عجب طرفہ تماشہ ہے
حالات و واقعات جس نہج پر جارہے ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے کوئی خوش گماں پیش گوئی نہیں کی جاسکتی
حالات و واقعات جس نہج پر جارہے ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے کوئی خوش گماں پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ محسوس یہ ہورہا ہے کہ اصل کشمکش اقتدار کے ایوانوں کی غلام گردشوں میں حکمران اشرافیہ کے درمیان ہے،جو مختلف انداز میں سامنے آرہی ہے۔ گزشتہ ہفتے چند ایسے واقعات رونما ہوئے، جو تشویش میں مزید اضافے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف نے اپنی تحریک 2نومبر سے پہلے ہی شروع کردی تھی۔
دوسری طرف خبر لیکس کے نتیجے میں پرویز رشید اپنی وزارت سے ہاتھ دھوبیٹھے جب کہ تیسری طرف اسلام آباد میں نافذ دفعہ144کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کالعدم جماعتوں نے جلسہ کیا۔ گویا نیشنل ایکشن پلان کی کھلے عام دھجیاں بکھیری گئیں، مگر اس پر انگشت نمائی کی کسی کو جرأت نہیں ہوئی جو صحافی اور تجزیہ نگاراس کھیل کو سمجھ رہے ہیں، وہ بوجہ خاموش ہیںکہ کسی مشکل میں پڑنا نہیں چاہتے۔
عائشہ صدیقہ نے بہت پہلے لکھا تھا کہ پاکستانی عوام کو جمہوریت کے ثمرات اس لیے نہیں ملتے کہ سیاسی جماعتوں کے رویے بھی آمروں سے کم نہیں۔ اپنی کمزور حکمت عملیوں اور ہوس اقتدار میں اصل عوامی مسائل کو فراموش کرکے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہوکر ہر بار غچہ کھا جاتی ہیں جب کہ بڑے کھلاڑی جو پتلی تماشہ کے ماہر ہیں، انھیں ریاست اور سیاست دونوں کو اپنی انگلیوں پہ نچانے کا ہنر خوب آتا ہے۔
ابتدا ہی سے سیاست کو رسوا کرنے کا واحد حربہ کرپشن کا الزام رہا ہے، مگر آج تک کرپشن کا کوئی الزام کبھی ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اول، کرپشن کرنے والے عناصر اتنے چالاک ہیں کہ وہ اپنی کرپشن کے نشانات نہیں چھوڑتے۔ دوئم، تفتیشی ادارے خود بھی بدعنوان ہیں، جو کرپٹ عناصر کے ساتھ مک مکا کرکے معاملہ کو دبا دیتے ہیں۔ سوئم، نظام عدل کے کمزور اور قانونِ شہادت کے فرسودہ ہونے کی وجہ سے بدعنوان عناصر قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ کرپشن ایک بڑا قومی مسئلہ ہے، لیکن اس سے زیادہ پیچیدہ اور سنگین مسائل سے اس وقت ملک دوچار ہے۔ بیشتر متوشش شہریوں کے مطابق سب سے بڑا اور خطرناک مسئلہ دہشت گردی ہے۔ جس کی کئی جہتیں ہیں اور جو ناسور کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ ان تمام مسائل اور بحرانوں کو حل کرنا حکمرانوں اور ریاستی منصوبہ سازوں کی ذمے داری ہے، لیکن مسائل کے حل کے لیے ان کا ترجیحی بنیادوں پر ترتیب دیا جانا ضروری ہوتا ہے، مگر ہمیں ایسی کوئی ترجیحات نظر نہیں آتیں جن سے یہ اندازہ ہوسکا کہ فلاں مسئلہ اتنی مدت میں حل ہوسکے گا یا اس پر قابو پایا جاسکے گا۔
یہ طے ہے کہ کرپشن سمیت تقریباً ہر مسئلہ گورننس سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ گورننس یا حکمرانی کے لیے حکمران میں تین اوصاف کا ہونا ضروری ہوتا ہے یعنی قابلیت (Qualification)، اہلیت(Ability)اور استعداد (Capacity)۔ لیکن ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں اور انتظامی ادارے زیادہ تر ان اوصاف سے عاری ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول، سیاسی جماعتیں لمیٹیڈ کمپنیاں بنی ہوئی ہیں، جوکسی ایک شخصیت یاخاندان کے گرد گھوم رہی ہیں۔ اس لیے ان جماعتوں میں کارکنوں میں واضح سمت کے تعین Orientation کا کوئی تصور نہیں ہے چنانچہ عالمی سطح پر مروج Techno-Politics کے تصور سے کوسوں دور ہیں۔
جماعت اسلامی غالباً ملک کی واحد جماعت ہے جو اپنے کارکنوں میں قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے کے لیے مختلف پروگرام ترتیب دیتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ اس جماعت میں موروثیت کا نہ ہونا ہے، مگر یہ جماعت مخصوص سیاسی نظریات کی وجہ سے محدود ووٹ بینک رکھتی ہے اور قومی دھارے کی جماعت بننے کے لیے بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ، مگر شاید اپنے مخصوص نظریات کی وجہ سے وہ بڑے پیمانے پر خود کو ٹرانسفارم نہ کرسکے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بانیان ملک اور مقتدراشرافیہ کے ریاست سے منسوب بیانیے(Narratives)ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں جس کی وجہ سے عوام اور حکمرانوں کی خواہشات اور تصورات میں بھی بعد المشرقین پایا جاتاہے۔ ریاستی منصوبہ سازوں نے ملک پر ہمیشہ ان جماعتوں کو مسلط کرنے کی کوشش کی جو مذہبیت (Religiosity)کو بطور آلہ کار استعمال کرتی ہیں۔ اس کے برعکس عوام نے ہمیشہ ان جماعتوں کو اپنا مینڈیٹ دیا جو آزاد فکر سیاست کی علمبردار ہیں۔
