کیا بحران ٹل سکے گا

اصولی طور پر تو پانامہ لیکس کا معاملہ سیاسی فریقین کے درمیان اتفاق رائے سے سامنے آنا چاہیے تھا


سلمان عابد November 03, 2016
[email protected]

اصولی طور پر تو پانامہ لیکس کا معاملہ سیاسی فریقین کے درمیان اتفاق رائے سے سامنے آنا چاہیے تھا، لیکن سیاسی بداعتمادی اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست کی فضا میں ایسا ممکن نہ ہوسکا۔اب جو فیصلہ پانامہ کے مسئلہ پر عدالتی کمیشن کی تشکیل کا سامنے آیا وہ اعلی عدلیہ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

اہم پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے جانب سے کمیشن کے قیام پر تمام فریقین سے تحریری یقین دہانی حاصل کرلی گئی ہے کہ وہ کمیشن کے فیصلے کو من و عن تسلیم کریں گے۔ پانامہ لیکس کی تحقیقات کا معاملہ عدلیہ کے کندھے پر آ گیا ہے۔ اب سب کی نظریں عدلیہ پر لگی ہونگی اور دیکھنا ہوگا کہ عدلیہ کے اس کردار کی وجہ سے بحران ختم ہوتا ہے یا بحران کسی نئی شکل میں سامنے آتا ہے۔

سپریم کورٹ کے اس اقدام سے ملک ایک بڑے انتشار اور تصادم کی سیاست سے وقتی طور پر بچ گیا ہے۔ کیونکہ جو سیاسی تناؤ بڑھ رہا تھا اور جس انداز سے حکومت نے طاقت کی بنیاد پر اپنے مخالفین سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اس سے ملکی سیاست ایک بڑے تصادم کی طرف بڑھتی اور اس سے حکومت سمیت جمہوری نظام بھی متاثر ہوسکتا تھا۔

عدلیہ کو بھی اندازہ ہے اس وقت پانامہ کا معاملہ ایک پاپولر سیاست کا حصہ بن گیا ہے اور لوگ اس پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ عدلیہ اب اس معاملے میں بڑے پرجوش انداز سے سامنے آئی ہے ۔اس عدالتی کمیشن کے قیام کے فیصلہ کو ہمیں کسی بھی صورت کسی کی ہار اور جیت کے تناظر میں سیاسی بحث کا حصہ نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اگر اس بحث کو اس تناظر میں سیاسی فریقین آگے بڑھاتے ہیں تو یہ سیاسی محاذ پر اور زیادہ تلخی پیدا کرنے کا سبب بنے گا، جو کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کے فیصلہ پر دو نومبر کا دھرنا یا لاک ڈاون کرنے کا فیصلہ واپس لے کر زیرکی کا ثبوت دیا ہے۔پانامہ لیکس پر عدالتی کمیشن کی تشکیل پر دھرنے کا جواز ختم ہوگیا تھا۔

اگر عمران خان دھرنے پر بضد رہتے تو یہ ان کی سیاسی ہٹ دھڑمی سے جوڑا جاتا اور جو لوگ عمران خان کے اس فیصلہ کویوٹرن سے تعبیر کررہے ہیں وہ دھرناکے فیصلہ کو برقرار رکھنے پر بھی تنقید کرتے۔عمران خان کا یہ ہی بنیادی مطالبہ تھا کہ یا حکمران تلاشی دیں یا مستعفی ہوں۔

اب جب کہ عدالت نے عملا تلاشی یا تحقیقات کا عمل اپنے ہاتھوںمیں لے لیا تو ایک سطح پر عمران خان کے مطالبہ کو تسلیم کیا جانا بھی ہے ۔اس کمیشن کی تشکیل ایک سطح پر عمران خان کی مزاحمت ہی کی صورت میں ممکن ہوئی ہے ۔ کیونکہ ان سات ماہ میں کمیشن کی تشکیل یا پانامہ کے مسئلہ پر اداروں کی طرف سے کچھ نہ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے عمران خان کی دباؤ کی سیاست نے عدالتی کمیشن کے قیام کو ممکن بنایا ۔جب کہ اس کے برعکس دیگر جماعتوں کا رویہ محض لفاظی کی سیاست تک ہی محدود رہا۔

اچھی بات یہ ہوئی کہ عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ یہ معاملہ حساس بھی ہے او راس کی بڑی اہمیت بھی ہے اور بادی النظر میں یہ معاملہ عوامی ہے اس لیے اس اہم مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوسکتی ہے ۔واقعی لوگ نہ صرف انصاف چاہتے ہیں، بلکہ فوری انصاف بھی ان کا مطالبہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پانامہ کے معاملے میں نہ صرف تاخیری حربے اختیار نہ کیے جائیں بلکہ لوگوں کو انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے۔

عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے میں ریاستی اداروں نیب ، ایف آئی اے اور ایف بی آر کی جانب سے کچھ نہ کرنے کے فیصلہ یا اپنا قانونی کام نہ کرکے خود ان اداروں نے بھی اپنے غیر سنجیدہ طرز عمل سے بحران کو پیدا کیا۔ جب حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی ادارے انصاف کی طرف اپنے قدم آگے نہیں بڑھاتے یا رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں تو سیاسی ڈیڈ لاک کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے۔ یہ معاملہ محض ڈیڈلاک کا ہی شکار نہیں ہوتا بلکہ یہ اداروں کی ساکھ کو بھی متاثر کرتا ہے۔

سپریم کورٹ نے فریقین سے فوری طور پر عدالتی کمیشن کے قیام کے لیے ضوابط کار یا ٹرم آف ریفرنس پر ان کی تجاویز طلب کی ہیں ۔ اگرچہ اس سے قبل حکومت اور حزب اختلاف نے اپنی اپنی سطح پر ٹرم آف ریفرنس تیار کیے تھے ۔لیکن دونوں جانب سے ایک دوسرے کے نکات پر اتفاق رائے نہ ہونے سے یہ معاملہ ڈیڈ لاک کا شکار ہوگیا تھا۔

اب دیکھنا ہوگا کہ فریقین جو ضوابط کار یا تجاویز دیں گے ان میں سیاسی طور پر اتفاق ہوسکے گا۔ کیونکہ اگر فریقین میں اتفاق رائے نہ ہوا تو عدالتی کمیشن کے ضوابط کار خود عدلیہ طے کرے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا سیاسی فریقین ان ضوابط کو من و عن قبول کرلیں گے، یا وہ اپنے طے کردہ نکات پر ہی زور دیں گے۔ اس لیے اس عدالتی کمیشن کی پہلی کامیابی ٹرم آف ریفرنس پر متفقہ فیصلے اور ٹائم فرئم ورک سے جڑی ہے، وگرنہ یہ معاملہ لٹک بھی سکتا ہے۔

اگرچہ وقتی طور پر یہ بحران تو ٹل گیا ہے ، لیکن دیانت داری سے یہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ پچھلے سات ماہ سے پانامہ کے معاملے پر جو کھیل حکومت نے کھیلا وہی بحران کا سبب بھی بنا تھا۔ اگرچہ ابتدا ہی میں حکومت کھلے دل سے پانامہ کے معاملے میں عدالتی کمیشن اور ٹرم آف ریفرنس پر حزب اختلاف کو اعتماد میں لے کر متفقہ اتفاق رائے سامنے لے آتی تو یہ بحران پیدا ہی نہیں ہوتا۔

بنیادی طور پر حکومت نے جان بوجھ کر پانامہ کے معاملے میں تاخیری حربے یا ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کیے رکھی ، جس نے تحریک انصاف سمیت حزب اختلاف کو حکومت کے خلاف سیاست کرنے کا موقع فراہم کیا ۔اب بھی اگر تحریک انصاف سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتیں پانامہ کے معاملے پر حکومت پر سیاسی دباو نہ ڈالتیں تو آج یہ معاملہ کورٹ میں بھی داخل نہیں ہوتا۔

اگرچہ عدالتی کمیشن بننے کا معاملہ سامنے آگیا ہے ، لیکن اس سے فوری طور پر یہ سمجھنا کہ اس سے جو بحران ہے وہ فوری طور پر ختم ہوگیا ہے، ممکن نہیں۔ ایک مسئلہ حکومت اور ان کی حامی جماعتیں جو عمران خان کے دھرنے کو پس پردہ قوتوں کی حمایت سے جو ڑرہے تھے وہ بھی غلط ثابت ہوا۔ ہمارے یہاں یہ ایک سیاسی فیشن بن گیا ہے کہ حکومت اپنے خلاف ہر اقدام کو اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ جوڑ کر دیکھتی ہے ، جو اچھی روایت نہیں ۔ کیونکہ اس عمل سے بلاوجہ اداروں کے درمیان بداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔

الزام تراشیوں کی سیاست کے ماحول میں فریقین افہام و تفہیم کی سیاست کریں گے، ممکن نہیں۔ اگر عدالتی کمیشن کے معاملے میں تاخیر ہوتی ہے اور ایسا لگا کہ یہ معاملہ بھی لٹک گیا ہے تو عمران خان ایک بار پھر اس قانونی لڑائی کو سیاسی میدان یا سڑکوں پر لاکر دوبارہ وزیر اعظم اور حکومت کے خلاف دھرنا دے سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں