اب بس کرو
اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ عمران خان سب سے پہلے اپنے گھر کی خبر لیں
پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کے بعد سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے کوئی اعلیٰ پائے کا سیاستدان نہیں ابھر سکا۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی کہ جمہوریت اور سیاست کو ملک میں پنپنے کا موقع ہی نہیں مل سکا ملک کے 69 سالوں میں آدھی مدت آمروں کا دور دورہ رہا پھر جو آدھی مدت جمہوری دور رہا وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر رہا جس سے وہ بھی آمرانہ دور جیسا ہی رہا۔ ایسے ماحول میں ابھرنے والے سیاستداں جمہوریت کی روح کے مطابق کھل کر سیاست نہ کرسکے۔
شہید بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اگرچہ عوامی لیڈر ثابت ہوئے اور جمہوریت کی شناخت بھی بنے مگر ان کی حکومتیں بھی اسٹیبلشمنٹ سے دوری اختیار نہ کرسکیں اور اپنی مقررہ مدت بھی پوری نہ کر سکیں۔ ملک میں جتنے بھی مارشل لا لگے ان کے لگانے میں ہمارے سیاستدانوں کا بھی کردار رہا ہے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کو بابائے جمہوریت ضرور کہا جاتا ہے مگر انھوں نے ہی نواز شریف کی دوسری حکومت کو گرانے کے لیے پرویز مشرف سے مدد مانگی تھی اور پھر مارشل لا لگنے میں دیر نہیں لگی تھی۔
اسی طرح اس سے پہلے جمہوریت پر کامل یقین رکھنے والے پروفیسر غفور احمد، اصغر خان اور مفتی محمود کی درخواست پر ضیا الحق کا مارشل لا نافذ ہوا تھا۔ نہ جانے کیوں ہمارے سیاستداں اپنی حکومت کے سوا دوسرے سیاستداں کی حکومت کو برداشت ہی نہیں کرپاتے اسے گرانے کے لیے پہلے دن سے ہی نت نئی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیتے ہیں پھر بالآخر فوج کو مداخلت کی دعوت دے دیتے ہیں۔ اب اس وقت بھی موجودہ حکومت کے لیے بد سے بدتر حالات بنائے جا رہے ہیں۔
ملک کی ایک سیاسی پارٹی حکومت پر شب خون مارنے کی مسلسل مہم جوئی کر رہی ہے اور ساتھ ہی امپائر کی انگلی کھڑی کرانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ گزشتہ سال چار ماہ تک دارالحکومت اسلام آباد میں اسی پارٹی کی طرف سے دھرنا دیا گیا عین پارلیمنٹ کے سامنے ہلہ گلہ، ناچ گانے اور فلک شگاف تقاریر ہوتی رہیں پھر نوبت پارلیمنٹ کے مین گیٹ کے توڑنے اور سرکاری ٹی وی اسٹیشن کو درہم برہم کرنے تک پہنچ گئی۔ تمام سرکاری سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئیں یہ سب کچھ ہوتا رہا اور حکومت وقت سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھتی رہی مگر اسے روکنے کے لیے کچھ نہ کر سکی۔ اس سے پہلے ایسی کمزور حکومت ملک میں دیکھنے میں آئی اور نہ ہی ایسی جارح سیاسی پارٹی۔
ہوسکتا ہے حکومت اپنی شرافت کا مظاہرہ کررہی ہو مگر ایسی شرافت بھی کس کام کی جس سے ملک کا نظام ہی ٹھپ ہوکر رہ جائے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے درست ہی کہا ہے کہ نواز شریف کو حکومت کرنا اور عمران خان کو سیاست کرنا نہیں آتی۔ جہاں تک خان صاحب کا تعلق ہے انھوں نے سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھ لیا ہے وہ چھکا لگا کر بال باؤنڈری سے باہر پھینکنے کی طرح حکومت کو بھی اقتدار سے باہر پھینکنا چاہتے ہیں کسی جمہوری ملک میں کسی منتخب حکومت کو دھکا دیکر اقتدار سے ہٹا کر کوئی اقتدار حاصل نہیں کرسکتا ہاں ایسا پہلے بادشاہوں کے دور میں ضرور ہوتا تھا مگر جمہوری دور میں تبدیلی صرف ووٹ کے ذریعے ہی آسکتی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت تو پہلے ہی تماشا بنی ہوئی تھی اب سیاستداں بھی تماشا بن چکے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں دھرنے کا پاکستان جیسا ریکارڈ کہیں نظر نہیں آتا حالانکہ دنیا میں ہم سے کئی درجہ بہتر جمہوری ملک موجود ہیں اور دور کیا جائیے ہمارے پڑوس میں ہی دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک موجود ہے وہاں کسی سیاستداں نے ہمارے ہاں جیسا طویل دھرنا دینے کی ہمت نہیں کی۔ پاکستانی سیاستداں بھی خوب ہیں ایک طرف ملک پر جان نچھاور کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری طرف ملک کو مشکل میں ڈالنے سے بھی نہیں کتراتے۔