عوام اور ریاستی مقتدرہ کے تصورات (Perceptions)کے اس فرق کا نتیجہ یہ ہے کہ جب بھی منتخب حکومتوں کے اقتدار کا دور آتا ہے، مقتدرہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً ان جماعتوں کے اقتدار میں آتے ہی ان کا میڈیا ٹرائیل شروع ہوجاتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی کمزوریاں اور کوتاہیاں اپنی جگہ ہیں، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض طاقتور حلقے اسے کھل کر کام کرنے نہیں دینا چاہتے۔ حالانکہ معاملات کو گنجلک بنانے میں سب جماعتوں کا یکساں کردار ہے، مگر کچھ جماعتیں نادیدہ قوتوں کے اشارے پر چلتے ہوئے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں خرابی ٔ بسیار کا حل کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے اب تک جو ماورائے آئین تجربات کیے گئے، وہ ناکام ہوئے ہیں۔ لہٰذا جو بھی تبدیلی لائی جائے ، وہ آئین کے دائرے کے اندر ہو اور پارلیمان کے ذریعے ہو۔ مثال کے طور پر انتخابی اصلاحات کے لیے دو برس قبل31رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، مگر کسی بھی اپوزیشن جماعت نے اس کمیٹی کو فعال بنانے میں سنجیدگی کے ساتھ حصہ نہیں لیا۔ آج کسی کو نہیں معلوم کہ اس سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔
سول سوسائٹی کی جانب سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ کمیٹی اگر لگ کر کام کرے اور اس کی تجاویز پارلیمان سے منظور ہوکر نافذ ہوجائیں ، تو2018کے انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کے علاوہ غیر جانبداراور بااختیار الیکشن کمیشن کی تشکیل ممکن ہوسکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں انتخابات میں دھاندلیوں پر کنٹرول کیا جاسکے گا، مگر شاید یہ سیاسی جماعتوں کی ترجیح نہیں ہے۔
اسی طرح سول سوسائٹی کی تنظیمیں مسلسل یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ پارلیمان کم از کم کچھ عرصہ (کم از کم25 برس) کے لیے متناسب نمایندگی کا نظام رائج کردے، تو گورننس کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کا یہ بہانہ ختم ہوجائے گا کہ انھیں مجبوراً Electable کو ٹکٹ دینا پڑتے ہیں۔ اس طریقہ کار کے ذریعے Alterableکے جھنجھٹ سے جان چھڑائی جا سکتی ہے جو سیاسی اور انتظامی ڈھانچے میں Status quoکا باعث بنے ہوئے ہیں۔
یہ نظام خصوصی نشستوں کے لیے اس وقت بھی جاری ہے جسے عام نشستوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے صرف ایک آئینی ترمیم درکار ہے۔ بشرطیکہ تمام جماعتیں سیاسی عزم(Political will)کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس عمل کو قبول کرلیں۔ نیپال کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں نئے آئین میں متناسب نمایندگی کے تصور کو شامل کرنے کے نتیجے میں ملک کے تمام چھوٹے بڑے طبقات کی نمایندگی ممکن ہوسکی ہے۔
پانامہ لیکس ہوں یا دیگر ذرایع سے ہونے والی کرپشن ہو، اچھی حکمرانی کے ذریعے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ جدید دنیا میں اچھی حکمرانی کی جو چند خصوصیات بیان کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک بھی ہمارے یہاں موجود نہیں ہے ۔ اس کا سبب حکمران اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) کی بد نیتی ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک سیاسی، انتظامی اور مالیاتی منتقلی میں سیاسی جماعتوں میں موجود فیوڈل مائنڈ سیٹ رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ شفافیت اور کھلے احتساب کی راہ میں Electable رکاوٹ ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ، تجارتی پالیسیوں کے فروغ اور ترقیاتی فنڈ کی راہ میں قومی سلامتی کے مسائل حائل ہورہے ہیں۔
احتجاج اپوزیشن کا جمہوری حق ضرور ہوتا ہے، لیکن پاکستان جیسے معاشروں میں اس قسم کے احتجاج نے جمہوریت کی بساط کو لپیٹنے کا کام کیا ہے۔ لہٰذا یہ محسوس ہو رہاہے کہ جس انداز میں آج سے 40برس قبل جو کھیل بھٹو مرحوم کے خلاف کھیلا گیا تھا، کم وبیش ویسا ہی کھیل میاں نواز شریف کے خلاف کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اُس کھیل کے کمان دار ائیر مارشل(ریٹائرڈ) اصغر خان تھے،اِس کھیل کے عمران خان ہیں۔
یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس کھیل میں ائیر مارشل کے ہاتھ کچھ نہ آیا تھا۔ اغلب امکان یہی ہے کہ اس مرتبہ کھیلے جانے والے کھیل میں کپتان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آنے والا۔ یہ بات اگر سمجھ میں آجائے تو سیاست انتقامی طرز عمل سے نکل کر حقیقی انداز میں کڑے اورکھرے احتساب کی طرف بڑھ سکتی ہے۔