بچاؤ

امریکا کی ریسکیو ٹیم ہزاروں ڈالرز کی رقم خرچ کرکے بلّی کو درخت سے اتارنے آجاتی ہے۔


Wajahat Ali Abbasi December 16, 2012
[email protected]

آپ نے پاکستان میں ریسکیو 1122 کا ضرور ذکر سنا ہوگا، نہیں سنا تو یہ پنجاب حکومت کی طرف سے شروع کی جانے والی وہ ریسکیو سروس ہے جس کا پائلٹ پروگرام لاہور میں 2004 میں منعقد کیا گیا تھا۔

پائلٹ پروگرام کی کامیابی کے بعد 2006 میں اس پروگرام کو پنجاب کے تمام علاقوں میں پھیلادیا گیا، ریسکیو 1122 ایمرجنسی سروس ہے جسے آپ کسی بھی وقت پاکستان میں موجود فون سے ڈائل کرکے اس تک پہنچ سکتے ہیں،لائیو آپریٹر آپ کو ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس، فائربریگیڈ جیسی سہولتیں مہیا کرتا ہے، اس سروس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سات منٹ کے اندر اندر ضرورت مند تک پہنچ جاتی ہے۔

کسی حکومت کی طرف سے ریسکیو سروس کال سینٹر کوئی نئی بات نہیں ہے، بڑے بڑے ملکوں جیسے امریکا، انگلینڈ کے شہروں میں ایسی سروس عام ہے۔ہمارے یہاں اس سروس کو صوبائی سطح پر شروع کیا گیا ہے لیکن باہر کے ملکوں میں یہ سروس فیڈرل سطح پر ہوتی ہے، امریکا اور انگلینڈ میں 911 کی سروس سے تو سب ہی واقف ہیں۔ اس سروس کے متعلق بچوں کو اسکول سے ہی بتایا جاتا ہے، کوئی بھی ایمرجنسی ہو 911 آپ کی مدد کرنے فوراً پہنچ جاتا ہے، زیادہ تر امریکن شہروں میں 911 پر کال کرنے پر ایمبولینس یا فائربریگیڈ تین منٹ میں آپ تک پہنچ جاتی ہے۔ میاں بیوی کا جھگڑا ہو یا کسی بچے پر ماں باپ کا ہاتھ اٹھانا، صرف ایک فون کال سے پولیس فون کرنے والے کے پاس پہنچ جاتی ہے، نہ صرف یہ بلکہ اکثر لوگ اپنی درخت پر چڑھی بلّی کو جو نیچے آنے سے ڈر رہی ہے اس کو ریسکیو کروانے کے لیے 911 فون کرتے ہیں۔

جانوروں سے پیار کرنیوالے ملک امریکا کی ریسکیو ٹیم ہزاروں ڈالرز کی رقم خرچ کرکے بلّی کو درخت سے اتارنے آجاتی ہے۔ایک مسئلہ جو امریکا کے نائن ون ون کے ساتھ ہے وہ یہ ہے کہ جب بچہ پانچ چھ سال کا ہوتا ہے تو اسے اسکول میں سکھایا جاتا ہے کہ کیسے نائن ون ون ملاکر مدد حاصل کی جاسکتی ہے، جب کہ بیشتر کالیں جو بچے ملاتے ہیں وہ کسی نہ کسی مسئلے سے متعلق ہوتی ہیں، مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے کھیل کھیل میں یہ ریسکیو نمبر ملادیتے ہیں، وہ ناسمجھ ہوتے ہیں اور یہ نمبر مصروف رکھنا کہ جس سے کسی کی زندگی بچ سکتی ہے وہ اس کا نقصان نہیں سمجھ پاتے۔

بچے بڑے ہوتے ہیں اور سمجھ جاتے ہیں کہ نائن ون ون کو خوامخواہ کال کرنا غلط ہے، لیکن کچھ شرارتی بچے باز نہیں آتے، انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اس نمبر کو ڈائل کرنے پر پولیس کسی بھی جگہ آجاتی ہے، بچے اپنے امتحان کے دن اسکول کے آس پاس کے پبلک بوتھ سے 911 کال کرکے کہہ دیتے ہیں کہ اسکول میں بم ہے اور اسکول فوراً خالی کرواکر بم اسکواڈ کو بلالیا جاتا ہے، اسکول سے بچوں کی چھٹی ہوجاتی ہے اور امتحان ملتوی ہوجاتا ہے، یہ بچے بڑے ہونے کے بعد بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے اور 911 کو غلط سلط کالیں کرکے تنگ کرتے ہیں تاکہ پولیس اور فائربریگیڈ کو غلط جگہوں پر بھیج کر پبلک کا پیسہ ضایع کریں، یہی سب انگلینڈ میں بھی ہوتا ہے۔کچھ دن پہلے پولیس نے ایک شخص کو انگلینڈ میں ساری رات حوالات میں اس لیے رکھا کہ وہ ایمرجنسی نمبر پر بار بار کال کرکے یہ کہہ رہا تھا کہ ''میری چائنیز کھانے کی ہوم ڈلیوری نہیں آئی ہے ریسکیو والے چائنیز ریسٹورنٹ سے دیر کی وجہ پوچھیں؟'' اسی طرح ایک آدمی پولیس کو فون کرکے اپنے آپ کو انگلینڈ کا پرائم منسٹر بتا رہا تھا اور پولیس کو ایک ایڈریس دے رہا تھا جہاں آکر پولیس اسے بچائے۔

