پنجاب حکومت نے ایسے اقدامات کیے جس سے یہ تاثر پختہ ہوگیا کہ ن لیگ بھی گبھرائی ہوئی ہے۔ 30 اکتوبر 2011ء کے بعد پنجاب میں ن لیگ کی حکومت نے جو بھی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں، کالی پیلیاں ٹیکسیاں ، آسان شرائط پر قرضے ، لیپ ٹاپ کی اسکیم ، یہ سب کی سب عمران خان کی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہیں ۔ میاں شہباز شریف سمجھ رہے ہیں کہ انھوں نے عمران خان کے اسٹوڈنٹ ووٹ بینک کے اندر لیپ ٹاپ اسکیم کا ٹائم بم فٹ کردیاہے تاہم حتمی طورپریہ الیکشن کے دن ہی معلوم ہوگا کہ عمران خان کے خلاف ن لیگ کی یہ لیپ ٹاپ منصوبہ بندی کس حد تک کامیاب ہے ۔ انتخابات کے موقع پر کئی دفعہ کچھ اس قسم کی صورت حال بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ ووٹر ، ٹرانسپورٹ کسی اور کی استعمال کرتے ہیں،اورپولنگ بوتھ کے اندر جاکر ووٹ کسی اور کو دے آتے ہیں ۔تحریک انصاف کوپورایقین ہے کہ لیپ ٹاپ اسکیم کا انجام بھی یہی ہو گا۔
شریف برادران اپنے مخالفین کی کرپشن کا بہت چرچا کرتے ہیں ؛ لیکن اعتراف کرنا پڑتا ہے نوازشریف کے برعکس یہ عمران خان ہیں ، جنھوں نے ملکی سیاست میں پہلی بار کرپشن کو ایک سنجیدہ ایشو کے طورپر لیا ، ورنہ اس سے پہلے یہ صرف ایک الیکشن اسٹنٹ سمجھا جاتا تھا۔ 1996ء میں تحریک انصاف کے قیام کے موقع پر پہلی پریس کانفرنس میں عمران خان کا سارا زور سیاست میںکرپشن کے خاتمہ پر نظر آتا ہے ۔ عمران خان کے بروئے کار آنے سے پیشتر سیاست میں کرپشن کے خاتمہ کا کوئی باقاعدہ ادارہ موجود نہیں تھا۔ 1997ء کا میاں نوازشریف کا احتساب بیورو ہو ، یا1999ء جنرل پرویزمشرف کا قومی احتساب بیورو( نیب ) یہ ساری کارروائیاں 1996ء تحریک انصاف کے قیام کے بعد ڈالی گئی ہیں ۔
میاں نوازشریف نے کرپشن کے خاتمہ کو ایک بنیادی نعرہ کے طور پر1996ء کے بعد استعمال کرنا شروع کیا ۔اسی بنیاد پر میاں صاحبان اور عمران خان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ 1997ء کے الیکشن میں ، ن لیگ کی میڈیا ٹیم نے عمران خان کی ذاتی زندگی اس قدر آلودہ ظاہر کی کہ یہ اختلافات ، مخاصمت میں بدل گئے ۔ پچھلے16سال میں یہ صرف جنرل مشرف کا آخری دور ، ایک مختصر سا وقفہ ہے ، جس میں عدلیہ کی بحالی کے ایشو پر عمران خان اور میاں نوازشریف مشترکہ پلیٹ فارم پر نظر آتے ہیں۔ لیکن، 2007ء میں آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں کے برخلاف الیکشن میں حصہ لینے اور 2009ء میں لانگ مارچ راستے میں ختم کرنے پر ، یہ اختلافات پہلے سے کہیںزیادہ شدت اختیار کرگئے ۔
عمران خان کی مشکل یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور میاں صاحبان پر تنقید کرنا ان کی سیاسی مجبوری بن چکی ہے ۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اگر وہ نوازشریف کو نظر انداز کرکے تنہا آصف علی زرداری کو ٹارگٹ کرتے ہیں تو اسے صرف ایک انتخابی نعرہ سمجھاجائے گا ۔ نظر بطاہر یہی آرہاہے کہ عمران خان کی تندوتیز بیانات کی یہ گولہ باری نہ صرف جاری رہے گی۔
2008ء کے جنرل الیکشن کا تحریک انصاف نے بائیکاٹ کردیا تھا۔ لیکن ضمنی الیکشن میں ن لیگ اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے سامنے آئی ہیں ۔30 اکتوبر 2011ء سے پہلے ،پی پی 160 لاہور میں براہ راست۔ 30اکتوبر2011ء کے بعد این اے 162ساہیوال میں بالواسطہ طورپر ۔پی پی 160 لاہور ، رائے ونڈ سے این اے 128 کی ذیلی نشست ہے۔ ن لیگ کو لاہور شہر میں مقبول ترین جماعت سمجھا جاتا ہے لیکن یہ بات حیران کن تھی کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پی پی 160،لاہورکے شہری پولنگ اسٹیشنوں پر تحریک انصاف کا امیدوار ، ن لیگ کے امیدوار پر برتری لے گیا۔یہ ن لیگ کی خوش قسمتی تھی کہ اس نشست پر عمران خان اورسید منورحسن ، نوازشریف کے بارے میں قریب قریب یکساں موقف رکھنے کے باوجود ایک امیدوار پر متفق نہ ہوسکے ۔
ورنہ یہ نشست ن لیگ کے ہاتھ سے نکل سکتی تھی ۔ این اے 162 ساہیوال میں بھی ن لیگ کا امیدوار ، تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کو بمشکل ہی ہرا سکا ۔ اگر تحریک انصاف اس نشست پر رائے حسن نواز کا باقاعدہ طورپر اپنا ٹکٹ جاری کرتی اور ق لیگ، پیپلزپارٹی کے ''انتخابی اتحاد ''کا تعاون حاصل کرلیتی تو یہ نشست جیت سکتی تھی ۔ضمنی انتخابات کا یہ نتیجہ نکلتا کہ تحریک انصاف میں انتخابی دم خم تو ہے ، لیکن یہ کہنا کہ ن لیگ کے مقابلے میں عمران خان اکیلے ہی کافی ہیں، درست نہیں۔
عمران خان کا ووٹ بینک ضرور ہے، لیکن یہ ووٹ بینک صرف اس صورت میں نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے ، جب وہ تنہا پرواز کے چکر میں نہ پڑیں ۔ انتخابات، عملیت پراستوار انتخابی حکمت عملی کے بل پر لڑے جاتے ہیں۔ن لیگ کا تنہا مقابلہ کرنے کی انتخابی حکمت عملی پر اصرارجاری رہا توعام انتخابات میں اس کا نقصان ہو گا۔آیندہ انتخابات میں عمران خان کو کم ازکم اپنے موجودہ ووٹ بینک کی تناسب سے نشستیں ضرورملنی چاہئیں ، لیکن اس کا انحصار اس پرہے کہ تنہا پروازکے تلخ تجربات کے بعد عمران خان اپنی انتخابی حکمت عملی پر کس حد تک نظر ثانی کرتے ہیں۔