آخری دن

شیخ مجیب نے اپنی تقریر میں بہاریوں کو پاکستان چلے جانے کا کہا کہ اب ان کے لیے بنگلہ دیش میں کوئی جگہ نہیں۔

03332257239@hotmail.com

سولہ تاریخ کو ہم آخری دن سمجھتے ہیں جو غلط ہے۔ اسی کے بعد 17 دسمبر سن اکہتر آتا ہے۔ ہماری تاریخ میں سمجھا جاتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ ہوگیا، مشرقی پاکستان بن گیا بنگلہ دیش اور یوں ختم شد۔ اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں وہ قیام پاکستان سے شروع ہوکر بنگال کے آزاد ہونے پر ختم ہوجاتی ہیں۔ جو مضامین لکھے گئے وہ قوم پرست بنگالیوں کو مظلوم ثابت کرتے رہے، ہماری حکومتیں اب تک معذرت خواہانہ رویے کا شکار رہیں، ہم نے پلٹ کر یہ نہیں پوچھا کہ ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں پاکستان کے حامیوں پر کیا گزری؟ ہم نے ٹھہر کر یہ نہ سوچا کہ سلہٹ اور کھلنا میں محب وطن پاکستانیوں کو کن مظالم کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

اب ایک کتاب ''شکست آرزو'' منظر عام پر آئی ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سجاد حسین (1920-95) نے آزاد بنگلہ دیش میں پاکستان کے حامیوں پر مظالم کی داستان کو قلم بند کیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے دو دن بعد انھیں اغواء کرکے تشدد کا نشانہ بناکر پھینک دیا گیا، پھر وہ اسپتال میں اور بعد میں جیل میں دو سال تک رہے۔ پہلی مرتبہ پاکستانیوں کے سامنے وہ داستان منظر عام پر آئی ہے جو محب وطن بنگالی پاکستانیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان ہے۔ کئی سو صفحات کی کتاب کو ایک کالم میں سمونے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دیکھیں کہ ایک قابل استاد اور درد مند پاکستانی ڈاکٹر سجاد سن 71 کے بعد مشرقی بنگال کو "The Wastes of Time" میں کس طرح بیان کرتے ہیں۔

''میں قومی زندگی کے چند اہم واقعات کا شاہد ہوں، جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ جیل سے باہر بھی جاسکے گا یا نہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ مسودہ (مغربی) پاکستان تک پہنچنے میں کامیاب ہو۔ یہ 19 دسمبر 1971 کی بات ہے جب مسلح نوجوانوں کا گروہ میرے گھر میں گھس آیا اور مجھے گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ پاکستانی فوج اورحکومت کا ساتھ دینے کی پاداش میں مجھے موت کو گلے لگانا پڑے گا۔ انھوں نے میرے کپڑے اتارکر میرے ہاتھ پشت پر باندھ دیے اور مجھے چمڑے کے پٹے سے مارنا شروع کردیا۔ انھوں نے میرے گھٹنے پر بھی مارا، میری حالت غیر ہوچکی تھی، مجھے ''مکتی باہنی'' کے گروپ کمانڈر کے حکم پر گرفتار کیا گیا تھا، ان کا الزام تھا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبا واساتذہ کے قتل میں میرا ہاتھ تھا۔ میری تردید کو جھوٹ قرار دے کر مسترد کردیا گیا۔ وہ مجھے موت کا یقین دلارہے تھے، مزید تشدد سے میں بے ہوش ہوگیا، صبح ایک سڑک پر پڑا تھا، ایک جاننے والے نے مجھے رکشہ میں ڈال کر گھر پہنچایا۔ گھر والے مجھے مردہ سمجھ بیٹھے تھے۔''

''بھارتی فوجی افسران کو میرے اغواء کی خبر کردی گئی تھی، ایمبولینس میں مجھے اسپتال لے جایا گیا جہاں مجھے چالیس دن تک رکھا گیا، 21 دسمبر کے اخبار نے مجھے ''دشمنوں کے ساتھی'' قرار دیا۔ مکتی باہنی والے میرے کیبن میں آ دھمکتے، ان تمام لوگوں کو ختم کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا، جنہوں نے 23 سال کے دوران مغربی پاکستان سے کسی بھی سطح پر تعاون کیا تھا۔ بھارتی پروپیگنڈہ شدید تھا۔ متحدہ پاکستان پر یقین رکھنے والوں پر مظالم کی خبریں مجھ تک پہنچ رہی تھیں، اندھا دھند گرفتاریاں کی جارہی تھیں۔ 1971 کے مارچ سے دسمبر تک جو کچھ ہوا اسے ''آزادی کی جنگ'' کہا گیا ہے۔ مرنیوالوں کو شہید قرار دے کر ان کی یادگاریں تعمیر کی جارہی ہیں۔ جناح، اقبال اور ایوب کے نام پر قائم اداروں کے نام تبدیل کیے جارہے تھے۔

شیخ مجیب اس وقت پاکستان کی قید میں تھے۔ انھیں جنوری 72 میں راولپنڈی سے رہا کیا گیا۔ وہ لندن سے ہوتے ہوئے ڈھاکہ پہنچے۔ وہ نئے جنم لینے والے بنگلہ دیش کے ''بابائے قوم'' تھے۔ ایئرپورٹ پر پانچ لاکھ سے زیادہ افراد تھے۔ کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے لیے اتنا کافی تھا کہ وہ جنگ آزادی کا مخالف اور پاکستانی فوج کا حامی تھا۔ وہ خوش قسمت تھے جنھیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ شیخ مجیب نے سونار بنگلہ کی بات کی۔ انھوں نے جتادیا کہ جن لوگوں نے عوامی لیگ کی مخالفت کی وہ الگ طبقہ تصور کیے جائیں گے۔ 30 جنوری 72 کو مجھے اسپتال سے جیل بھیج دیا گیا۔ اس موقعے پر میری حالت بہت شکستہ تھی۔


