لبرل ازم کا منظر نامہ … آخری حصہ

لبرل ازم جب دوسرے مخالف خیالات کے حامل افراد کے عمل پر پابندی لگاتا ہے تو لبرل ازم نہیں رہتا۔

مذہب نے انسان کو آزادی دی مگر انسانوں کے سماجی تعلقات کو کسی قسم کی خرابی سے بچانے کے لیے کچھ اصول بھی بتائے جن کو ہم پابندی کا نام دیتے ہیں اور انسانی آزادی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ (لبرل ازم والے بڑے فخر سے اس کو رالز کی ''تھیوری آف سوشل کنٹریکٹ ''کہہ کر پکارتے ہیں) اگر ہم دیکھیں کہ مذہب میں مساوات کا تصور، انصاف کا تصور ہے اور پہچان کا تصور بھی موجود ہے جس پر آج کل مغربی ممالک میں مخلوط سماج میں شناخت اور پہچان کے نظریے پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔

مذہب کہتا ہے کہ ایک فرد دوسرے فرد کے مال پر قابض نہ ہو، بے گناہ کی جان نہ لو،جس کا جو حق ہے اسے دو، ایک کو دوسرے پر رنگ ونسل کی بنیاد پر فوقیت نہ دو۔ (تمام تصورات کی نمایندگی کا دعویٰ لبرل ازم کو بھی ہے) اب ان پر لوگوں سے عمل کرانے کے لیے ان کو مذہب نے خدا کے احکامات کا نام دیا ورنہ سوال یہ تھا کہ ان پر عمل کیسے ممکن ہوتا؟ تو اس کے لیے لوگوں کو مذہبی عقائد میں پائے جانے والے تقدس کے احساس کے تحت باندھنے کی کوشش کی گئی، تاکہ سماج ایک منظم طریقے سے چل سکے۔ ان سب کے پسِ پردہ ابتدا میں سماجی فلاح ہی مقصود تھی مگر بعد ازاں ان عقائد کا غلط استعمال کرکے کچھ لوگوں نے اپنی طاقت کا سکہ جمانا شروع کردیا اور بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد کو سماجی، معاشی اورسیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔

پابندی کا جو احساس ہمیں مذہب سے وابستہ نظر آتا ہے وہ درحقیقت ایک اَن لکھا سماجی معاہدہ تھا جو عموماً دو گروہوں یا مختلف افراد کے درمیان ہوتا ہے مگر یہاں انسان اور خدا کے درمیان ہے۔ لہٰذا ،خدا کے احکامات اس لیے بھی پاکستانی لبرلز کو پابندی کا احساس دلاتے ہیں کہ ان کو حتمی قرار دیا جاچکا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ عملی سطح پر کون مرکز ہے؟ کیا لوگ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہیں کھاتے؟ خصوصاً پاکستان میں جو اسلامی فلاحی ریاست ہونے کا دعوے دار ہے، کیا ایک دوسرے کی جان نہیں لیتے؟ کیا وہاں حق داروں کو ان کا حق مل رہا ہے؟ اپنی جائیداد اور زمین کو تقسیم سے بچانے کے لیے اپنی عورتوں کی شادیاں قرآن سے نہیں کراتے؟ اپنے ہی خاندان سے باہر شادی نہ کرنے کے فیصلے نہیں ہوتے؟ قبیلے جن کے نام، نسلوں کی پہچان کے احساس کے تحت رکھے گئے تھے، کیا آج ان ناموں کو استعمال کرکے بڑے اور چھوٹے، اعلیٰ اور ادنیٰ کی تفریق قائم نہیں کی جاتی؟ اور یہ سب کچھ کرنے والے انسان ہیں، خدا نہیں اور نہ ہی خدا کے احکامات ہیں جو مذہبی پابندیاں کہلاتے ہیں۔

ان حقائق کی روشنی میں تو ایک مذہبی ریاست اور سماج میں مرکزیت عملی سطح پر انسان کی ہوئی ۔ اسی قسم کے تضادات جب ہمیں دوسری خیالیات میں ملتے ہیں تو ہم اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیںکہ تھیوری کی عملی تشکیل ہی اس کی حقیقت کو عیاں کرتی ہے۔

اب ہم اسی کو لبرل ازم کے حوالے سے دیکھتے ہیں یعنی ''لبرل ازم انسان کی مرکزیت تسلیم کرتا ہے۔'' اس کے لیے میں یہاں کچھ مثالیں پیش کروں گی تاکہ ہمیں لبرل ازم کی حقیقت عملی سطح پر معلوم ہوسکے۔ مذہب اگر پابندی لگائے تو بنیاد پرستی کے زمرے میں بات آجاتی ہے، اسی طرح اگر لبرل ازم کی دعوے دار ریاستوں میں ایسے مظاہر رونما ہوں تو ان کو نہ صرف سماجی مظہر کہا جاتا ہے بلکہ الٹا ان کو بھی مذہب ہی کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فرانس میں 2005 میں سب عرب علاقوں میں نوجوانوں نے اپنے بنیادی حقوق کے لیے تحریک چلائی جو فسادات کا شکار ہوئی۔ اس پر جب فرانسیسی تبصرہ نگاروں اور فلسفیوں سے سوالات کیے گئے تو زیادہ تر لوگوں نے اس کو اسلامی بنیادپرستی قرار دینے کی کوشش کی۔


