بے سر لوگ

سیاست میں بھی ایک ’’انقلاب عظیم‘‘ برپا ہو گیا عام انقلابات تو تقریباً روزانہ بلکہ صبح دوپہر شام آتے رہتے ہیں

barq@email.com

ایک زمانہ تھا جو بڑے بوڑھوں کو یاد ہو گا، نوجوانوں نے سنا ہو گا اور بچوں کو سرے سے معلوم ہی نہیں ہو گا کہ سیاسی پارٹیوں کے منشور اور نظریئے بھی ہوا کرتے تھے، پہلے یہ منشور اور نظریئے پیدا ہو جاتے تھے پارٹیاں بعد میں بن جاتی تھیں لیکن بقول آتش

زمانہ رنگ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مو کرتے

چنانچہ سیاست میں بھی ایک ''انقلاب عظیم'' برپا ہو گیا عام انقلابات تو تقریباً روزانہ بلکہ صبح دوپہر شام آتے رہتے ہیں مثلاً مسلم لیگ اب تک کوئی ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک اعشاریہ ایک ''سبز انقلاب'' لا چکی ہیں، مسلم لیگ کی رنر اپ پی پی کی پپیا بھی کافی سارے انقلابات برپا کر چکی ہے اور اب ماشاء اللہ پی ٹی آئی نے بھی ''رنگارنگ'' انقلابات لانے کی انڈسٹری کھولی ہوئی ہے جس میں آدھے شیئر جناب علامہ طاہر القادری اور شیخ رشید کے بھی ہیں، لیکن وہ ایک ''انقلاب عظیم'' تھا جو آیا اور منشور نظریئے پروگرام وغیرہ کو بہا کر بحیرہ عرب میں ڈبو گیا، باقی صرف پارٹیاں رہ گئیں جنہوں نے منشورات و نظریات کی جگہ ''مزاروں'' کا سہارا لے لیا اور یہ بہت ہی کامیاب زرخیز اور خرخیز طریقہ ثابت ہوا۔

کون نظریات و منشورات کے پیچھے خوار ہوتا پھرے بس ایک مزار کو پکڑ کر بیٹھ گئے اور وارے نیارے ہو گئے۔ کچھ پارٹیوں کو تو یہ نیا سلسلہ اتنا اچھا اور فائدہ مند لگا کہ ایک کی جگہ دو دو تین تین مزارات کے جملہ حقوق حاصل کر لیے۔ پی ٹی آئی کے پاس حاضر اسٹاک میں کوئی ریڈی میڈ مزار دستیاب نہیں تھا۔

ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گزر
ابھی یہ لوگ مقام نظر سے گزرے ہیں

اور ضرورت شدید تھی اس لیے اس نے فوراً نہایت تیزی سے دو مزارات لانچ کر دیے، ایک تبدیلی کا مزار شریف جو بمقام کے پی کے مجمع خلائق ہے اور دوسرا نیا پاکستان کا مزار جو بنی گالہ میں اچھا خاصا رش فل جا رہا ہے، اس سلسلے میں اگر کوئی پارٹی حد درجہ سست الوجود واقع ہوئی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے کہ اتنی بڑی پارٹی اور لائق و فائق لیڈروں اور متعدد اور مخلص کارکنوں کے باوجود ابھی تک اس اولڈ فیشن یعنی نظریہ اور منشور سے چمٹی ہوئی ہے۔

دراصل اس پارٹی کے طریقہ انتخاب وغیرہ کا سلسلہ کچھ ایسا ہے کہ نہ تو اس میں ''تاحیات'' کوئی بزرگ ہستی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ بعد از مرگ مزار بننے کی صلاحیت رکھتی ہے چنانچہ اس نئی ایٹمی بلکہ ''مزارتی'' جنگ میں انھی پرانے ہتھیاروں سے اترتی ہے اور منہ کی کھاتی ہے، جماعت اسلامی والے گانا گانے میں بھی نالائق ہیں ورنہ ہم ان کو گانے کے لیے یہ مکھڑا دے دیتے کہ

سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہوشیاری...یا مزاری
سچ ہے دنیا والو کہ ہم ہیں اناڑی

ورنہ ایک دو عدد مزارات لانچ کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ کہتے ہیں ایک شخص اپنے وطن سے روزگار کے سلسلے میں پردیس چلا گیا، بے چارے کو کسی طرح بھی کوئی روزگار یا مزدوری نہیں ملی یہاں تک کہ جو اندوختہ ساتھ لے گیا تھا وہ بھی ختم ہو گیا اور فاقے کی نوبت آگئی۔

ایک دن اتفاق سے اس کا گزر ایک مزار شریف سے ہوا جہاں وسیع پیمانے پر لنگر شریف چل رہا تھا اس نے بھی اس خوان لغبما سے فائدہ اٹھا لیا، شکم سیر ہونے کے بعد دماغ نے بھی کام شروع کر دیا تو سوچنے لگا کہ جا ایں جاست... پڑا رہا لیکن آدمی محنتی تھا لنگر اور مزار شریف میں کچھ نہ کچھ کام بھی کرنے لگا، آخر سینئر مجاور کی نظروں میں آگیا اور یوں آہستہ آہستہ سینئر مجاور کے معتمد خاص کے عہدے پر پہنچا، کافی عرصے بعد وطن کی یاد آئی تو پیر صاحب پر اپنا عندیہ ظاہر کر دیا، پیر صاحب نے نہ صرف اسے کچھ نقدی سے نوازا بلکہ اپنی خاص الخاص گھوڑی بھی مرحمت فرما دی کہ خیر نال جا تے خیر نال آ، اتفاق سے وہ گھوڑی آدھا سفر طے کرنے کے بعد مر گئی۔


