قانون کی حکمرانی مسائل کا واحد حل
الیکشن کمیشن پاکستان نے وزیراعظم کے خلاف چار ریفرنسز کی سماعت سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک ملتوی کردی
ISLAMABAD:
پی ٹی آئی کے دھرنے کے موخر ہونے سے پیداشدہ صورتحال اہل وطن کے لیے بالعموم جب کہ سیاسی جماعتوں کے لیے بالخصوص ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ ایک غیر معمولی سیاسی کشمکش، انتشار اور تصادم کے تمام تر خطرات کے باوجود ایک دم سیاسی شورش کا تھم جانا اور حکومت اور تحریک انصاف کے مابین عدالتی مداخلت پر سیز فائر ہوجانا کثیر طرفہ نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا ہے، تحریک انصاف نے اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے کی پیش رفت کی، ادھر حکومتی ذرایع نے بھی دھرنے کے التوا پر محتاط اور شگفتہ بیانی کے پیرائے میں طنز کے سقراطی تیر چلائے، مگر اب نئے سیاسی سفر اور عدالتی کمیشن کے قیام کے ساتھ ہی سیاسی رہنماؤں کو بے مثال تحمل اور رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
سیاست کی عقابی نگاہوں نے عبوری صلح کو ''باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی'' کا منظر نامہ قرار دیا ہے ، فیس بک اور سوشل میڈیا پر دھرنے کے مضمرات اور اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کے حوالے سے تلخ وشیریں آرا کا ایک سیل رواں ہے، عمران خان کی جارحانہ حکمت عملی کے نتائج نہ ملنے پر ان کے قریبی ساتھیوں کی مایوسی کا ذکر بھی ہونے لگا ہے، حکومتی ہتھکنڈوں اور ریاستی جبر و ستم کی شکایات بھی میڈیا پر لائی گئیں، علامہ طاہر القادری نے دھرنا التوا پر انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کر ارشاد فرمایا کہ پانامہ لیکس کا معاملہ کہیں کھو گیا ہے۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں5 رکنی لارجر بنچ نے پانامہ پیپر لیکس کی آیندہ تحقیقات کے باب میں فریقین کے اتفاق پر مہر تصدیق ثبت کرا دی ہے اور قوم نے بھی اس فیصلہ پر اطمینان کا سانس لیا ہے۔
تمام جماعتوں کا بادی النظر میں جوڈیشل کمیشن پر اتفاق رائے ہوگیا ہے، معاملہ انتہائی اہم اور عوامی اہمیت کا ہے، فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا سیاستدان تحمل کا دامن نہ چھوڑیں، کمیشن ٹی او آرز کی حد تک انکوائری کرے گا، کسی ایک فریق کی مرضی نہیں چلے گی، ہائی پروفائل کیس ہے، روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے فیصلہ کریں گے ، کمیشن ٹی او آرزکی حد تک تحقیقات کرے گا، سیاست میں نہیں پڑیں گے، پورے ملک میں ہیجانی کیفیت ہے، معاملے کو زیادہ طول نہیں دے سکتے، ہم نے ملک کو بدامنی سے بچانا ہے، قوم بے چینی کا شکار ہے، فریقین دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔
بہرحال اس بریک تھرو کو جمہوریت کی کرن سمجھنا چاہیے حالانکہ بدنصیبی تھی کہ جو ایشو پارلیمنٹ میں طے پاجانا چاہیے تھا اسے ارباب سیاست سڑکوں پر لے تو آئے لیکن اب ان درد انگیز اور تلخ تجربات سے کچھ نہ کچھ ارباب سیاست کو سیکھنا بھی چاہیے۔ عدلیہ کا یہ استعاراتی فقرہ سیاست دانوں کو مژدہ جاں فزا کا کام دے گیا کہ ''سیاست بھی کریں لیکن اپنے گھوڑوں کو لگام دیں تاکہ لوگوں کو امن نصیب ہو۔''
دریں اثنا الیکشن کمیشن پاکستان نے وزیراعظم کے خلاف چار ریفرنسز کی سماعت سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک ملتوی کردی، جب کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف تین درخواستوں کو خارج کردیا، الیکشن کمیشن نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے خلاف بھیجے گئے ریفرنسز پر عمران خان اور جہانگیر ترین کو 16 نومبر کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری جواب دائر کرنے کا حکم دیا۔
میڈیا کی اطلاع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے یقین دلایا کہ پانامہ لیکس کے حوالہ سے ان کے خلاف جو بھی فیصلہ آئیگا وہ اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں اس حوالے سے بدھ کو وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے صورتحال کی مناسبت سے بیان دیا ہے کہ عمران خان کے دھرنا منسوخ کرنے کے فیصلے سے نہ کسی کی ہار ہوئی ہے نہ جیت، ان کے فیصلے کی قدر کرتا ہوں، عمران خان پہلے مان جاتے تواب تک احتساب ہوچکا ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ دھرنے کی سیاست بھی احساس زیاں سے خالی نہیں ، یہ خود احتسابی کا جواز بھی مہیا کرگئی ہے، سیاستدان اپنی توجہ ٹی او آرز پر مرکوز کریں، ان کی نوک پلک درست کریں ، جس سیاسی بصیرت اور تدبر سے وہ بربادی کی کھائی میں گرنے سے بچ گئے ، اب مزید بچاؤ عدلیہ اور ادارہ جاتی اقدار اور پارلیمانی آداب و روایات کے احیا میں مضمرہے۔ محولہ بالا حقائق و واقعات نے دنیا کو پاکستان کی صورتحال کی طرف متوجہ کیا ہے، سیاسی قیادتوں پر لازم ہے کہ وہ ملکی سالمیت کو لاحق داخلی و خارجی خطرات کا فوری ادراک کریں۔
جمہوری سوچ پیدا کریں، جو مفاہمت عدلیہ کے توسط سے ہوئی ہے اسے سیاسی نظام کا حصہ بنائیں، اختلاف رائے کا دوستانہ انداز تکلم اختیار کریں جس کی مہک سے سیاسی چمن کا کاروبار شایان شان طریقہ سے چلے۔ سیاسی رہنما نہ بھولیں کہ دنیا کے سارے کھیلوں کے رولز آف گیمز طے ہوتے ہیں، سیاست بھی امکانات کا کھیل سمجھا جاتا ہے۔ سیاست دان رول ماڈل شمار ہوتے ہیں، پاکستان کو سیاسی کلچر میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، ملکی سیاست شفاف ہوگی تب کرپشن کا خاتمہ ہوگا جب کہ کرپشن کی تدفین ہی میں قوم کی نجات پوشیدہ ہے۔