یہاں تک کہا گیا کہ ان بچوں کے آبائواجداد کا تعلق عرب ممالک سے ہے اس لیے یہ اسلامی خیالیات کے تحت ہم سے صدیوں پرانے بدلے لے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ اس خصوصی علاقے کے نوجوان فرانس ہی کے قومی اعدادوشمار کے مطابق سب سے زیادہ بے روزگاری کا شکار ہیں اور امتیازی کم تر سلوک کا شکار بھی ہورہے ہیں۔ اس کا حوالہ 2005 کے اخبارات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لبرل ازم کا مساوات یا برابری کے حقوق کا نعرہ کیسی مرکزیت قائم کررہا ہے؟ میں یہاں سمجھتی ہوںکہ سرمائے اور طاقت کے خدا کی مرکزیت قائم ہوتی ہے۔

دوسرا اہم واقعہ فرانس میں لبرل ازم میں آزادی کے نعرے کی حقیقت کو عیاں کرتا ہے، وہ ہے فرانس کی مسلم خواتین پر حجاب اوڑھنے پر پابندی لگانے کا قانونی فیصلہ۔ بات تو حق اور آزادی کی ہے جو لبرل ازم کے داعی کرتے ہیں، خواتین پر یہ پابندی لبرل ازم کے کون سے تصور کی نمایندگی کرتی ہے؟ جب کہ فرانس کے صدر نے اس قانون کے لاگو ہونے تک اس کیس کی خود پشت پناہی کی اور 2010 میں ایک انٹرویو میں فکریہ لہجے میں کہا:

''یہ قانون فرانس کی اقدار اور شناخت کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری تھا۔''

لبرل ازم جب دوسرے مخالف خیالات کے حامل افراد کے عمل پر پابندی لگاتا ہے تو لبرل ازم نہیں رہتا۔ یہ بھی اسی طرح بنیادپرست آئیڈیالوجی ہے جس طرح مذہب ہے۔ مذہبی ریاست میں ایک عورت حجاب سے نجات چاہے گی تو اس کو مغرب والے نمایاں کرکے بیان کریں گے کہ یہ مذہبی پابندی ہے، جب کہ فرانس میں خواتین کے اپنی مرضی سے حجاب اوڑھنے پر پابندی کو لبرل ازم کی بنیادپرستی نہیں کہا جائے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ لبرل ازم انسانی حقوق کی مرکزیت کا اس وقت قائل ہوتا ہے جب اس کے اپنے سیاسی مفادات ہوں۔ مذہب کھلے احکامات کی صورت میں پابند کرنے کی کوشش کرتا رہا، جب کہ لبرل ازم نے انسانوں کو ایک طرف تو قوانین کے نام پر پابند کیا، دوسری طرف جدید دور کے مینرز یا طورطریقوں کے نام پر اور حتمی پابندی معیشت کا وار کرکے۔ لبرل ازم آزادی کی بات کرتے ہوئے یہ نہیں بتاتا کہ جن کے پاس وسائل نہیں وہ اس کی کھوکھلی آزادی کو بروئے کار لاتے ہوئے کس طرح اپنی مرضی سے وہ کام کریں جس میں سرمایہ درکار ہے؟ مثلاً لندن میں اولمپکس کی تیاریاں عروج پر ہیں۔

یہاں سب کو آزادی ہے کہ ان کھیلوں کو دیکھنے جائیں، مگر کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اس ملک میں رہتے ہوئے بھی ان کھیلوں کو دیکھنے کے لیے لندن نہیں جائیں گے کیوںکہ دولت کے بغیر خالی مرضی اور آزادی ان کو اس عمل سے روک دے گی۔ جب کہ بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جن کا مذہبی ریاستوں سے تعلق ہے مگر وہ دولت کے بل بوتے پر دوسرے ممالک سے لندن اولمپکس کے کھیل دیکھنے کے لیے آئیں گے۔ تو مَیں ایک بار پھر کہوں گی کہ مرکزیت سرمایہ کے خداؤں کی ہوئی۔ مَیں نے جب پہلے بھی کہا تھا کہ لبرل ازم میں بھی قدیم مذہبی وسماجی خیالیات موجود ہیں تو اس سے میری یہی مراد تھی کہ سیاست میں ان کا استعمال ہوتا ہے، معیشت مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔

کوئی بھی خیالیات ہو، سماج کے اندر رہتے ہوئے کچھ پابندی انسانوں کی فلاح کے لیے بہرحال ضروری ہیں ورنہ اس کے بغیر آزادی کا کوئی بھی تصور ہو وہ منفی آزادی ہی کہلائے گا اور بدقسمتی سے پاکستانی لبرل ازم کے نمایندوں کی تحاریر ایک طرف تو منفی آزادی کا پرچار کرتی نظر آتی ہیں تو دوسری طرف جب اس کے مقابل مذہب کو رکھتی ہیں تو ان کو لگتا ہے کہ مذہب صرف اسلام کو کہا جاتا ہے، یہودیت اور عیسائیت شاید ان کے نزدیک مذاہب کی فہرست میں نہیں آتے، بہرحال۔۔۔۔ پابندیاں مذہب کے ذریعے ہوں تو ہمیں زیادہ چبھتی ہیں اور قوانین کی صورت میں ہوں تو لبرل ازم کا حسن نظر آتی ہیں۔
Load Next Story