قول و فعل کا تضاد

مُنافقت کا مطلب ہے ، دِل ودماغ میں آپ کی جو بھی سوچ ہے،اپنی زبان سے آپ اُس سوچ کے بالکل برعکس اظہار کر رہے ہیں ۔


S Nayyer December 16, 2012
[email protected]

حضرت جوش ملیح آبادی اور اِن کے ہم عصر دیگر شعرأ،ایک مشاعرے میں شریک تھے ۔ مشاعرے کی ابتداء میں ہی ایک نو آموز اور نوجوان شاعر نے مائیک پر قبضہ کر لیا اور اپنا بے تُکا اور بے سروپا کلام ، جو خاصا طویل بھی تھا ، سُنانا شروع کردیا ۔ حاضرین سخت بور ہو رہے تھے ۔ کچھ ہی دیر میں نوجوان کو اسٹیج سے اُتارنے کے لیے مشاعرے کی انتظامیہ اورشاعر حضرات کے درمیان ''خفیہ اشارے بازی '' شروع ہوگئی ۔ معلوم ہوا کہ نوجوان شاعر،اِس مشاعرے کی انتظامی کمیٹی میں خود بھی شامل ہے اور اپنی اِسی حیثیت کا ''جائز '' فائدہ اُٹھاتے ہوئے، اپنا کلام سُنانے پر بضد ہے ۔

لہذا اِسے مُرّوتاً برداشت کرلیا جائے ۔ کلام جب طویل ہوتا گیا اور حاضرین بے چینی سے پہلو بدلنے لگے تو اچانک جوش صاحب نے ایک شعر پر نوجوان شاعر کو باآواز بلند بے پناہ داد سے نواز کر مشاعرے میں ہلچل پیدا کردی ۔ اِس کے بعد تو گویا جوش صاحب نے داد کا سماع باندھ دیا ۔ ہر شعر پر داد و تحسین کے وہ ڈونگرے برسائے کہ حاضرین جلسہ تو ایک طرف ،خود نوجوان شاعر بھی دم بخود رہ گیا ۔ اُس نے خود مشکوک نظروں سے جوش صاحب کی طرف دیکھنا شروع کردیا ۔ لیکن جوش صاحب گردو پیش سے بے خبر آنکھیں بند کیے ہر شعر پر جھوم جھوم کر داد دینے میں مشغول تھے ، بلکہ کئی اشعار تو اُنہوں نے اصرار کر کے مُکرّر پڑھوائے ۔ ایک شاعر صاحب کی قوّت برداشت آخر کار جواب دے گئی ۔

اُنہوں نے جوش صاحب سے چِلّا کر پوچھا '' جوش صاحب ! یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟'' جوش صاحب نے جھومنا بند کیا،آنکھیں کھولیں اور اِس سوال کا نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ صرف ایک لفظ میں جواب دیا '' مُنافقت ۔'' اور اپنا کلام سُنائے بغیر ہی مشاعرہ لوٹ لیا ۔ نوجوان شاعر کھِسیانا ہوکر اسٹیج سے اُتر گیا ۔ مُنافقت دراصل ایک ایسی بشری خامی ہے جو اپنے اندر الفاظ و معنی کا ایک وسیع کینوس رکھتی ہے ۔ اِس کینوس پر الفاظ کے آپ کتنے ہی رنگ بھرتے چلے جائیں ،آپ کو محسوس ہوگا کہ تشنگی اب بھی باقی ہے ۔ مُنافقت کا مطلب ہے ، دِل ودماغ میں آپ کی جو بھی سوچ ہے،اپنی زبان سے آپ اُس سوچ کے بالکل برعکس اظہار کر رہے ہیں ۔