انگلینڈ کے علاقے کیمبرج شائن میں پولیس کو ایک ہی ویک اینڈ میں ایک اٹھارہ سالہ لڑکی نے 456 سائلینٹ کالز دیں، کیس ہوجانے پر لڑکی نے جج سے کہا ''میں تو ایسا کئی بار پہلے بھی کرچکی ہوں، اس بار مجھ پر کیس کیوں؟''

انگلینڈ کے بوئن نارتھ ویسٹ علاقے میں رہنے والے ایک شخص ڈیوڈ میسن کو ایمرجنسی نمبر پر آج تک کا تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹا کالر مانا جاتا ہے، انھوں نے پچھلے 40 سالوں میں ایمرجنسی نمبر پر ہزاروں جھوٹی کالیں کی ہیں، آج وہ اس جرم میں جیل میں ہیں، پولیس کے مطابق ڈیوڈ میسن نے حکومت کا کم سے کم دو ملین پاؤنڈ کا نقصان کیا ہے، انگلینڈ ، امریکا میں غلط کالوں کا تناسب چھ سے آٹھ فیصد ہے۔

انگلینڈ، امریکا ہم سے کئی معاملوں میں بہت آگے ہیں جہاں ان کے یہاں ریسکیو سروس ہاٹ لائن چالیس پچاس سال سے موجود ہے، ہمارے یہاں یہ سروس ابھی پاکستان کے بیشتر علاقوں میں مہیا نہیں ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں زیادہ تر لوگوں نے ریسکیو 1122 کو کال کرنا اپنی تفریح میں شامل کرلیا ہے۔

کچھ دن پہلے آئی ایک رپورٹ کے مطابق لوگ جب بور ہورہے ہوتے ہیںتو ریسکیو 1122 کو فون ملادیتے ہیں جب کہ بیرون ملک رہنے والے بیشتر لوگ جو نائن ون ون کو غلط کالیں کرتے ہیں دماغی مریض ہوتے ہیں، لیکن پاکستان میں ریسکیو کو غلط فون کرنیوالے ذہنی طور پر پوری طرح نارمل اور صحت مند ہیں۔

ٹی وی پر دکھائی گئی رپورٹ میں کچھ کالز بھی سنوائی گئیں جس میں ایک خاتون 1122 کے آپریٹر سے رومینٹک انداز میں ''آپ کیا کر رہے ہیں اس وقت؟'' کہہ کر بات شروع کرتی ہیں اور کال کرنے کی وجہ بتاتی ہیں کہ وہ اکیلے بور ہورہی ہیں، یا پھر ایک صاحب کی بھینس چارہ نہیں کھارہی، یا پھر ایک صاحبہ 1122 کے ذریعے پیزا آرڈر کرنا چاہ رہی تھیں اور ایک صاحب فون کرکے اس لیے ناراض ہورہے تھے کہ ان کا موبائل کارڈ لوڈ نہیں ہورہا، ریسکیو 1122 کے آپریٹرز بے چارے اس قسم کی کالز کو جلد ازجلد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس لائنز کم ہیں اور ہر غلط کال فون کو انگیج کرکے کسی مرنیوالے تک مدد پہنچانے میں رکاوٹ لاتی ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ 1122 کی دو کروڑ ستّر لاکھ آنے والی کالز میں سے صرف سات لاکھ کالز سچی تھیں، ورنہ سب غلط اور جھوٹی تھیں، یہ بڑی تعداد کی غلط کالز نہ صرف ریسکیو کے کام میں رکاوٹ ڈالتی ہیں بلکہ اس پروگرام کو وسیع کرنے کے بجائے یہ اعداد و شمار دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ قوم ایمرجنسی کے قابل ہی نہیں۔امریکا میں 911 پر غلط کال کرنے پر 6 مہینے جیل اور پچاس ہزار ڈالر تک جرمانہ ہے، ہمارے یہاں ویسے ہی قانون کا حال خراب ہے، اس چیز کے سدھار کے لیے بھی قانون کوئی بہتری نہیں لاپائے گا، اسی لیے ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیوں کر رہے ہیں ہم ایسا؟ یہ غلط کالر ہم میں سے ہی تو ہیں۔

چاہے ہمارے پاس تعلیم کم ہے، مگر اتنی سمجھ تو ہونی چاہیے کہ مرتے ہوئے شخص کی مدد کے لیے جو ذریعہ، جو سہولت قائم کی گئی ہے اس سے مذاق انسانیت سے مذاق ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں