قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اگر ساری کائنات کو خلاء کے بغیر سمیٹ لیا جائے تو پوری کائنات سورج کے صرف 30 گنا حجم کے برابر رہ جائے گی۔

drtayyabsinghanyi100@gmail.com

سائنس کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق کیسٹ کے فیتے میں وہی مادہ پایا جاتا ہے جو مادہ ہماری جلد میں موجود ہوتا ہے کیسٹ کا فیتہ بولتا ہے، ہماری جلد بھی ایسا کرے گی بلکہ اپنے اندر ریکارڈ ہونے والی ایک ایک بات کو وہ حشر کے روز المعیدُ کے سامنے اگلے گی۔ یہی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی ہمارے دین کا ہمیں درس ہے کہ بندے کا ایک ایک عضو بولے گا کہ اس سے کیا کیا کام لیا جاتا رہاہے۔ قرآن پاک کی سورہ حم سجدہ اور سورہ یاسین میں جدید تحقیق کا مفہوم موجود ہے۔

قرآن حکیم وہ کلام الٰہیہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اربوں برسوں بلکہ نامعلوم اور ناقابل فہم ازل دن سے لوح محفوظ میں محفوظ کردیا تھا جسے آج سے تقریباً چودہ سو سال پیشتر آقائے نامدار خاتم النبین محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل فرمایا گیا۔ اس کا موجودہ سائنس سے مکمل رشتہ ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سائنس کے بنیادی فارمولے اور بنیادی نظریات قرآن مجید میں ہی رکھ دیے گئے تھے جس کو آج کا سائنسدان سخت محنت کے بعد صحیح تسلیم کر رہا ہے لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ سائنس، قرآن حکیم کی مرہون منت ہے۔

قرآن حکیم، ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسان کے لیے پیدائش سے لے کر موت تک کا درس موجود ہے۔ اخلاقیات، معاشیات، عمرانیات، ریاضیات، حیاتیات، ارضیات، فلکیات، کیمیا و طبیعات۔۔۔۔ غرض اس میں کسی پہلو کو چھوڑا نہیں گیا۔ اس میں عبادت بھی ہے نصیحت بھی، سلوک بھی ہے، انتقام بھی، نیکی اور بدی کی تمیز بھی ہے،اخوت اور مساوات بھی ہے، جزا اور سزا بھی۔۔۔۔۔ غرض کوزے میں سمندر کو بند کیا ہے جوکہ انسانیت کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ جن باتوں کو آج کے سائنسدانوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے دریافت کیا ہے، کیا قرآن مجید میں اس کا پہلے سے نہایت ہی آسان اور حکیمانہ انداز میں بیان ہے یا نہیں؟ اس کے لیے چند ثبوت درج ذیل ہیں: قرآن حکیم میں ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ بے شک تم پر مردہ جانور حرام کردیا گیا ہے۔ سائنسی تجزیے کے مطابق خون میں کثیر مقدار میں یورک ایسڈ ہوتا ہے جو ایک تیزابی مادہ ہونے کی وجہ سے خطرناک زہریلی تاثیر رکھتا ہے جسے غذا کے طور پر استعمال کرنا نہایت ہی مضر ہے۔

اسلام نے جانوروں کو ذبح کرنے کا خاص طریقہ بتایا ہے کہ تکبیر پڑھ کر شہ رگ کاٹ دی جاتی ہے لیکن گردن کی رگوں کو قائم رکھا جاتا ہے تاکہ دل ودماغ سے کچھ دیر تک رابطہ قائم رہے اور تمام کا تمام خون جسم سے خارج ہوجائے،اگر اس کی بجائے دوسرے طریقے مثلاً چوٹ، بیماری یا اعضائے رئیسہ پر صدمے کی وجہ سے کوئی چیز مر جائے تو وہ مردہ کہلاتی ہے، جس کے مرتے ہی تمام یورک ایسڈ جسم میں سرائیت کرجاتا ہے اور سارا خون بھی منجمد ہوجاتا ہے اور گوشت زہریلا ہوجاتا ہے۔

اسی طرح سور میں دوسرے جانوروں کی نسبت یورک ایسڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ جانوروں کے گردے پیشاب کے ذریعے یورک ایسڈ خارج کردیتے ہیں جب کہ انسانی جسم اس مادہ کو نوے فیصد تک خارج کرتا ہے جب کہ سور کے جسم کی عضلاتی ساخت اس قسم کی ہے کہ وہ صرف دو فیصد تک ہی یہ مادہ خارج کرسکتا ہے اور باقی تمام یورک ایسڈ اس کا جزو بدن بنتا رہتا ہے۔ اس لیے اس کا گوشت کھانے سے آہستہ آہستہ زہر اپنا اثر دکھاتا ہے اور زیادہ عرصے تک کھانے سے انسانی دل و دماغ پر ایک خاص قسم کی جھلی نمودار ہوجاتی ہے جس سے انسان، انسانیت سے بہت دور چلا جاتا ہے۔

