امریکی ڈیمو کریٹ شہزاد ملک کی کہانی
جتنے پاکستانی باہر سے واپس آ رہے ہیں ، اتنے ہی کینیڈا کی پروازوں سے باہر جا کر آباد ہو رہے ہیں۔
بارہ برس کے بعد ملاقات میں وہ اسی طرح ہشاش بشاش تھا ، کھلا ہوا چہرہ، امیدوں سے لبریز دل ۔ اس عرصے میں وہ ایک قیامت سے گزرا ، ہر امریکی پاکستانی کی طرح اس کی داستان ایک رزم نامہ بھی ہے اور ایک کربلا بھی۔نائن الیون کے حوادث نے ہر کسی کو کسی نہ کسی لحاظ سے متاثر کیا،شاید یہی وہ وقت تھا جب اس نے فیصلہ کیا ہوگا کہ اسے اپنی دھرتی کی طرف لوٹ جا نا ہے، اس نے امریکا میں اپنی اور اپنے میزبان ملک کی مقدور بھر خدمت کی ، وہ کئی کمپنیوں کی نائب صدارت کے عہدوں تک پہنچا،ڈیمو کریٹ پارٹی میں شامل ہوا تو اس قدر سرگرمی دکھائی کہ اسے اسسٹنٹ فیلڈ ڈائریکٹر آف نیو یارک اسٹیٹ مقرر کیا گیا ، اس کا ڈائریکٹر ایک سیاہ فام چیٹ وائی تھا۔اس قدر بلند عہدہ کسی اور پاکستانی کو نہیں ملا، چیٹ وائی کے ساتھ مل کر اس نے فنڈ ریزنگ میں ہاتھ ڈالا تو ریکارڈ قائم کر دکھایا۔
انتیس ملین ڈالر ایک خطیر رقم ہے مگر پارٹی کے ساتھ اخلاص کے ثبوت کے لیے اس نے دن رات ایک کر دیا ۔شہزاد ملک نے اپنی داستان ہفتے کو لاہور کے دانشوروں کو سنائی، اتفاق سے اس اجلاس میں بھی صغیر طاہر موجود تھے، وہ تو ری پبلکن پارٹی کی طرف سے پانچ مرتبہ نیو ہیمپشائر ریاست میں منتخب ہوئے۔ میرے منہ سے نکل گیا کہ ہمارے درمیان امریکی سیاست کے حریف بیٹھے ہوئے ہیں ، صغیر طاہر نے بر جستہ کہا کہ ہم دونوں مختلف پارٹیوں سے تعلق ضرور رکھتے ہیں لیکن پاکستان کی طرح ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں۔ہمارے درمیان صرف اختلاف رائے موجود ہے اور ہم ایک دوسرے کے نقطہ نظر کا مکمل احترام کرتے ہیں۔
میں جس شہزاد ملک کو جانتاہوں اور جس سے میری ملاقات نیو یارک کے نواحی علاقے کوئینز کے ایک دفتر میں ہوئی تھی، وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ماہر تھا۔ اس دفتر میں پاکستان مسلم لیگ کے ایک عظیم قائد سردار ظفراللہ کے صاحبزادے سرداد نصراللہ اور پاکستانی صحافت کے دو عظیم نام محمد سرور شاہ اور محمد شبیر شاہ کے قریبی عزیز طارق شاہ بھی بیٹھتے تھے۔ ان دنوں طارق شاہ بھی پاکستان میں ہیں اور لاہور میں وہ اپنے عزیز اور وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران کے مہمان بنے۔نیو یارک میں، میں مہمان تو سردار نصراللہ کا تھا مگر چند ہی دنوں میں ہم ایک خاندان کی حیثیت اختیار کر گئے۔یہ اپریل دو ہزار کی بات ہے، پاکستان میں مارشل لا لگ چکا تھا۔
ن لیگ کے بیشتر افراد نے نیو یارک میں ڈیرے ڈال رکھے تھے اور وہ اپنے مخالفین کو زچ کرنے کا کوئی موقع ضایع نہیں جانے دیتے تھے۔ چند ہی ڈیرے تھے جہاں مجلسیں برپا ہوتی تھیں ، وہاں قریب میز پر مخالفین ہلڑ بازی شروع کر دیتے۔ شاہین ریستوران میں ہمارے دوست جنرل حمید گل کا تو ناطقہ بند کر دیا گیا۔اس عالم میں طارق شاہ اور سردار نصراللہ اپنی حلیمی طبیعت کی وجہ سے بیچ بچائو کرانے میں کامیاب رہے۔میں نے کوئینز کے جس دفتر کا ذکر کیا ہے ،اس کی یاترا ہمارے دوست تنویر قیصر شاہد بھی کئی بار کر چکے ہیں، وہ اپنے کالموں میںسردار نصراللہ کا اکثر ذکر کرتے ہیں، ایک کالم میں تو انھیں نیویا رک کے سردار کا خطاب بھی د ے دیا۔
سردار نصراللہ بہت پیاری شخصیت ہیں، دلیل سے بات کرتے ہیں اور خلوص سے دل مسخر کر لیتے ہیں مگر میں آج شہزاد ملک کے حوالے سے ایک تاریخی انکشاف کرنے چلا ہوں کہ اس نوجوان کی آئی ٹی کی مہارت نے میرے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد کی کہ اردو کا اخبار پاکستان سے بنا کر انٹرنیٹ کے ذریعے نیویارک بھیج کر چھپوایا جائے۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ موڈیم کی رفتار اٹھائیس کے یا چھپن کے سے زیادہ نہ تھی اور اردو اخبار کا ایک ایک صفحہ کئی سو ایم بی پر بھاری تھا جس کو انٹرنیٹ کے ذریعے منتقل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ مگر شہزاد ملک نے میرا حوصلہ بڑھایا کہ وہ اس کام میں نہ صرف فنی تعاون کرے گا بلکہ ابتدائی مہینوں میں جو سرمایہ کاری درکار ہے، وہ بھی فراہم کرے گا۔
ایک نکتہ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ نیویارک میں پہلے سے اردو کے کئی اخبارات تیار ہو کر مارکیٹ میں آ رہے تھے مگر ان کے اخراجات بے پناہ تھے، وہاں ایک شخص کو آپ اڑھائی سو ڈالر کم از کم معاوضہ دینے کے قانونی طور پر پابند ہیں، اخبار کے لیے تین چار بندے کام کر رہے ہوں تو چار ہزار ڈالر تو اس مد میں نکل گئے،میرے فارمولے میں اس خرچ کو چار گنا کم کیا جا سکتا تھا، اب تو ایسی ریت پڑی ہے کہ یہ خرچ ایک سو گنا کم ہو گیا ہے۔ اب نیویارک ہو یا دنیا کا کوئی اور شہر، وہاں کے لیے اردو کا اخبار تیار تو پاکستان میں ہوتا ہے اور بڑے ہی سستے داموں، اس سے عالمی سطح پر اردو صحافت کو ناقابل بیان فروغ حاصل ہوا ہے،بہر حال آئیڈیا میرا تھا، خواب میں نے دیکھا تھا مگر اس کی تکمیل میں فنی اور مالی مدد شہزاد ملک نے کی اور سرادر نصراللہ، طارق شاہ اور وقاص ریاض بھی اخلاقی تعاون میںپیش پیش رہے۔
نائن الیون نے پاکستانیوں کو بے حد متاثر کیا اور اسی ہنگامے میں ہمارا اخبار بھی قصہ پارینہ ہو گیا۔مگر اس نے عالمی اردو صحافت کے لیے ایک نئی طرح ضرور ڈالی۔شہزاد ملک نائن الیون سے کچھ عرصہ پہلے سٹی بینک کے آئی ٹی کے شعبے سے منسلک ہوگئے تھے اور وائی ٹو کے کے شعبے میں کام کر رہے تھے، ان کا دفتر بھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں واقع تھا مگر نائین الیون کے روز وہ کسی خاندانی مصروفیت کے باعث کام پر نہ گئے اور یوں اللہ نے انھیں اس قیامت سے محفوظ رکھا مگر نائن الیون کے ملبے میں ان کی ملازمت بھی کہیں دب کر رہ گئی۔