ایک فقرے میں اگر مُنافقت کی تعریف بیان کی جائے تو مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ '' قول و فعل میں تضاد '' اور قول و فعل کا یہ تضاد ہی ، ہمیں بحیثیت قوم پستی کے اِس مقام تک لے کر آگیا ہے ، جہاں ہم اِس وقت موجود ہیں اور ڈھلان پر پھسلنے کا یہ عمل بڑی تیزرفتاری کے ساتھ اِس وقت بھی جاری ہے ۔ یہ سفرکہاں جا کے رُکے گا ؟ اِس بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ لیکن یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ تنزّلی کے اِس سفر کی شروعات اُسی وقت ہوئی تھی جب ہماری قیادت میں قول و فعل کا یہی تضاد ، کالے جادو کی طرح سر چڑھ کر بولنے لگا تھا ۔ ماضی کو چھوڑیں ۔ لمحہ موجود کی قیادتوں پر ایک نظر ڈالیں تو آپکو یہ تضاد قدم قدم پر نظر آئے گا ۔ ہمارے ہر حکمران ، ہر وزیر ، ہر مُشیر اور ہر سیاسی و مذہبی قائد کی زبان سے آپ کو پھول جھڑتے نظر آئیں گے ، لیکن اِن کا عمل کچھ اور ہی داستان بیان کر رہا ہوگا ۔

مثلاً ایک سیاسی قائد اپنے ہزاروں ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے محل کے وسیع و عریض سبزہ زار کے درمیان سے گزرتی ہوئی نہر کے کنارے اپنے مصاحبین کے ہمراہ چہل قدمی کرتے ہوئے ، اِس ملک کے عوام کی غُربت ختم کرنے اور اِنہیں خوشحال بنانے کے منصوبوں پر غورو فکر کرتے نظر آئیں گے ۔ ذرا ماحول پر غور فرمائیں ۔ محل کے پائیں باغ میں ہرن قلانچیں بھر رہے ہیں ، مور جھوم رہے ہیں ، رنگ برنگے طیور چہچہا رہے ہیں ، ایک کنارے پر بُلٹ پروف کاریں قطار اندر قطار کھڑی ہیں ۔ دوسری طرف ہیلی پیڈ کو رگڑ رگڑ کر چمکایا جا رہا ہے ۔ ملازمین اور محافظین کی فوجِ ظفر موج قائد کے اشارہِ ابرو کی منتظر ہے ۔گاڑیاں اورگاڑیوں کا پیٹرول ، ملازمین و محافظین کی تنخواہیں اور اسلحہ ، اِن سب کا خرچہ اُنہی غریب عوام کی جیبوں سے نکل رہا ہے ، جن کی غُربت دور کرنے کے یہ محبوب قائد منصوبے بنا رہے ہیں ۔

اِن کی غریب پروری کا یہ عالم ہے کہ ، اِن کی لگ بھگ دو درجن سے زائد انڈسٹریز میں کام کرنے والے ہزاروں کارکنوں کی تنخواہوں اور مُراعات کی مد میں یہ قائد ایک روپیہ زیادہ دینے کے روادار نہیں ہیں ۔ لیکن جلسہ عام میں اِن کی زبان یہ کہتے نہیں تھکتی کہ '' اِس قوم کی تقدیر بدل دیں گے۔'' ایک اورسیاسی جماعت کے قائد جو ہمہ وقت جاگیردارانہ نظام اور جاگیرداروں کو للکارتے نظر آتے ہیں لیکن جس وقت بھی کسی جاگیردار،صنعتکار اور جرنیل حکمران کی گدّی لڑکھڑانے لگتی ہے، سب سے پہلے اِنہی کی جماعت اِن حکمرانوں کو سہارا دینے کے لیے اپنا کندھا پیش کردیتی ہے ۔ ایک اور قائد سے ملیے یہ اعلان کرتے نہیں تھکتے کہ '' بلا امتیاز خدمت پر یقین رکھتے ہیں ۔''

