ماورائی خیال کا خالق
اٹھارہویں صدی کی رومانوی تحریک کے اثرات آج بھی دنیا بھرکے ادب میں پائے جاتے ہیں
ISLAMABAD:
اٹھارہویں صدی کی رومانوی تحریک کے اثرات آج بھی دنیا بھرکے ادب میں پائے جاتے ہیں۔ اس تحریک کے روح رواں ولیم ورڈز ورتھ نے شاعری کو زندگی کے قریب ترین صنف قرار دیا۔ یہ عام لوگوں کے جذبات کی عکاس ہے۔ لہٰذا شاعری کی زبان سادہ اورعام فہم ہونی چاہیے۔اس کا محور انسانی احساس ہے جو فطرت اورکائنات سے جڑا ہوا ہے۔
انگلستان کے تمام انگریزی کے شاعر، اپنی طرزکے منفرد احساساتی شاعر مانے جاتے ہیں۔ورڈز ورتھ فطرت کو مکمل طور پر انسانی پناہ گاہ سمجھتا ہے۔اس کی نظر میں فطرت، انسان کے ذہن و روح پر نفسیاتی وروحانی طورپراثرانداز ہوتی ہے۔ انسان کی اداسی کو رفع کرتی ہے اور اسے متنوع سوچ کے بے شمار زاویے عطا کرتی ہے۔ وہ فطرت کا انوکھا اور پرکیف روپ دیکھتا ہے جب کہ کیٹس اپنے غم کے عکس میں فطرت کو دیکھ کر وقتی طور پر اپنا دکھ بھول جاتا ہے۔
فطرت اس کے لیے فرار کا راستہ ہے۔ وہ اسے وقتی خوشی سے ہم آہنگ کرتی ہے جب کہ زندگی کے دکھ دائمی طور پر اس کی روح پر حاوی ہیں۔ شیلی فطرت میں منفی و مثبت رخ دیکھتا ہے جو تعمیری اور تخریبی رخ لیے ہوئے ہے۔ ان شعرا میں سیموئیل ٹیلر،کولرج کا اسلوب اور موضوعات مختلف ہیں۔ انگریزی کے شاعر اور نقاد کے روپ میں اس نے شاعری اور تنقید نگاری میں انوکھی اور جدید رجحانات متعارف کروائے۔ فرانس کے انقلاب اور تبدیل ہوتے ذہنی وروحانی اقدار نے اس کی شاعری کو مزید جلا بخشی۔ ولیم ورڈز ورتھ کے ساتھ مل کر اس نے جذبوں کی ایک نئی دنیا دریافت کی۔
کولرج 1772ء میں Ottery St. Mary نامی گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ استاد اور مذہبی پیشوا تھا۔ کولرج دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس کا بچپن تنہائی اور احساس محرومی میں گزرا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کتاب اور تخلیق میں پناہ لی۔ اس کا بچپن طلسماتی کہانیوں کے زیر اثر گزرا۔ کولرج کی صلاحیتوں کو جلا اس کی تربیتی درسگاہ 'کرائس اسپتال لندن گرامر اسکول' نے بخشی۔ اپنے دورکے کولرج نے نہ فقط کلاسیکی رجحانات کا مطالعہ کیا بلکہ وہ عہد حاضر کے ادب سے بھی پوری طرح واقف تھا۔ اسکول کے اداس، باوقار اورمذہبی ماحول نے اسے منطقی، مابعدالطبیعاتی اور ماورائی سوچ عطا کی۔
ادبی ماحول نے اس کی ذہنی تربیت کی۔ تخلیقی ادب کے لیے فقط کتاب کا تحرک ناکافی ہے، مگر بحث مباحثے، اظہارکا تلاطم اور منطقی رویے و تنقیدی رویے، اعلیٰ پائے کی تخلیق کو جنم دینے کا باعث بنتے ہیں۔اس طرح کی سمجھ اور ہنرکو اداسی، تنہائی اور دکھ سے مزید تقویت ملتی ہے۔کولرج کا دور مختلف قسم کی سیاسی، سماجی اور نفسیاتی الجھنوں سے گزر رہا تھا۔جیارج تین کے زمانے کا انتشار سے گزرتا ہوا انگلینڈ بیرونی ملک سیاسی وسماجی عوامل کے زیر اثر تھا۔ سائنسی ترقی اورصنعت کی طرف پیش رفت نے سماجی زندگی کو متاثرکیا تھا۔
کولرج نے اپنی کتاب Biographia Literaria میں ادب کے مختلف احساساتی رویوں پر بحث کی ہے۔ جس میں اس نے تصورات، پرفریب خیال اور سوچ کے مختلف ذرایع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سائنس اور تخلیق کو مختلف خانوں میں ڈال دیتے ہیں۔ سائنس کو حقائق اور منطق کے قریب جب کہ ادب کو جذباتی، غیر عقلی اور توہم پرستی کے دائرے میں ڈال دیا جاتا ہے، لیکن ادب اور سائنس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مثال Fancy یا Imagination یا جذبات جسم کے کیمیائی اثر کا ردعمل ہے۔ تخلیق کا محور Dopamine ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے جو جذباتی ردعمل اور احساساتی عمل کو فعال بناتا ہے اور ڈوپا مائن ہی تخلیق کا محور ہے۔ بالکل اسی طرح انسانی حسیں جسم کا ایسا طریقہ کار ہے، جسے سائنس نے منطقی انداز سے بیان کیا ہے۔ مثال بصری تاثر جسم کا میکنزم ہے۔
آپ وہ تاثر کس طرح سمجھ رہے ہیں یہ ذہن کا الگ طریقہ کار ہے۔ جسم کا ہر عضو الگ کام کر رہا ہے۔ دیکھنا اور محسوس کرنا الگ کیفیتیں ہیں۔ ان کا سائنسی جواز بھی الگ ہے۔ جس میں باطنی اور خارجی عوامل یکساں طور پر ملوث ہیں۔ اب آتے ہیں کولرج کی طرف وہ فینسی اور امیجینیشن کو جس طرح بیان کر رہا ہے اس کی سائنسی وضاحت نیورو سائنس دے چکی ہے۔ یعنی ظاہری مشاہدے کو داخلی حسیاتی طور پر لاشعور میں منتقل کیا جاتا ہے۔ پھر اسے دوبارہ ذہن کی سطح پر لاکر اس منتشر سوچ کو ترتیب کے سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے۔
فینسی ایک پرفریب خیال ہے جب کہ تصورات سہی تخلیق کا باعث بنتے ہیں۔ تخلیق ایک وجدانی کیفیت ہے۔ یہ جذب کا کمال ہے جو تخلیق کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ مزید برآں باکمال تخلیق اعلیٰ و ارفع جذبات کا کرشمہ ہے۔ اس لحاظ سے فینٹسی خام اشیا کی مانند ہے۔ اور تصورات سانچے کا کام کرتے ہیں دونوں سوچ کے زاویے اہم ہیں۔ دونوں ہی تخلیق کے طریقہ کار کو تکمیل کے مراحل تک لے جاتے ہیں۔
کولرج نے تخلیق کے ان دو مرحلوں سے اعلیٰ پائے کا کام لیا ہے۔ اس کی سوچ حقیقی ہونے کے ساتھ ماورائی بھی ہے۔ سائنس ماورائی یا الہامی رویوں کو مسترد نہیں کرتی بلکہ محدود سوچ ان رویوں کی گہرائی کو سمجھ نہیں پاتی۔ جیسے نفسیات، مابعداز نفسیات کو ماننے میں پس و پیش سے کام لیتی ہے۔ فرائن اور یونگ سے لے کر جدید نفسیات دان لاشعورکی طاقت سے واقف ہیں۔ یہ لاشعور ہی کولرج کی شاعری کا عرفان ہے۔
مثال قبلائی خان کولرج کے لیوسڈ ڈریمنگ (کھلی آنکھوں کے خواب) کا ثمر ہے۔ انسان اپنی حقیقت خود تخلیق کرتا ہے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر وہ اپنا راستہ خود منتخب کرتا ہے۔ وہ سوچ جو تصورات میں ڈھل کر حقیقت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کولرج کی شہرہ آفاق نظم Rime of the Ancient Mariner اور Christabel ماورائی احساس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ تھرڈ لا آف موشن ہے جس میں چیزیں ری باؤنڈ ہوتی ہیں۔ جسے مکافات عمل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ فطرت کا طریقہ کار ہے۔
سائنس اپنی کھوجنا میں فطرت پر انحصار کرتی ہے۔ شاعر الگ سے فطرت سے الہامی سوچ لیتا ہے۔ لوگ اکثر روح کا تذکرہ کرتے ہیں کہ آخر انسانی جسم کے کس حصے میں روح براجمان ہے۔ کہیں یہ لاشعور کا حصہ تو نہیں ہے؟ جسم کے خلیوں میں سانس لیتی روح آخر انسانی زندگی کی کس حقیقت کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ انسانی خلیے جو 120 سال تک زندہ اور متحرک رہ سکتے ہیں۔
فرائڈ سے زیادہ یونگ نے اپنی تحریر میں روح کی حقیقت کی ترجمانی کی ہے۔ یہی روح کولرج کی شاعری کا مرکز ہے، جو زمان و مکان کی قید سے آزاد لافانی ہے۔