اب میں اس قصے کو چھوڑتا ہوں اور امریکا میں پاکستانیوں کی سیاست کی طرف آتا ہوں۔ وہاں زیادہ تر پاکستانی ریپبلکن پارٹی کے ساتھ ہیں، اس پارٹی کو پاکستان کی ہمدرد خیال کیا جاتا ہے مگر میں کئی مرتبہ امریکا جا چکا ہوں اور میری جتنے بھی پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی، وہ سبھی ڈیموکریٹس تھے۔ان میں واشنگٹن کے چوہدری رشید تو کلنٹن خاندان کے قریبی تصور کیے جاتے تھے، چوہدری رشید کا کاروبار تو شکاگو میں ہے مگر رہائش واشنگٹن کے ایک پر شکوہ علاقے میں ، جہاں کلنٹن، ہیلری کلنٹن اور ایلگور کئی مرتبہ ڈنر کے لیے آئے، ان لمحات کو یادگار بنانے کے لیے انھوں نے مکان کے پائیں باغ میں سدا بہار پودے بھی لگائے۔اب ایک عرصے سے میری چوہدری رشید سے ملاقات نہیں ہو سکی، وہ پاکستان آتے رہتے ہیں ، ملتان روڈ پر ای ایم ای میں، جسے اب ڈیفنس کا نام دے دیا گیا ہے، ایک مختصر سا فلیٹ بھی انھوں نے خرید رکھا ہے جہاں وہ آتے جاتے قیام کرتے ہیں۔
آج بھی وہ پاکستان آئیں تو سیدھے فیصل آباد میں اپنے گاؤں کا ہی رخ کرتے ہیں۔کبھی ان سے ملنا ہوا تو ایک بات ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ انھوں نے ڈیموکریٹس اور کلنٹنز کی قربت سے پاکستان کو کتنا فائدہ پہنچایا اور کتنے نقصانات سے محفوظ رکھا۔آخر اتنے قریبی تعلقات کو کوئی فائدہ بھی تو اٹھانا چاہیے تھا ، بہر حال یہ سوال میں چوہدری رشید کے لیے چھوڑتا ہوں اوران سے جو جواب ملا ، وہ قارئین تک ضرور پہنچاؤں گا۔یہی سوال میں نے شہزاد ملک سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ عالم اسلام یا پاکستان پر جو مصیبت آن پڑی ہے ، اس کے ذمے دار تو سینئر اور جونیئر بش ہیں جنکا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے۔حالیہ الیکشن میں امریکی مسلمانوں نے ری پبلکن امیدوار کو ہرانے میں سرگرم کردار ادا کر کے کچھ بدلہ تو اتار لیا ہے۔
پاکستان کی کشش بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے، ویسے جتنے پاکستانی باہر سے واپس آ رہے ہیں ، اتنے ہی کینیڈا کی پروازوں سے باہر جا کر آباد ہو رہے ہیں۔اس کی وجہ کیا ہے۔شہزاد ملک کا جواب ہے کہ جو لوگ باہر بھاگ رہے ہیں ، ان کی کمائی جائز نہیں ، وہ اپنی کمائی کی حفاظت کے لیے باہر جاتے ہیں مگر انھیں نہیں معلوم کہ بیرونی بینکوں نے نہ یاسر عرفات کا پیسہ واپس کیا، نہ حسنی مبارک کا، نہ قذافی کا اور نہ آیندہ کسی کا کریں گے، یہ حقیقت ہم پر واضح ہے، ہم نے دن رات محنت کر کے جو کمایا ہے، اسے اپنے وطن میں محفوظ سمجھتے ہیں۔ہم پاکستانی ہیں، برسوں امریکا میں رہ کر بھی وہاں کی شہریت نہیں لی، صرف گرین کارڈ پر کام کیا، اب ہمارا سب کچھ اپنے وطن کا ہے۔ہم اس مٹی کی طرف لوٹ آئے ہیں۔