''ڈھاکہ کے علاقوں محمد پور اور میر پور سے غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو ٹرکوں میں جانوروں کی طرح لاد کرجیل لایا جاتا۔ پاکستان کے حامیوں کے بارے میں کہا جاتا کہ یہ تو موت کا حقدار ہے۔ پاکستانی حکومت اور فوج سے تعاون کرنیوالوں پر ظلم کی انتہا کردی گئی۔ ڈھاکہ جیل میں قیدیوں کی تعداد چودہ ہزار ہو گئی، یہ غیر بنگالی تھے جن کا تعلق بہار اور اتر پردیش سے تھا۔ ان کے بچے روانی سے بنگالی بولتے اور کافی حد تک مقامی ماحول اور ثقافت کا حصہ بن چکے تھے، مگر اس کے باوجود انھیں مسترد کردیا گیا۔ انھیں قتل کیا گیا، املاک کو تباہ اور ضبط کیا گیا کہ انھوں نے پاکستان کے خلاف جدوجہد میں عوامی لیگ کا ساتھ نہیں دیا۔ غیر بنگالیوں کی شناختی پریڈ ہوتی اور جسے چاہتے لے جاتے۔ یہ سلسلہ سن 72 کے موسم گرما تک چلا۔ خون کی پیاس تھی جو جی بھر کے بجھائی گئی۔''

''وزیر اعظم کی حیثیت سے شیخ مجیب نے اپنی تقریر میں بہاریوں کو پاکستان چلے جانے کا کہا کہ اب ان کے لیے بنگلہ دیش میں کوئی جگہ نہیں۔ دلیل یہ تھی کہ جنگ آزادی میں بہاریوں نے بنگالیوں کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ جیل میں فضل القادر چوہدری، عبدالصبور خان اور خواجہ خیر الدین جیسے سیاستدانوں سے آشنائی ہوئی۔ ہماری پاکستان کے بنیادی نظریے سے ایک جیسی وابستگی رہی تھی۔ متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے آخری اسپیکر فضل القادر چوہدری جولائی 73 میں جیل میں انتقال کرگئے۔ ان کا سیاسی کیرئیر پاکستان سے لازوال محبت سے عبارت تھا۔ مرحوم مشرقی پاکستان کے آخری گورنر ڈاکٹر عبدالمالک سے بھی ملاقات رہی۔ جیل کے ماحول نے ان کی سیاسی عزیمت کو مزید پختہ کردیا تھا۔''

''مشرقی پاکستان کے المیے کے صحیح اسباب ہماری سمجھ میں نہیں آرہے تھے، رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف کردیا گیا تھا، مشرقی بنگال میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کو عوامی لیگ نے پسماندگی کی علامت بناکر پیش کیا۔ اربوں کی سرمایہ کاری کرنے والے مغربی پاکستان کے کاروباری افراد کو استحصالی ٹھہرایا گیا۔ آدھے سچ اور آدھے جھوٹ کو ''نظریہ'' بناکر اپنالیا گیا۔ اگر بنگلہ قوم پرستی کا راگ ہی الاپنا تھا تو سن 47 میں بنگال کو تقسیم کیوں ہوجانے دیا گیا؟ ہندوؤں نے خود مختار بنگال میں مسلم اکثریتی حکومت کے ماتحت زندگی گزارنے کے بجائے مغربی حصے کو الگ کیوں کیا۔ بھارت میں ہندی زبان سے ہندو بنگالیوں کو مسئلہ نہ تھا تو پاکستان میں اردو کو خطرہ کیوں سمجھا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بارے میں جس قدر بھی غور کیجیے، ذہن اسی قدر الجھتا ہے۔ 71 کے حالات میں کوئی عوامی لیگ کو چیلنج کرنے والا نہ رہا۔ اختلاف رکھنے والے بھی اسے ظاہر کرنے کی ہمت نہ رکھتے۔''

''مغربی پاکستان کے سیاستدانوں میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کی تحقیر کی عادت عام تھی۔ بنگالیوں کو احترام دینے کے حالات میں کچھ فرق پڑسکتا تھا، دشمنوں کی جانب سے معاشی جھوٹ کی نفی نہ گئی۔ آخری بات یہ کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ سازش کو سمجھ ہی نہ سکے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔''

یہ ہے وہ المناک داستان جو ایک مسلمان، پاکستانی، بنگالی کے قلم سے نکلی ہے۔ ہم نے پہلے 23 سال ناانصافی پھر سن 71 میں نادانی اور اس کے بعد چار عشرے ناقدری میں گزار دیے۔ ہم اس جنگ میں اپنوں کے لیے دلائل کی جنگ بھی نہ لڑ سکے۔ ہمارے وہ اپنے جو پاکستان کی خاطر اپنے ہم نسل بنگالیوں سے لڑے، بدقسمتی یہ رہی کہ ہم صحیح سمجھتے رہے کہ 16دسمبر 71 ہے ہی آخری دن۔
Load Next Story