پیر صاحب مبارک کی گھوڑی شریف تھی چنانچہ اس نے کسی نہ کسی طرح قبر کھود کر اسے دفن کیا اور ایک خوب صورت قبر بھی اوپر بنا دی، آس پاس کی جھاڑیوں سے کچھ پھول وغیرہ بھی توڑ کر ڈال دیے، اتنا کام اکیلے کر کے تھک گیا تھا اس لیے وہیں مزار کے پاس سو گیا، کافی دیر بعد اٹھا تو راستے سے گزرنے والوں نے اچھے خاصے سکے بھی اس کے پاس ڈال دیے تھے دماغ میں پھلجھڑی چھوٹی کہ

تو بھی یہاں میں بھی یہاں
تیرے سوا اب ہمیں جانا کہاں

کچھ ہی عرصے میں وہاں ایک کافی رش فل مزار ابھر آیا، گنبد تعمیر ہوا، مسجد اور دوسرے سارے لوازمات بھی پورے ہو گئے، ادھر سینئر مجاور کو تشویش ہوئی کہ بندہ کافی دیر لگا گیا، خیریت دریافت کرنی چاہیے، راستہ اور پتہ تو اتنے عرصے میں معلوم ہو چکا تھا چنانچہ مرید کی تلاش میں چل پڑا۔ راستے میں یہ نیا مزار مجمع خلائق دیکھا تو مڑ گیا، کیا دیکھتا ہے کہ اس کا مرید خاص سجادہ نشین کی صورت میں بیٹھا ہے، مرید نے بھی پیر کو دیکھ کر آؤ بھگت کی، پیر صاحب نے اس کایا کلپ کا ماجرا پوچھا تو مرید نے سچ سچ بتا دیا۔

پیر صاحب مسکرا کر بولے... یہ نسل ہی بڑی مبارک ہے جس مزار پر میں بیٹھا ہوں وہ اس کی ماں کا مزار ہے۔ لیکن جماعت اسلامی میں اتنی لیاقت تو تھی نہیں صرف لیاقت بلوچ تھے، اس لیے ایسا کچھ انقلابی قدم اٹھا نہیں سکی اور بدستور نظریئے اور منشور الاپتی رہی، اب کے یہ جو بڑے بڑے جلسوں کا سلسلہ قوت دکھانے کے لیے چل پڑا تو جماعت اسلامی نے بھی بمقام اضاخیل نوشہرہ اپنی قوت کا مظاہرہ خوب خوب کیا جو اس لحاظ سے منفرد تھا کہ دیہاڑی دار کارکنوں کے بجائے اصلی کارکنوں پر مشتمل تھا، تعداد بھی اچھی خاصی متاثر کن تھی چونکہ پارٹی میں تنظیم بھی بہت اعلیٰ درجے کی ہے اس لیے اچھا خاصا منظم مظاہرہ تھا... لیکن ... برا ہو اس ''لیکن''کا جو اچھے خاصے چلتے ہوئے معاملے کو بگاڑ دیتا ہے۔

ہمارا خیال تھا کہ اتنا کچھ ہونے، اتنے بڑے انقلاب کے بعد اس نے کچھ ہوش کے ناخن لیے ہوں گے اور اس کم بخت نظریئے اور منشور کا پیچھا چھوڑ کر ''راہ راست'' پر آئی ہو گی لیکن توبہ کرو جی، کبھی ''بری عادتیں'' بھی چھوٹی ہیں۔ رحمان بابا نے بھی کہا ہے کہ ''علت'' چھوٹ جاتی ہے لیکن عادت ، نو، نیور، ناممکن، اسمبھؤ، لایمکن... بقول رحمان بابا

لکہ ونہ مستقیم پہ خپل مقام یم
کہ خزان را باندے راشی کہ بہار

یعنی میں کسی شجر کی طرح اپنی جڑوں پر سیدھا کھڑا ہوں چاہے خزان آئے یا بہار ... پھر وہی منشور وہی نظریہ ... خدا کے بندوں پلوں کے نیچے کتنا پانی اور پلوں کے اوپر کتنی گاڑیاں گزر گئیں اور تم وہی مرغی کی ایک ٹانگ پکڑے ہوئے ہو، یہ بھی نظر نہیں آتا کہ بازار میں اس ''جنس'' کا کوئی خریدار رہا ہی نہیں، وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، دکان اپنی بڑھا گئے

عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

ٹھیک ہے ہمیں کیا اندھوں کے شہر میں آئینے اور بہروں کے شہر میں ''نغمے'' بیچ رہے ہو، تو بیچتے رہو، کم از کم اپنے اردگرد تو دیکھ لو کہ دکانوں میں کیا بک رہا ہے ... تبدیلی، نیا پاکستان، انقلاب، روٹی کپڑا مکان اور نہ جانے کیا کیا؟ اور تم ہو کہ وہی پرانا ڈیٹ ایکسپائر مال بیچ رہے ہو۔ جب آپ کو خسارے کی یہ سوداگری پسند ہے تو ہم کون ہوتے ہیں روکنے ٹوکنے والے ... شاباش لگے رہو منا بھائی

فائدہ کیا؟ سوچ؟ آخر تو بھی دانا ہے اسد
دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا

بیچتے رہو ٹوپیاں وہاں جہاں کسی کا سر ہے ہی نہیں۔
Load Next Story