لیکن صرف یقین ہی رکھتے ہیں ، عملاً خدمت کرنے سے پہلے ، یعنی سرکاری نوکری عنایت کرنے سے قبل یہ یقین دہانی ضرور حاصل کرلیتے ہیں کہ سرکار کا یہ نیا ملازم اِنکی جماعت کا اور اِن کے خاندان کا وفادار ہے یا نہیں ؟ کیونکہ اہلیت کا معیار یہی ہے ۔ لیکن زبان اِن کی یہی الفاظ کہہ رہی ہوتی ہے کہ '' ملازمتیں میرٹ پر دی جائیں گی ۔'' ملک کے عوام سیلاب میں ڈبکیاں کھا رہے ہوں تو قائد موصوف یورپ کے نجی دورے پر شاپنگ کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور یہ شاپنگ اُنہی کے خرچ پر ہوتی ہے ، جو یہاں سیلابی کیچڑ میں بے سر و سامان اور بے آ سر ا ، لت پت پڑے ہو تے ہیں اِن کی اقتدار کی مدت 3 ماہ کے لگ بھگ باقی رہ گئی ہے ، لیکن اعلانات یہی ہیں کہ ''ہماری ہی جماعت عوام کے مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔'' اہلیت کا عالم یہ ہے کہ موصوف جب اقتدار میں آئے تو ، بجلی کی لوڈشیڈنگ 1 گھنٹہ تھی پونے پانچ سال میں اِن کی اہلیت نے اِسے 10 گھنٹے پر پہنچا دیا ہے۔

اِن کی اقتدار میں آمد کے وقت گیس کا کوئی بُحران سرے سے موجود ہی نہ تھا ۔ اب یہ عالم ہے کہ جیسے ہی بجلی جاتی ہے ، عوام وقت گزارنے کے لیے سی این جی اسٹیشن پر آکر قطار میں لگ جاتے ہیں ۔ ساٹھ برس کے قرضے ، اُنہوں نے 5 برس میں ہی لے کر قرضے لینے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا ہے ۔ اِن کے وزیرِ خزانہ کشکول لے کر ملکوں ملکوں مارے مارے پھرتے ہیں ۔ کشکول میں کوئی کچھ ڈال دے تو وہ خوشخبری سُنانے ملک میں آتے ہیں اور فوراً اِسی ''کام '' سے دوسرے دورے پر نکل جاتے ہیں ۔ یہ ایک مذہبی قائد ہیں ، اِن کے قول و فعل میں تضاد قطعاً نہیں پایا جاتا ۔ تضاد تو آپ بعد میں تلاش کریں گے ، پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ اِن موصوف کا اصل قول آخر ہے کیا ؟ اور اپنے فعل سے یہ کس کے ساتھ بظاہرکھڑے نظر '' نہیں'' آتے ۔ ایک اور قائد ہیں ۔

یہ مارے خوف کے اپنے گھر تو درکنار ، اپنے صوبے میں بھی داخل ہونے سے ہچکچاتے ہیں لیکن اِن کی زبان اپنی غیرت اور بہادری کے ترانے گاتے نہیں تھکتی ہے ۔ اِن سب کے علاوہ ، ایک بہت بڑا بے ہنگم اور بے سمت ہجوم بھی ہے جس کے قول و فعل میں زمین و آسمان کا تضاد موجود ہے ۔ یہ گروہ ہے اِس ملک کے عوام کا ۔ جس کی زبان پر ہمہ وقت اپنے اِنہی حکمرانوں کے لیے گالیاں اور کوسنے موجود ہوتے ہیں ۔ یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ قول و فعل کا تضاد کیا ہوتا ہے ؟ لیکن ہر الیکشن میں یہی ہجوم '' آوے ہی آوے'' کے نعرے لگا کر اِنہی حکمرانوں کو اپنے ووٹ سونپ کر آجاتا ہے ۔ اگر آخر الذّکر گروہ اپنے قول وفعل کا تضاد دور کرلے تو یہ تمام حکمران طبقے ، اپنے تمام تر تضادات سمیت خود بخود فنا کے گھاٹ اُتر سکتے ہیں ۔ آزمائش شرط ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں