سٹی کورٹ بچوں سے ملاقات کے پارکس پر پولیس اور کورٹ محرروں کا قبضہ
جیل سے لائے گئے قیدیوں کو بھی پولیس ان ہی برآمدوں میں بٹھاتے تھے جہاں بچوں پر برے اثرات مرتب ہورہے تھے.
سٹی کورٹ میں سرپرستی کے کیسز میں لائے جانے والے بچوں کی والدین سے ملاقات کیلیے مختص پارک پر پولیس اور کورٹ محرروں نے قبضہ کرلیا۔
سیشن جج شرقی کی ہدایت پر سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے تعاون سے بنایا گیا پارک پولیس اہلکاروں کیلیے آرام گاہ بن گیا ، تفصیلات کے مطابق سٹی کورٹ میں بچوں کی سرپرستی سے متعلق کیسز بھی کریمنل عدالتوں میں ہی زیر سماعت ہوتے تھے جس سے بچوں کی نفسیات پر مضر اثرات مرتب ہورہے تھے ، صورتحال کے باعث بچوں کو جرائم پیشہ افراد سے دور رکھنے کی غرض سے چاروں اضلاع میں10 سے زائد فیملی کورٹس قائم کی گئیں جہاں بچوں کی اپنے سرپرستوں یا والدین سے ملاقات کے لیے عدالتوں میں یا کورٹ کے باہر برآمدوں میں کرائی جاتی تھیں۔
لیکن جیل سے لائے گئے قیدیوں کو بھی پولیس ان ہی برآمدوں میں بٹھاتے تھے جہاں بچوں پر برے اثرات مرتب ہورہے تھے اور بچے زیادہ تر خوف میں مبتلا نظر آتے تھے اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے فیملی جج جنوبی نے اپنی ذاتی اخراجات سے بچوں کے جھولے نصب کیے تھے بعدازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شرقی صادق حسین بھٹی کی ہدایت پر سیلانی ویلفیئر نے بچوں کو آزاد ماحول فراہم کرنے اور انکی دلچسپی اور والدین سے ملاقات کے لیے ضلع شرقی کی عدالت میں علیحدہ پارک قائم کیا جہاں ہزاروں روپے کی لاگت سے ہرقسم کے جھولے نصب کیے گئے ہیں اور اس پارک میں غیرمتعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی عائد ہے لیکن سٹی کورٹ میں ڈیوٹی پر مامور اور گواہی کیلیے آنے والے پولیس اہلکاروں نے چند ہفتوں سے اسے اپنی آرام گاہ بنالیا ہے بچوں کے کھیل کود اور شور سے انکے آرام میں خلل پیدا ہوتا ہے.
پولیس اہلکار مرکزی دروازہ کو اندر سے لاک کردیتے ہیں جس سے ظاہر کیا جاتا ہے کہ پارک نامعلوم وجوہات کے باعث بند ہے بچے اپنے والدین سے برآمدوں میں ملنے پر مجبور ہیں دوسری جانب ضلع شرقی میں بچوں کیلیے مختص پارک قائم ہونے کے بعد کراچی بار نے سٹی کورٹ کے ضلع غربی میں واقع موٹر سائیکل پارکنگ کو ختم کرکے والدین سے ملاقات کیلیے سٹی کورٹ پارک قائم کیا اور ذاتی بجٹ سے جھولے قائم کیے لیکن مذکورہ پارکس پر پولیس نے اور کورٹ محرروں نے مبینہ طور پر اپنا قبضہ جمالیا۔
وہ مفرور ملزمان یا گواہی کیلیے آنے والے افراد سے اسی پارک میں جوڑ توڑ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں اس موقع پر وہ کسی کو بھی پارک میں آنے نہیں دیتے پارک میں نصب جھولوں کے صرف فریم باقی رہ گئے ہیں جسے غیرمتعلقہ افراد خود کو لٹکاکر اپنا قد بڑھاتے رہتے ہیں،صرف جنوبی کی عدالت کے باہر فاضل جج کے ذاتی اخراجات سے قائم جھولے تاحال محفوظ ہیں اور بچے آزادانہ ماحول میں اپنے والدین سے ملاقات کرتے ہیں۔