آپ ایک چھوٹی سی بات کو لیجیے جس میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کے نام پر ذبح کرنے سے وہ جانور حرام ہوجاتا ہے۔ بظاہر تو کوئی بات نظر نہیں آتی لیکن ایک وقت ضرور آئے گا جب یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ اللہ کا نام لینے سے اور غیر اللہ کا نام لینے سے کس طرح کی خاص شعاعیں خارج ہوتی ہیں جس میں اچھائی اور بھلائی کا عنصر موجود ہوتا ہے لیکن فی الحال ہمیں ایمان بالقلب پر ہی اکتفا کرنا پڑے گاکہ جس طرح پہلی باتیں سچ ہیں تو یہ بھی یقینا حق اور سچ ہے۔ تخلیقات کائنات کے بارے میں رب ذوالجلال فرماتے ہیں۔ ''کیا یہ منکرین نہیں دیکھتے کہ زمین وآسمان دونوں جڑے ہوئے تھے ہم نے ان کو علیحدہ علیحدہ کیا۔''

یہ آیت آغاز کائنات کے بارے میں ہے، جب کچھ بھی نہیں تھا، بلکہ پوری کائنات اور زمین و آسمان سب ایک جگہ جڑے ہوئے تھے اور آج سائنس دانوں نے سیکڑوں سال کی محنت سے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے۔ اس کے بارے میں ایٹمی سائنسدان جارج گیمو، اپنی کتاب (The Creation of the Universe) میں کہتا ہے کہ کائناتی مکان ابتداء میں کثیر توانائی والی گیما شعاعوں پر تھا، گیس ، جوکہ نہایت گھٹی اور سکڑی ہوئی انتہائی گرم تھی جس میں موجود مادہ کا وزن مخصوص زمین سے بالاتر فضا کی ہوا کے برابر تھا۔ تقریباً پچاس کھرب سال پہلے ایک زبردست دھماکے کے ساتھ پھٹ پڑی اور اس کے ٹوٹے ہوئے اجزاء چاروں طرف پھیلنے لگے۔ ارشاد ربانی ہے کہ:

''ہم نے ہی اپنے دست قدرت سے آسمان (کائنات) بنایا اور ہم نے ہی اس کو وسیع کیا۔''


اگر ہم سائنس کے بنیادی اصول کی طرف جائیں جس میں ہر چیز اپنی اصلیت کی طرف لوٹ جائے گی اور پھر اتنی پھیلی ہوئی کائنات جوکہ شروع میں موجود سورج کے حجم کا صرف چند گنا تھی دوبارہ اپنے اصل کی طرف لوٹ سکے تو اس سے مراد قیامت آنے والی ہے جس میں ہر چیز اپنی موجودہ حالت کھودے گی۔

فلکی طبیعات کے ماہرین نے کائنات میں پھیلے ہوئے مادے کا پورا حساب لگایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر ساری کائنات کو خلاء کے بغیر سمیٹ لیا جائے تو پوری کائنات سورج کے صرف 30 گنا حجم کے برابر رہ جائے گی، رب کریم نے ازل سے ہی فرمادیا تھا۔

''کہ اس (قیامت) کے دن ہم آسمان (کائنات) کو کاغذ کی طرح لپیٹ کر رکھ دیں گے۔'' اس طرح اگر نسل انسانی کی افزائش کی طرف دیکھیں، پھر قرآن مجید کی تعلیم اور سائنس کا موازنہ کیا جائے تو پوری میڈیکل سائنس اس کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اکڑے ہوئے انسان کو بار بار اس کی اصلیت پر کہ تم کیا تھے اور کیا بنے پھرتے ہو۔ اندازہ لگائیں کہ ایک دفعہ کے ملاپ سے اسپرم کے اخراج میں لاکھوں تولیدی جرثومے ہوتے ہیں اور ہر ایک میں بار آور ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اگر تمام کے تمام بار آور ہوجائیں تو ایک وقت میں لاکھوں بچے جنم لیں۔ لیکن یہ قانون فطرت کے خلاف ہے اس سے واضح ہوا کہ لاکھوں تولیدی جرثوموں میں سے چند ایک ہی بار آور ہوتے ہیں، لیکن ہر بار آور ہونے والا جرثومہ علیحدہ انسان بناتا ہے۔