جہاں تک کرپشن کی بات ہے تو یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ایسا کون سا سیاستداں ہے جو کرپشن کے الزامات سے بری الذمہ ہو، کرپشن ملک کی رگ رگ میں سرائیت کرچکی ہے جس کا کبھی حکومت نے علاج نہیں سوچا البتہ انسداد کرپشن کے محکمے ضرور بنتے اور بگڑتے رہے ہیں۔ انھیں بھی آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
بعض سیاستداں تو احتساب کے ادارے کو ہی ختم کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ اسے صرف حکومت کے مخالفین کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تو کچھ کا کہنا ہے کہ یہ خود کرپٹ ہے تو یہ ملک سے کیا کرپشن ختم کرسکے گا۔ یہ انتہائی خوش کن بات ہے کہ عمران خان کی پارٹی نے ملک کرپشن کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا ہے مگر افسوس کہ چراغ تلے اندھیرا دیکھنے میں آرہا ہے خود ان کی پارٹی کے فنڈز کے خرد برد کی خبریں گشت کر رہی ہیں۔ ان کے اپنے صوبے کے پی کے سے بھی کرپشن کی خبریں آ رہی ہیں کئی وزارتوں کی جانب سے وزیر اعلیٰ پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ عمران خان سب سے پہلے اپنے گھر کی خبر لیں۔ انھوں نے اپنے صوبے میں تبدیلی لانے کے نام پر عوام سے ووٹ مانگے تھے مگر خان صاحب تو اپنا سارا وقت وفاقی حکومت کو گرانے میں صرف کر رہے ہیں اور اسی تگ و دو میں اب تین سال صرف ہوچکے ہیں اب 2018ء کے انتخابات میں مشکل سے دو سال باقی بچے ہیں اور لگتا ہے وہ یہ وقت بھی دھرنوں اور احتجاجوں میں صرف کردیں گے اس لیے کہ شیخ رشید بھی ان کی پارٹی کے ذریعے اپنی انتقامی سیاست کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس وقت ملک کی تمام ہی سیاسی پارٹیاں وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے احتجاجی سیاست کے بجائے اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئی ہیں۔
خان صاحب کو بھی چاہیے کہ اب وہ اپنے صوبے پر توجہ دیں اسے ایک ماڈل صوبہ بنائیں تاکہ آگے کے لیے راستہ ہموار ہو سکے ورنہ صوبے کی دوسری پارٹیاں کہیں پھر نہ اپنا کھویا ہوا اقتدار بحال کرانے میں کامیاب نہ ہوجائیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آخر صرف ایک ہی سیاسی پارٹی کیوں کرپشن کے خلاف حکومت کو ٹف ٹائم دینے پر آمادہ ہوگئی ہے۔
نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما اسفند یار ولی کا کہنا ہے کہ پانامہ لیکس میں ایک نہیں ملک کے سیکڑوں مالدار خاندان ملوث ہیں۔ خود کپتان بھی آف شور کمپنی کے مالک رہے ہیں بلکہ انھوں نے ہی ملک میں سب سے پہلے اس رسم کی ابتدا کی تھی مگر وہ سب کو اور خود کو چھوڑ کر صرف ایک خاندان کو نشانہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں پھر اس مسئلے پر دوسری سیاسی پارٹیوں سے ہٹ کر افہام و تفہیم کا راستہ چھوڑ کر احتجاجی سیاست پر اتر آئے ہیں۔
خورشید شاہ بار بار پی ٹی آئی کو کہہ چکے ہیں کہ تشدد کی سیاست سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید الجھیں گے بہتر یہی ہے کہ اب سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے مقدمے کے شروع ہونے کے بعد اس کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ اس وقت ملک حالت جنگ میں ہے دشمن ملک پر حملہ کرنے کے لیے موقع کے انتظار میں ہے۔ ملک میں پرتشدد حالات پیدا کرکے دنیا کی نظریں کشمیریوں کی آزادی کے لیے جاری تحریک سے ہٹانے کی غلطی نہ کی جائے۔
گزشتہ دھرنے کی وجہ سے سی پیک منصوبہ پہلے ہی لیٹ ہوچکا ہے۔ یہ منصوبہ یقینا ملک کے لیے نعمت سے کم نہیں ہے اسے کامیاب بنانا ہم سب کا فرض ہے لیکن اگر ملک میں مزید ہنگامہ آرائی جاری رہتی ہے تو کہیں چینی حکومت بیزار ہوکر اس سے اپنا ہاتھ ہی نہ کھینچ لے۔ سیاستدانوں کی باہمی چپقلش سے پہلے ہی ملک کا بہت نقصان ہوچکا ہے اب پھر حالات اسی ڈگر پر لے جانا ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالات کو خراب کرنے میں خود حکومت کا بھی ہاتھ ہے آخر اس نے حالات کو سڑکوں اور دھرنوں تک جانے ہی کیوں دیا اگر وہ شروع میں ہی حزب اختلاف کے مطالبات کے مطابق پانامہ لیکس کے سلسلے میں اپنی صفائی پیش کر دیتی تو یہ مسئلہ کبھی کا حل ہوچکا ہوتا اور پھر کسی کو بھی حکومت سے محاذ آرائی کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بہرحال عوام اب تنگ آکر حکومت اور عمران خان سے درخواست کر رہے ہیں کہ ان کی مصیبتوں میں مزید اضافہ نہ کریں اور اب بس کریں۔