دنیا کی نئی تفہیم
شام، عراق، لیبیا، افریقہ، پاکستان اور افغانستان میں انسانی خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے
انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے کرہ ارض پر انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اشرف المخلوقات کی ساری تاریخ جہل، وحشت وبربریت کی تاریخ ہے۔ تاریخ کا ہر صفحہ انسان کے ہاتھوں، انسان کے خون سے رنگا ہوا ہے۔ کبھی ملک وملت کے نام پر انسان، انسان کا خون بہاتا رہا،کبھی رنگ نسل اور زبان کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹتا رہا، کبھی دھرم کے نام پر انسانوں کا خون پانی کی طرح بہاتا رہا۔ کبھی ملک گیری کی وحشیانہ خواہش کی خاطر انسانی لاشوں کے مینار بناتا رہا۔
ماضی میں چونکہ تلواروں، نیزوں، خنجروں سے جنگیں لڑی جاتی تھیں سو زیادہ سے زیادہ انسانوں کو قتل کرنے والا اور لاشوں کے ڈھیر لگانے والا سب سے زیادہ بہادر مانا جاتا تھا۔ حربی ترقی کے ساتھ جب تلواروں کی جگہ جدید تباہ کن ہتھیاروں ، جنگی جہازوں، ٹینکوں، میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں نے لے لی تو جنگی میدانوں میں دشمن کے ٹھکانوں پر بمباری کا ہولناک سلسلہ شروع ہوا لاکھوں انسان مکھی مچھروں کی طرح ماردیے گئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
شام، عراق، لیبیا، افریقہ، پاکستان اور افغانستان میں انسانی خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ کشمیر اور فلسطین انسان کے ہاتھوں انسان کے خون سے لالہ زار ہیں ہر طرف تعصبات ،نفرتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ سیاستدان اور حکمران ان وحشیانہ فلموں کے ہیرو بنے ہوئے ہیں۔
اشرف المخلوقات کی اس وحشت و بربریت کو دیکھ کر آفاقی وژن رکھنے والے اہل علم اہل فکر اہل دانش بے چین اور مضطرب ہیں اور اس بربریت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں لیکن ان کی آواز جنگ و جدل وحشت و بربریت کے نقار خانوں میں طوطی کی آواز بنی ہوئی ہے۔ انسانوں کے دشمن انسان نما حیوانوں کے ہاتھوں میں اختیارواقتدار مرکوز ہے اور یہ انسان نما حیوان ہرجگہ انسانی تاریخ کو خون کا غسل دیتے نظر آرہے ہیں۔ انسان اور انسانیت کا بھلا چاہنے والے حیرت سے اس خونی منظرنامے کو دیکھ رہے ہیں لیکن ان کی آواز صدا بہ صحرا بنی ہوئی ہے۔
دانشور، مفکر، فلسفی ملک و ملت دین و دھرم کے حصار میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ لوگوں اور ملکوں کی رہنمائی ایسے کم ظرفوں تنگ نظروں اور تعلیم یافتہ جاہلوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے جن کے ذہن سرمایہ دارانہ فلسفہ قومی مفاد کے زہر سے آلودہ ہیں۔ دنیا کے مسائل دنیا کے تنازعات حل کرنے کی ذمے دار اقوام متحدہ بڑی طاقتوں کی رکھیل بنی ہوئی ہے اور وہ وہی کچھ کر رہی ہے جو سامراجی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
پسماندہ ملکوں میں جمہوریت کے نام پر ایلیٹ کی لوٹ مار کا بازار گرم ہے قانون اور انصاف کے ادارے حکمرانوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں رنگ نسل زبان ملک و ملت دین دھرم کے حوالے سے انسانوں کی تقسیم ہوسکتا ہے۔
انسانوں کی شناخت کے لیے ضروری ہو لیکن اس تقسیم کو تعصبات نفرتوں عداوتوں دشمنیوں کا وسیلہ بنالیا گیا ہے اور یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ انسان ابھی تک ماضی کے غیر منطقی عقائد ونظریات کے حصار میں قید ہے اور کرہ ارض کو جس کی حیثیت کائنات کی لامحدود اور تصور سے پرے وسعتوں میں ایک ایٹمی ذرے سے بھی ہزارگنا چھوٹی ہے کل کائنات سمجھ بیٹھا ہے اور ہزاروں سالوں سے اسی تصور کے ساتھ زندگی کی تفہیم کر رہا ہے۔
اب دنیا وہ نہیں رہی جو دو تین ہزار سال پہلے تھی اب دنیا وہ نہیں رہی جس میں سورج زمین کے گرد گھومتا ہے اب دنیا وہ نہیں رہی جس میں چاند پر ایک بڑھیا چرخہ کاتتی تھی، اب دنیا وہ نہیں رہی جو گائے کے سینگ پر کھڑی رہتی تھی۔ اب دنیا کا انسان چاند پر ہوکر آیا ہے اب دنیا کا انسان مریخ پر جانے کی تیاری کر رہا ہے اب انسان وہ نہیں رہا جو بیماریوں کو سزا اور آزمائش سمجھ کر سر جھکادیتا تھا اب دل، جگر،گردے تک بدلے جا رہے ہیں اور ہر انسانی عضوکا متبادل تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اب دنیا کے مسائل نہ بڑی طاقتیں حل کرسکتی ہیں نہ اقوام متحدہ حل کرسکتی ہے نہ سیاستدان حل کرسکتے ہیں اب دنیا کے مسائل دنیا کے انسانوں کے ذہنوں میں بھرے ہوئے عقائد و نظریات کو آفاقی وژن رکھنے والے اہل فکر اہل علم اہل دانش سائنسدان کرہ ارض کے ماہرین، ماہرین فلکیات ہی ذہنوں سے نکال سکتے ہیں۔ اب دنیا کو ایک نئے اور حقیقت پسندانہ عقائد و نظریات کی ضرورت ہے اب دنیا کو ہزاروں سال پرانے ازکار رفتہ غیر منطقی عقائد و نظریات کی جگہ منطقی اور تحقیقی عقائد و نظریات کی ضرورت ہے اب دنیا کو نفرتوں کی جگہ محبت و رواداری، بھائی چارے اور برداشت کی ضرورت ہے۔
اب ضرورت ہے کہ جدید علوم سائنس و ٹیکنالوجی اور کائناتی علوم کی روشنی میں ہزاروں سال پرانے عقائد ونظریات کی ایک نئی منطقی اور انسانوں میں بھائی چارہ محبت کو اجاگر کرنے والی تفہیم کی جائے۔ کرہ ارض پر بسنے والے 7 ارب انسانوں کے حال اور مستقبل کو جدید علوم سے سنوارا سجایا جائے، نفرتوں عداوتوں کی جگہ محبت اور بھائی چارے کی فضا کو مستحکم کیا جائے۔ جنگوں جدید ہتھیاروں کے کلچر کو ختم کرکے کرہ ارض کو امن اور محبت کا گہوارہ بنایا جائے۔ دنیا کی لگام سیاسی بھیڑیوں کے ہاتھوں سے چھین کر اہل علم اہل دانش اہل قلم اہل فکر اور آفاقی وژن رکھنے والے مدبرین کے ہاتھوں میں دی جائے۔
یہ کام بڑا کٹھن ہے کیونکہ دولت کے پجاری سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے اپنے تمام تر وسائل و اختیارات کے ساتھ دنیا کی نئی تفہیم کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کو سیاسی ترقی کی معراج بتا کر عام سادہ لوح غریب انسانوں کو آگے لائیں گے اور سائنسی فکر اورجدید علوم کو دین دھرم کے دشمن بتا کر عوام کو دنیا اور ہزاروں سال پرانے عقائد و نظریات سے چمٹے رہنے کے لیے ترغیب فراہم کریں گے اور اس ''کارخیر'' میں میڈیا کو استعمال کریں گے۔