موت کی حقیقت کو سائنس دانوں نے اس طرح تسلیم کیا کہ آج بھی ایک چھ فٹ کے لمبے چوڑے انسانی جسم کے مادی ذرات کے درمیان سے خلا نکال لی جائے تو باقی ماندہ مادے کی بساط صرف ایک غیر مرئی دھبہ کی سی رہ جائے اور یہی حقیقت ہے۔

اگر زلزلوں کو دیکھا جائے تو یہ دنیا میں چھوٹی چھوٹی قیامتوں کا منظر پیش کرتے ہیں جوکہ زمین کے اندرونی حصے میں گرم ترین مادے کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ یہ زلزلے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم ایک سرخ پگھلے ہوئے نہایت گرم مادے کے اوپر آباد ہیں جس سے صرف 50 کلومیٹر کی پتلی تہہ ہمیں علیحدہ رکھتی ہے جو زمین کے مقابلے میں ویسی ہی ہے جیسے سیب کے اوپر باریک چھلکا۔ جارج گیمو اپنی کتاب (بائیو گرافی آف ارتھ) میں لکھتے ہیں ''ہمارے آباد شہروں اور سمندر کے نیچے ایک قدرتی جہنم دہک رہا ہے یا یوں کہیے کہ ہم ایک عظیم ڈائنامائٹ کے اوپر کھڑے ہیں جو کسی وقت بھی سارے نظام ارضی کو تباہ و برباد کرسکتا ہے۔

اس سے ہمیں زمین کے اندر جہنم کا ثبوت ملتا ہے اور یہ بھی کہ ایک دن قیامت ضرور آئے گی ان واقعات سے آخرت کا پہلا حصہ تو یقینا سمجھ میں آتا ہے لیکن اس کا دوسرا حصہ جس میں دوبارہ زندہ کیے جانے کی بات کافی پیچیدہ ہے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں بارہا فرمایا ہے کہ ہر شخص موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا اور حساب کتاب ہوگا جس کے لیے ہر انسان کے ساتھ ہر لمحہ کراماً کاتبین موجود ہیں جو ان کی ویڈیو کیسٹ تیار کر رہے ہیں جو ہر انسان کو حشر کے دن دکھائی جائے گی تو ہر انسان بے ساختہ پکار اٹھے گا کہ یہ کیسی کتاب ہے جس نے نہیں چھوڑی کوئی چیز چھوٹی اور نہ بڑی مگر سب کچھ درج کرلیا ہے۔

آخرت کا یہ جزو بھی بعیدازقیاس نہیں رہتا کہ جب سائنس یہ بتاتی ہے کہ ہمارے تمام اعمال خواہ وہ اندھیرے میں سرزد ہوئے ہوں یا اجالے میں، تنہائی میں مرتکب ہوئے ہوں یا مجمع میں۔ اس کے سب فضاء میں تصویری حالت میں موجود ہیں جنھیں کسی بھی وقت یکجا کرکے ہر شخص کا پورا کارنامہ حیات معلوم کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ ویڈیو کیمرے ہر چھوٹے بڑے کام کو ریکارڈ کرلیتے ہیں جن کو ہزاروں سال تک محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اب ایسے جدید ترین کیمرے ایجاد ہوچکے ہیں جو کئی گھنٹے پہلے کسی واقعے یا حادثہ کو جس کا کوئی نام و نشان بھی نظر نہ آرہا ہو ریکارڈ کرسکتے ہیں اور اس کی مکمل تصویر بناسکتے ہیں۔

جو اس تحقیق پر عمل کرتے ہیں کہ ہر چیز ہر وقت حرارتی شعاعیں خارج کرتی رہتی ہے جو کسی عمل کے ہونے کے کئی گھنٹے بعد تک وہاں موجود رہتی ہے۔ جنھیں یہ کیمرے کیچ کرکے تصویر بنا لیتے ہیں۔ ان کیمروں میں انفرا ریڈ شعاعیں استعمال کی جاتی ہیں جو اندھیرے اور اجالے میں یکساں کام کرتی ہیں۔ ان شعاعوں سے کئی ممالک میں کام لینا شروع کردیا گیا ہے۔ چند سال پہلے ایک رات نیو یارک کے اوپر سے ایک پراسرار جہاز چکر لگا کر چلا گیا اس کے کئی گھنٹے کے بعد ان مخصوص کیمروں نے اس کی ساخت اور ملک کا اندازہ لگالیا۔ اس طرح یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جب کسی شخص کی خفیہ رپورٹیں تیار کی جارہی ہوں تو اس کے خلاف کچھ نہ کچھ قدم لازمی اٹھانا ہوتا ہے اور ہر انسان کے لیے یہ قدم یوم الحساب کو اٹھایا جائے گا۔

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
Load Next Story