سیشن جج شرقی کی ہدایت پر سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے تعاون سے بنایا گیا پارک پولیس اہلکاروں کیلیے آرام گاہ بن گیا ، تفصیلات کے مطابق سٹی کورٹ میں بچوں کی سرپرستی سے متعلق کیسز بھی کریمنل عدالتوں میں ہی زیر سماعت ہوتے تھے جس سے بچوں کی نفسیات پر مضر اثرات مرتب ہورہے تھے ، صورتحال کے باعث بچوں کو جرائم پیشہ افراد سے دور رکھنے کی غرض سے چاروں اضلاع میں10 سے زائد فیملی کورٹس قائم کی گئیں جہاں بچوں کی اپنے سرپرستوں یا والدین سے ملاقات کے لیے عدالتوں میں یا کورٹ کے باہر برآمدوں میں کرائی جاتی تھیں۔
لیکن جیل سے لائے گئے قیدیوں کو بھی پولیس ان ہی برآمدوں میں بٹھاتے تھے جہاں بچوں پر برے اثرات مرتب ہورہے تھے اور بچے زیادہ تر خوف میں مبتلا نظر آتے تھے اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے فیملی جج جنوبی نے اپنی ذاتی اخراجات سے بچوں کے جھولے نصب کیے تھے بعدازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شرقی صادق حسین بھٹی کی ہدایت پر سیلانی ویلفیئر نے بچوں کو آزاد ماحول فراہم کرنے اور انکی دلچسپی اور والدین سے ملاقات کے لیے ضلع شرقی کی عدالت میں علیحدہ پارک قائم کیا جہاں ہزاروں روپے کی لاگت سے ہرقسم کے جھولے نصب کیے گئے ہیں اور اس پارک میں غیرمتعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی عائد ہے لیکن سٹی کورٹ میں ڈیوٹی پر مامور اور گواہی کیلیے آنے والے پولیس اہلکاروں نے چند ہفتوں سے اسے اپنی آرام گاہ بنالیا ہے بچوں کے کھیل کود اور شور سے انکے آرام میں خلل پیدا ہوتا ہے.
پولیس اہلکار مرکزی دروازہ کو اندر سے لاک کردیتے ہیں جس سے ظاہر کیا جاتا ہے کہ پارک نامعلوم وجوہات کے باعث بند ہے بچے اپنے والدین سے برآمدوں میں ملنے پر مجبور ہیں دوسری جانب ضلع شرقی میں بچوں کیلیے مختص پارک قائم ہونے کے بعد کراچی بار نے سٹی کورٹ کے ضلع غربی میں واقع موٹر سائیکل پارکنگ کو ختم کرکے والدین سے ملاقات کیلیے سٹی کورٹ پارک قائم کیا اور ذاتی بجٹ سے جھولے قائم کیے لیکن مذکورہ پارکس پر پولیس نے اور کورٹ محرروں نے مبینہ طور پر اپنا قبضہ جمالیا۔
وہ مفرور ملزمان یا گواہی کیلیے آنے والے افراد سے اسی پارک میں جوڑ توڑ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں اس موقع پر وہ کسی کو بھی پارک میں آنے نہیں دیتے پارک میں نصب جھولوں کے صرف فریم باقی رہ گئے ہیں جسے غیرمتعلقہ افراد خود کو لٹکاکر اپنا قد بڑھاتے رہتے ہیں،صرف جنوبی کی عدالت کے باہر فاضل جج کے ذاتی اخراجات سے قائم جھولے تاحال محفوظ ہیں اور بچے آزادانہ ماحول میں اپنے والدین سے ملاقات کرتے ہیں۔